پاکستان

بہتر ہے پی آئی اے کو پاکستان ایئرفورس کے حوالے کردیں، چیف جسٹس

عدالت عظمیٰ نے سی ای او، پی آئی اے کی بحالی کی استدعا مسترد کرتے ہوئے بورڈ آف گورنرز کو تمام امور چلانے کا اختیار دےدیا۔
|

سپریم کورٹ نے پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کے چیف ایگزیکٹو افسر (سی ای او) ایئرمارشل ارشد محمود کی بحالی سے متعلق استدعا مسترد کردی۔

عدالت عظمیٰ میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سی ای او، پی آئی اے کو کام سے روکنے کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ ذرا خود جاکر پی آئی اے میں سفر کریں اور دیکھیں کہ ایئرلائن کا کیا حال کیا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پی آئی اے کو کیسے چلایا جارہا ہے، یہ کسی کی ذاتی جاگیر نہیں بلکہ قوم کی ملکیت ہے، اس کے ساتھ کھلواڑ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

مزید پڑھیں: وزیراعظم کی پی آئی اے کو منافع بخش ادارے بنانے کی ہدایت

انہوں نے کہا کہ چیئرمین پی آئی اے کے تقرر کے طریقہ کار کے تعین کے لیے سپریم کورٹ میں بنیادی انسانی حقوق کا مقدمہ موجود ہے۔

اس موقع پر عدالت نے ایئرکموڈور کو ٹھیکہ دینے کے معاملے پر تشویش کا اظہار کیا اور چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آج اخبار میں خبر چھی ہے کہ کسی ایئرکموڈور کو 70 کروڑ روپے کا ٹھیکہ دیا گیا ہے۔

اسی دوران جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ جنگ اخبار میں 3کالم خبر چھپی ہے، خبر کے مطابق ایک ایئرکموڈور کی 2 ماہ پہلے فرم رجسٹر کی گئی۔

جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ایئرکموڈور کی فرم کو 70 کروڑ روپے کا ٹھیکہ دیا گیا، یہ سی ای او جب سے آئے ہیں پی آئی اے کے کرایوں میں 100 فیصد اضافہ ہوا۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پی آئی اے کو خاندانی کمپنی بنادیا گیا، سی ای او پی آئی اے خود ڈیپوٹیشن پر آئے، ہم سی ای او کو کام سے روکنے کے حکم کو معطل نہیں کریں گے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ خود ڈیپوٹیشن پر آنے والے سی ای او نے 4 ایئر وائس مارشل، 2 ایئر کموڈور، 3 ونگ کمانڈر اور ایک فلائٹ لیفٹیننٹ کو ڈیپوٹیشن پر بھرتی کیا، جس کو چاہے بھرتی کردیں، جسے چاہیں نکال دیں، ایسا نہیں چلے گا۔

عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بہتر ہے کہ پی آئی اے کو پاکستان ایئرفورس کے حوالے کردیں، اسی دوران جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ شاہین ایئرلائن تو آپ سے چلی نہیں اور چلے ہیں پی آئی اے چلانے۔

اپنے ریمارکس جاری رکھتے ہوئے جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ چیئرمین/سی ای او، پی آئی اے کی بھرتی کے لیے اخبار میں دیے گئے اشتہار کا بھی جائزہ لیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: ایئر مارشل ارشد محمود کا بطور سی ای او پی آئی اے بحالی کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع

جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ جائزہ لیں گے کہ کہیں سی ای او ارشد ملک کی قابلیت کو مدنظر رکھ کر اخبار کا اشتہار تو ڈیزائن نہیں کیا گیا۔

بعد ازاں عدالت نے سی ای او پی آئی اے کی بحالی کی استدعا مسترد کرتے ہوئے قومی ایئرلائن کے امور چلانے کا اختیار بورڈ آف گورنرز کو سونپ دیا۔

عدالت نے کہا کہ پی آئی اے کا بورڈ آف گورنرز پی آئی اے کے امور چلائے اور اس بورڈ آف گورنرز کو سی ای او/چیئرمین پی آئی اے کے اختیارات بھی حاصل ہوں گے۔

ساتھ ہی عدالت نے کہا کہ چیئرمین پی آئی اے کے تقرر کے طریقہ کار کے حوالے سے پہلے ہی مقدمہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے، لہٰذا عدالت سندھ ہائی کورٹ میں زیر سماعت مقدمہ، ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل سمیت تمام مقدمات کو یکجا کرکے سنے گی۔

بعد ازاں عدالت نے سندھ ہائیکورٹ میں زیر سماعت مقدمے کا ریکارڈ طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت 2 ہفتوں کے لیے ملتوی کردی۔

پی آئی اے کے سی ای او کا معاملہ

خیال رہے کہ 31 دسمبر 2019 کو سندھ ہائی کورٹ نے قومی ایئر لائن کے چیف ایگزیکٹو افسر ایئر مارشل ارشد ملک کو کام کرنے سے روک دیا تھا اور ادارے میں نئی بھرتیوں، ملازمین کو نکالنے اور تبادلے پر بھی پابندی لگادی تھی۔

سندھ ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے ایئر مارشل ارشد ملک کو کام کرنے اور پی آئی اے میں خرید و فروخت، پالیسی سازی اور ایک کروڑ سے زائد کے اثاثے بھی فروخت کرنے سے روک دیا تھا۔

علاوہ ازیں عدالت نے ڈپٹی اٹارنی جنرل کو 22 جنوری کے لیے نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کر لیا تھا۔

بعد ازاں پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز کے چیف ایگزیکٹو افسر ایئرمارشل ارشد محمود نے اپنے خلاف سندھ ہائی کورٹ کا عبوری فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا تھا۔

مزید پڑھیں: پی آئی اے کے سی ای او ایئر مارشل ارشد ملک کو کام کرنے سے روک دیا گیا

مذکورہ درخواست میں وفاق، کابینہ ڈویژن اور وزارت سول ایوی ایشن کو فریق بنایا گیا تھا اور استدعا کی گئی تھی کہ انہیں عہدے پر بحال کیا جائے۔

واضح رہے کہ ایئر مارشل ارشد ملک کے خلاف ایئر لائنز سینئر اسٹاف ایسوسی ایشن (ساسا) کے جنرل سیکریٹری صفدر انجم نے عدالت میں درخواست دائر کی تھی جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ اس عہدے کے لیے ایئر مارشل ارشد ملک تعلیمی معیار پر پورا نہیں اترتے اور ان کا ایئر لائن سے متعلق کوئی تجربہ نہیں ہے۔

درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ ایئر مارشل ارشد ملک نے 1982 میں بی ایس سی کیا اور اس کے بعد وار اسٹیڈیز سے متعلق تعلیم حاصل کی تاہم انہیں ایئر لائن انڈسٹری اور کمرشل فلائٹس سے متعلق سول ایوی ایشن قوانین سے کچھ آگاہی نہیں ہے۔

چیف الیکشن کمشنر کیلئے سکندر سلطان راجا کے نام پر اتفاق

جسٹس عیسیٰ ریفرنس: 'وزیراعظم بے اختیار ہوئے تو سارا نظام شتر بے مہار ہوجائے گا'

’زندگی تماشا‘ کے خلاف مظاہروں کو روکا جائے، سرمد کھوسٹ عدالت پہنچ گئے