افسانہ: طوفان کے بعد

ساری رات بارش ہوتی رہی تھی، صبح جب لوگوں نے اپنے گھروں کے دروازے کھولے تو گلیوں میں پانی ابھی بھی بہہ رہا تھا، درختوں کی ٹہنیاں جو کل تک اپنے پتوں میں چُھپی ہوئی تھیں، آج یوں دکھائی دے رہی تھیں جیسے ان پر کبھی کوئی پتا اُگا ہی نہیں ہوگا۔
درختوں کی جھکی ہوئی اداس ٹہنیاں کسی ہجر کا استعارہ معلوم ہوتی تھیں، بچے کاغذ کی کشتیاں بنا کر پانی سے کھیل رہے تھے، ان بچوں کے قہقہے طوفان کے بعد پھر زندگی کے ہونے کا ثبوت تھے، لیکن وہ نوجوان جس کی عمر 20، 21 سال ہی ہوگی ،اپنے کمرے میں کمبل کے اندر حالتِ خوف میں کانپ رہا تھا، اس نے ایک ایسا منظر دیکھ لیا تھا جو باوجود کوشش کے اس کی آنکھوں سے ہٹ نہیں رہا تھا۔
کل رات جب بارش ہورہی تھی تو وہ واش روم جانے کے لیے اُٹھا، پہلے اس نے بکریوں کے لیے بنے کچے کمرے میں جھانک کر دیکھا، کیونکہ گاؤں میں ان دنوں بکریوں پر عجیب و غریب ’پاگل پن کی وبا‘ نے حملہ کردیا تھا۔ روز کسی نہ کسی کی بکری رات کو تڑپنے لگتی اور صبح تک زمین پر سر مار مار کر خود کو اتنا زخمی کرلیتی کہ بچانا ناممکن ہوجاتا۔
اس نوجوان کے پاس بھی 3 بکریاں تھیں اور اسے ڈر تھا کہ کہیں یہ پاگل نہ ہوجائیں۔ اس وقت طوفان تو تھم چُکا تھا لیکن ہلکی ہلکی بوندا باندی ابھی بھی ہورہی تھی۔ اسی دوران اسے چند آوازیں سنائی دیں، شاید کوئی لڑ رہا تھا۔ یہ آوازیں یقیناً سامنے کے مکان سے آرہی تھیں جو ابھی چند ہی روز پہلے آباد ہوا تھا۔ اس نے آوازوں کو نظر انداز کیا اور جلدی سے واش روم میں گھس گیا۔ وہیں اس نے گولی چلنے کی آواز سنی تھی۔ وہ واش روم سے باہر نکلا تو اسے محسوس ہوا جیسے دیوار کے اس پار گلی میں کوئی دوڑ کر گزر رہا ہے۔ وہ فوراً دیوار پر چڑھ کر گلی میں جھانکنے لگا تو دُور ایک سایہ دوڑتا ہوا غائب ہوگیا تھا۔
’لوگو میرے ساتھ ظلم ہوگیا ہے، میرا شوہر مجھے اور بیٹی کو چھوڑ کر یہاں آگیا ہے، اب وہ ضرور دوسری شادی کرلے گا۔ ہائے میرا کیا ہوگا۔‘
محلے کے لوگوں کے لیے یہ عجیب و غریب صورتِ حال تھی کہ وہ اس آدمی سے ابھی پوری طرح واقف بھی نہیں تھے تو اس عورت کو بھلا کیا جانتے، لیکن انہوں نے اس گھنی مونچھوں والے صاحب سے پوچھا تھا کہ وہ کیوں اپنی بیوی کے ساتھ یہ ظلم کر رہا ہے لیکن اس نے محلے والوں کو بتایا کہ وہ تو خود اس عورت سے تنگ ہے، بس بیٹی کی وجہ سے اِسے طلاق نہیں دے سکتا۔
’یہ میری بیوی نہیں بلکہ جادوگرنی ہے، اس نے مجھ پر جادو کرا رکھا ہے جس کی وجہ سے ہر وقت میرے سر میں درد رہتا ہے اور خوابوں میں اژدھے منہ کھولے مجھے کھانے کے لیے دوڑے چلے آتے ہیں۔ ساری رات مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی میری چارپائی ہلارہا ہے، اُٹھ کر دیکھتا ہوں تو کوئی نہیں ہوتا۔ یہ تو خود دوسری شادی کرنا چاہتی ہے۔ جوان بیٹی کی وجہ سے اِسے طلاق بھی نہیں دے سکتا۔ ہائے میری بیٹی جو مجھے بہت یاد آتی ہے لیکن وہ اپنی ماں کے ساتھ رہنا چاہتی ہے۔‘
محلے کے لوگوں نے حمید صاحب سے ہمدردی کا اظہار کیا اور وہ عورت روتی پیٹتی واپس چلی گئی۔
وہ نوجوان کمبل میں لیٹا اب ڈر رہا تھا، باہر صبح کی روشنی پھیل چکی تھی۔
’قتل ہوگیا ہے، نیا رہائشی قتل ہوگیا ہے‘، اس نے بستر ہی میں یہ آواز سُنی تھی۔ وہ نوجوان بھاگ کر گلی میں گیا، جہاں ایک ہجوم جمع تھا۔ بارش کا پانی ابھی بھی گلی سے گزر رہا تھا، ساری رات بادل برسیں تو گلیاں اتنی جلدی پانی سے خالی نہیں ہوتیں۔
کچھ ہی دیر میں پولیس آگئی اور محلے میں لوگوں سے تفتیش کرنے لگی۔
’سچ پوچھیں تو ہم حمید صاحب کو ابھی مکمل طور پر جان ہی نہیں سکے تھے سوائے اس کے کہ وہ ایک ہفتہ قبل یہاں آئے اور رات کوئی انہیں قتل کرکے چلا گیا‘، ایک محلے دار نے پولیس کو بیان دیا تھا۔
’کسی نے رات کو گولی چلنے کی آواز سنی تھی؟‘، انسپکٹر صاحب نے پوچھا۔
’جی میں نے رات کو آواز سنی تھی، اس وقت میں واش روم میں تھا‘۔
انسپکٹر صاحب اس کے قریب آگئے۔
’لیکن انسپکٹر صاحب میں نے تو کسی کو دیکھا ہی نہیں تو مجھے پولیس اسٹیشن کیوں لے کرجایا جارہا ہے؟‘
’ڈرو مت، تمہیں بس یہی بیان وہاں ریکارڈ کروانا ہے اور بس‘۔
’وہ دونوں کس بات پر جھگڑ رہے تھے؟‘
’کیا اس جھگڑے میں روپے پیسے یا زمین کی کوئی بات بھی تھی؟ کسی عورت کا نام جو تم نے سنا ہو؟‘
’گولی لگتے ہی وہ قاتل بھاگ گیا تھا یا اس نے کمروں سے کچھ سامان بھی اُٹھایا تھا؟‘
شفیق اور اس کی بیوی گہری نیند میں تھے جب انہوں نے اپنے گھر کے دروازے پر دستک کی آواز سُنی تھی۔
’پانی‘، ایک نحیف سے آواز تھی۔
’یہ تو کوئی پانی پینا چاہ رہا ہے‘، شفیق نے اپنی بیوی سے کہا۔
’یہ کون سا پانی مانگنے کا وقت ہے؟ مت کھولنا دروازہ۔ گھر میں جوان بیٹی ہے۔‘
’پانی۔ کوئی پانی دے دے، میں مرجاؤں گا‘، ایک درد بھری آواز آئی تھی۔‘
دوسرے کمرے سے ان کی بیٹی گُل رخ اُٹھ کر آگئی تھی۔
’ہاں مجھے بھی معلوم ہے کوئی ہے لیکن یوں آدھی رات کو کون کسی کے دروازے پر دستک دیتا ہے؟‘
’پانی، مسافر ہوں، مررہا ہوں‘، پھر آواز آئی۔
’یہ تو کوئی بیمار ہے، دروازہ کھول دیں‘، گل رخ نے کہا۔
’اچھا تم دونوں دوسرے کمرے میں جاؤ، میں دیکھتا ہوں‘۔
اس کی بیوی فوراً اُٹھی اور باورچی خانے سے چھری لاکر اسے دے دی۔
’یہ پاس رکھو، شاید ضرورت پڑجائے۔‘
شفیق نے چھری پکڑلی اور باہر کے دروازے کی جانب بڑھا۔
’مسافر ہوں، رات ہوگئی ہے، پانی چاہیے ورنہ میں مرجاؤں گا۔‘
’میں مسافر ہوں، پہاڑوں کے اس پار سے آیا ہوں، دراصل...‘، اس نے سوچا۔
’دراصل کام کی تلاش میں مارا مارا پھرتا ہوں۔‘
شفیق کمرے میں آیا تو نوجوان کھڑا ہوگیا۔
’اچھا تو شفیق صاحب، آپ کا بہت شکریہ، اب میں چلتا ہوں۔‘
زرینہ اور اس کی بیٹی گُل رخ اسے خدا حافظ کہنے کے لیے پہلی بار اس کے سامنے آئی تھیں۔
پاکستان اور انڈیا کے بیشتر اردو اخبارات اور جرائد میں محمد جمیل اختر کے افسانے شائع ہوچکے ہیں، جس میں فنون، ادبیات، ایوان اردو دہلی، ادب لطیف، اردو ڈائجسٹ اور سہ ماہی تسطیر قابل ذکر ہیں۔ افسانوں کی پہلی کتاب ’ٹوٹی ہوئی سڑک‘ 2017 میں شائع ہوئی۔