اپوزیشن متحد ہوگئی تو مودی حکومت کو چھپنے کی جگہ بھی شاید نہ ملے


بھارت میں دائیں بازو کے حکمرانوں کو اس بات کا اندازہ ہے کہ وہ ایک ایسے گھوڑے پر سوار ہیں جس کی لگام چھوٹ جانے سے ان کے لیے سخت نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ اُس تحقیقاتی کمیشن سے بھی سخت جس کا سامنا اندرا گاندھی کو اپنی ایمرجنسی کی زیادتیوں کے باعث کرنا پڑا اور جس کے بعد انہیں ایک دن جیل میں گزارنا پڑا اور پارلیمنٹ سے ان کی رکنیت بھی منسوخ کردی گئی۔
امرتیہ سین کہتے ہیں کہ 5 سال 7 ماہ سے قائم سماجی طور پر تقسیم پر مبنی اور اقتصادی طور پر تباہ کن اقتدار کے موجودہ حکمرانوں کی واحد کامیابی صرف اپنے خلاف تمام مقدمات کو ختم کروانا اور عدلیہ سے نام نہاد کلین چٹ کا حصول ہی رہی ہے۔ یہی نہیں بلکہ انہوں نے مقدمات کا سامنا کرنے والوں یا پھر سنگین جرائم پر سزا یافتہ اپنے خاص سپاہیوں کو بھی ضمانت پر رہائی دلوا دی ہے، بلکہ ان میں سے ایک کو تو پارلیمنٹ تک بھی پہنچا دیا ہے۔
ان کے نظریاتی آقا یعنی راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے رہنما موجودہ حکومت کو ایک ایسے مسیحے کے طور پر دیکھتے ہیں جو ان کے وہ عزائم پورا کرنے آیا ہے جن پر ان کی تمام تر توجہ مرکوز ہے۔
یہ گروہ مودی - شاہ حکومت کو ایک ایسی کھڑکی کے طور پر دیکھتا ہے جسے انہوں نے بھارتی آئین کو تار تار کرنے اور اس جگہ عوامی لاعلمی اور پست اسٹریٹ پاور لانے کے لیے پوری جان لڑا کر کھولا ہے۔
ہٹلر کے جرمنی یعنی اس جیسا بننے کے خواہاں بھارت کو آگے بڑھانے میں ان کے جس صنعتی پاور ہاؤس نے اہم کردار ادا کیا وہ انتہائی دوستانہ (crony) قسم کے سرمایہ داروں کے ایک خاص گروہ پر تکیہ کیے ہوئے نظر آتے ہیں۔ حکومت اس وقت عوام کا دھیان بھٹکائے رکھنے کی ساری چال بازیوں کا ذخیرہ استعمال کرچکی ہے اور اب انہوں نے سڑکوں کا رخ کرلیا ہے۔
آر ایس ایس کو صرف بھارتی جمہوریت سے ہی تکلیف نہیں ہے بلکہ یہ رام موہن رائے، ٹیگور، گوکھیل اور رنادے کے وقت سے بھارتی مصلحین کے روشن خیال اور ہم آہنگی کے حامی ہندومت کے خلاف شدید جنگ کی نمائندگی بھی کرتی ہے۔ آر ایس ایس کو پیری یار اور تکارام سے بھی تکلیف ہے اور گوری لنکیش اور کالبرگی سے بھی۔ ان کے ممبران نے گاندھی اور گنیش شنکر ودیارتھی کے قتل پر خوشیاں منائی تھیں، اور یہ لبرل نظریات کے نہرو ورثے کے خلاف گھٹیا پروپینگڈے کو بڑھاوا دیتی ہے۔ سکھ، مسلمان، دلت، بدھ پیروکار اور عیسائی ان کے نشانے پر رہے ہیں جبکہ وہ اونچی ذات کے مزموم نظریے پر پختہ یقین رکھتے ہیں۔
ریاست اور اسٹریٹ پاور کے غیر معمولی امتزاج سے پیدا ہونے والی طاقت کا سامنا کرنے والوں کو قوتوں کی حقیقی صلاحیتوں کا شاید اندازہ ہی نہیں ہے۔ مودی حکومت کے مخالفین سیاسی طور پر اتنے ہی مختلف رنگ رکھتے ہیں جتنے بھارت رکھتا ہے۔ لیکن مخالفین باہمی شکوک و شبہات کی لیگیسی کے باعث کمزور بنے ہوئے ہیں۔
آئیے مودی شاہ گٹھ جوڑ پر تنقید کرنے والی طاقتور قوتوں کی حقیقی مثالوں کا ایک جائزہ لیتے ہیں۔ ان قوتوں کے مرکزی کرداروں میں بائیں بازو کی مختلف جماعتوں کے طلبا، مختلف اقسام کے امبیدکر پیروکار، طاقتور سکھوں کے ساتھ ساتھ مضبوط پکڑ آواز بلند کرنے والے عیسائی، جماعت اسلامی سمیت خواتین کی زیرِ قیادت کام کرنے والے مسلمانوں کے مختلف گروہ اور دیگر اقلیتیں اور اونچی ذات والے ہندوؤں کی ایک بڑی تعداد بھی شامل ہے۔
لکھاری نئی دہلی میں ڈان کے نمائندے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس jawednaqvi@gmail.com ہے۔