سیاسی میدان پر اپوزیشن میں پنجاب، مدھیہ پردیش، راجستھان، جھارکھنڈ، کی حکمراں جماعت کانگریس، کمیونسٹ پارٹی انڈیا-مارکسی، کمیونسٹ پارٹی انڈیا (سی پی آئی) شامل ہیں، مؤخر الذکر 2 جماعتوں کو ایک خاص وجہ سے الگ الگ لکھا گیا۔
یہ کیریلا کی حکمراں جماعتیں ہیں۔ اپوزیشن گروہوں میں دہلی کی حکمران جماعت عام آدمی پارٹی، مغربی بنگال کی حکمراں جماعت تریمونل کانگریس، طاقتور تامل فورس کی حیثیت رکھنے والی جماعت ڈی ایم کے، جونیئر پارٹنر کے طور پر کانگریس کے ساتھ مل کر مہاراشٹریہ میں مخلوط حکمرانی کرنے والی شِو سینا اور نیشنلسٹ کانگریس پارٹی شامل ہیں جبکہ لالو یادو آج بھی بہار کے کسانوں کی اہم طاقت بنے ہوئے ہیں۔
دوسری طرف اتر پردیش میں اکھلیش یادو اور اجیت سنگھ کسانوں کے مضبوط گروہوں کی نمائندگی کرتے ہیں اور مایا وتی دلت اپوزیشن کی سرپرست ہیں۔
اسی کے ساتھ ساتھ گجرات سے مضبوط پٹیدار موومنٹ کی صورت میں ہاردک پٹیل اور کشمیر سے فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی کی یکجا ہوتی آوازیں بھی ہیں، مگر اس وقت یہ رہنما جیل میں قید ہیں۔
ایسے ہی کئی رہنما ان ذات برادری اور علاقائی گروہوں کی نمائندگی کرتے ہیں جن پر ساری مسلح افواج، پولیس اور بیوروکریسی کا ایک اہم حصہ ٹکا ہوا ہے۔ اگر انہیں تھوڑا بھی تحرک ملے تو یہ بھی ایک زبردست اسٹریٹ پاور کو جنم دے سکتے ہیں۔
بھارت میں مون سون پر ٹکی معیشت اور اس کی سیکیورٹی کو ہمیشہ کسان مزدوروں نے ہی سہارا دیا ہے، پھر چاہے وہ سکھ ہوں یا مراٹھا یا پھر کسی دوسرے علاقے سے ہوں، نہ کہ ان بزنس کلبز نے سہارا دیا ہے جو پیسے کی طاقت سے حکمرانوں کو منتخب کروانے کی سازشوں میں مصروف رہتے ہیں۔
تو آخر کیا وجہ ہے کہ اپوزیشن اس قدر قوت کی حامل ہونے کے باوجود کمزور بنی ہوئی ہے؟ اس کی اہم وجہ ہے اقتداری لت کی عادت۔ مگر یہی عادت اپوزیشن عناصر کو قابلِ بھروسہ اپوزیشن کے طور پر یکجا کرنے کے لیے کافی ہے مگر یہ کسی بھی لحاظ سے اتنا سہل معاملہ نہیں ہے۔
عام آدمی پارٹی نے جموں و کشمیر میں آرٹیکل 370 کی منسوخی کی حمایت کی۔ نقادوں کا کہنا ہے کہ یہ جماعت شہریت کے ترمیمی ایکٹ کے خلاف مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ نہیں لے رہی ہے، جو شاید سچ نہیں۔ ہم نے عیسائی اور مسلمان رہنماؤں کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ عام آدمی پارٹی نے ان کے مفادات سے دغا کیا ہے۔ فرض کرلیجیے کہ یہی حالات ہیں تو کیا لوگوں کو عام آدمی پارٹی کو ہرانے اور دہلی پر اقتدار کے حصول کی خاطر بی جے پی کی مدد کرنی چاہیے؟ اگر ایسا ہوتا ہے تو دیگر کے بارے میں کیا خیال ہے؟
ممتا بینرجی فرقہ وارانہ شہریت کے قانون کے خلاف لڑائی میں پیش پیش ہیں مگر بایاں بازو یہ بات یاد دلاتا ہے کہ وہ کسی وقت میں واجپائی کی زیرِ قیادت حکمراں اتحاد کا حصہ تھیں۔ ممتا بینرجی نے وزیرِاعظم مودی کے حالیہ کلکتہ دورے کے موقعے پر ان سے ملاقات بھی کی۔
سی پی آئی سے تعلق رکھنے والے مرحوم صحافی ضیاالحسن نے چند باتیں کہی تھیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ راجیو گاندھی کی جانب سے مسلمان بیوہ کو تحفظ کی فراہمی کی خاطر سپریم کورٹ کے حکم نامے کی تنسیخ کے خلاف ای ایم ایس نمبوتری کے حد سے زیادہ مفادات چھپے تھے۔