پشاور بی آر ٹی منصوبے کی تکمیل کیلئے پی ٹی آئی حکومت کی ایک اور ڈیڈلائن
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی صوبائی حکومت نے پشاور کے بس ریپڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی) کی تکمیل کے لیے ایک اور ڈیڈلائن دیتے ہوئے کہا ہے کہ منصوبے کو مقررہ مدت سے قبل 30 جون 2020 تک مکمل کرلیں گے۔
پشاور میں ترجمان خیبر پختونخوا (کے پی) حکومت اجمل وزیر اور وزیر ٹرانسپورٹ شاہ محمد نے مشترکہ پریس کانفرنس میں بتایا کہ 2021 بی آر ٹی کی تکمیل کا سال ہے لیکن صوبائی حکومت اس منصوبے کو 30 جون 2020 تک مکمل کرے گی۔
شاہ محمد کا کہنا تھا کہ بی آر ٹی مجبوری کی حالت میں شروع کیا گیا کیونکہ شہر میں ٹرانسپورٹ کے مسائل تھے اور اس منصوبے سے پشاور کے لوگوں کو سہولت ہوگی۔
مزید پڑھیں:ایف آئی اے نے بی آر ٹی پشاور میں بے قاعدگیوں کی تحقیقات شروع کردیں
انہوں نے واضح کرتے ہوئے کہا کہ جون 2021 اس منصوبے کی تکمیل کا سال ہے لیکن ہم کوشش کر رہے ہیں کہ اس منصوبے کو جلد مکمل کریں۔
صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ کا کہنا تھا کہ اس منصوبے کو اپوزیشن نے سیاسی بنایا جبکہ منصوبے کی 6 ماہ میں تکمیل کی بات اس وقت کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کی ذاتی رائے تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم 30 جون تک منصوبے کو مکمل کریں گے، ٹھیکیدار کے ساتھ ہمارا معاہدہ ہوا ہے اور وقت پر کام مکمل کریں گے، اگر کام وقت پر مکمل نہیں ہوا تو جرمانہ عائد کریں گے۔
یاد رہے کہ بی آر ٹی منصوبے پر تعمیراتی کام کا آغاز اکتوبر 2017 میں ہوا تھا اور اس وقت کی پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت نے اعلان کیا تھا کہ منصوبے کو 2018 کے انتخابات سے قبل 6 ماہ میں مکمل کرلیا جائے گا لیکن 6 ماہ میں مکمل نہیں کیا جاسکا۔
بعد ازاں جولائی 2018 میں پشاور ہائی کورٹ نے قومی احتساب بیورو (نیب) کو منصوبے کی تحقیقات کا حکم دیا تھا لیکن صوبائی حکومت نے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا جس کو اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے معطل کردیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں:'تاریخ پہ تاریخ آخر کب تک'
پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت نے 23 مارچ 2019 تک منصوبے کی تکمیل کی ڈیڈ لائن دی تھی جو پوری نہ ہوسکی جس کے بعد 30 جون 2019 کی نئی ڈیڈلائن دی گئی اور یہ ڈیڈ لائن بھی حاصل نہ کی جاسکی۔
جولائی 2019 میں حکومت نے اعلان کیا کہ سال کے اواخر تک منصوبے کو مکمل کرلیا جائے گا۔
پشاور ہائی کورٹ نے بی آر ٹی منصوبے کے حوالے سے دائر درخواستوں پر 14 نومبر 2019 کو فیصلہ سناتے ہوئے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو تحقیقات کا حکم دیا کیونکہ رپورٹس کے مطابق منصوبے کی ابتدائی لاگت بھی 49 ارب روپے سے بڑھ کر 68 ارب روپے تک جاپہنچی ہے۔
پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ اور جسٹس احمد علی پر مشتمل بینچ نے ایف آئی اے کو نشاندہی کیے گئے 35 نکات کی روشنی میں تحقیقات کرنے اور کوئی قصوروار ہو تو اس کے خلاف کارروائی کرکے 45 روز میں انکوائری رپورٹ مرتب کرنے کا حکم دیا تھا۔
صوبائی حکومت نے ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف ایک مرتبہ پھر سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا جبکہ ایف آئی اے نے تحقیقات بھی شروع کردی ہیں۔
ایف آئی اے خیبرپختونخوا کے ایڈیشنل ڈائریکٹر ڈاکٹر میاں سعید نے دسمبر 2019 میں ڈان کو بتایا تھا کہ عدالت کے احکامات پر بی آر ٹی منصوبے کی تحقیقات کا آغاز ہوگیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایف آئی اے کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر کی سربراہی میں تفتیش کاروں کی خصوصی ٹیم ان کی نگرانی میں کام کرے گی۔
یہ بھی پڑھیں:خیبرپختونخوا حکومت کا بی آر ٹی کی تحقیقات کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کا فیصلہ
ڈاکٹر میاں سعید کا کہنا تھا کہ 4 رکنی ٹیم نے منصوبے سے متعلق دستاویزات کی فراہمی کے لیے پروجیکٹ کی ایگزیکیوٹنگ ایجنسی، پشاور ڈیولپمنٹ اتھارٹی اور سول سیکریٹریٹ کو نوٹسز جاری کر دیے ہیں۔
ایف آئی اے خیبرپختونخوا کے ایڈیشنل ڈائریکٹر کا کہنا تھاکہ وفاقی تحقیقاتی ادارہ، عدالت کی جانب سے بس منصوبے پر اٹھائے گئے 35 نکات پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے جس کے لیے 4 دسمبر کو عدالتی احکامات موصول ہوئے تھے۔
'بچوں سے زیادتی کے ملزمان سے متعلق نیا قانون'
پریس کانفرنس کے دوران صوبائی حکومت کے ترجمان اجمل وزیر کا کہنا تھا کہ بچوں کے ساتھ زیادتی کے ملزمان کو سزا کے لیے قانون لارہے ہیں اور بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے والے درندوں کو سخت سے سخت سزا دیں گے۔
یہ بھی پڑھیں:نوشہرہ: لاپتہ 8 سالہ بچی کی لاش برآمد، 2 ملزمان گرفتار
اجمل وزیر کا کہنا تھا کہ ہم قانون بناتے ہیں لیکن پھر لوگ عدالت چلے جاتے ہیں۔
خیال رہے کہ کے پی کے علاقے زیارت کاکا صاحب میں دو روز قبل 8 سالہ بچی کو زیادتی کے بعد قتل کیا گیا تھا تاہم 2 ملزمان کو گرفتار کرکے جسمانی ریمانڈ حاصل کرلیا گیا تھا۔
ایس پی انویسٹی گیشن سجاد خان نے کہا کہ ڈی پی او نے کیس کی تحقیقات کے لیے ٹیم تشکیل دے دی اور ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔