پاکستان

سندھ ہائیکورٹ نے آئی جی کلیم امام کو ہٹانے سے روک دیا

جب تک اسٹیبلشمنٹ ڈویژن سے جواب نہیں آتا، کلیم امام آئی جی سندھ ہی رہیں گے، سندھ ہائی کورٹ
|

سندھ ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت کا جواب آنے تک صوبے کے انسپکٹر جنرل پولیس (آئی جی پی) کلیم امام کو ہٹانے سے روک دیا۔

عدالت عالیہ میں آئی جی سندھ کلیم امام کی تبدیلی سے متعلق سماجی کارکن جبران ناصر کی درخواست پر سماعت ہوئی، اس دوران درخواست گزار کے وکیل فیصل صدیقی ایڈووکیٹ پیش ہوئے اور مذکورہ معاملے پر دلائل دیے۔

درخواست گزار کے وکیل نے بتایا کہ عدالت پہلے 2 افسران کو صوبہ بدر کرنے کے احکامات معطل کرچکی ہے جبکہ اب صوبائی حکومت نے آئی جی سندھ کو تبدیل کرنے کے لیے خط لکھ دیا ہے۔

وکیل نے بتایا کہ سندھ حکومت نے کہا ہے کہ آئی جی سندھ کو معطل کرکے نیا آئی جی تعینات کردیا ہے تاہم صوبائی اور وفاقی حکومت ایک دوسرے سے مشاورت کے بعد ہی آئی جی تبدیل کرسکتے ہیں۔

مزید پڑھیں: وفاق کا حکومت سندھ کی درخواست پر آئی جی کلیم امام کو فوری ہٹانے سے انکار

درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ صوبائی کابینہ نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ آئی جی سندھ کی خدمات واپس وفاق کے حوالے کرنے کے لیے خط لکھا ہے۔

دوران سماعت وکیل نے مزید بتایا کہ سندھ حکومت کے خط میں وفاقی اور صوبائی حکومت کے درمیان مشاورت کا ذکر نہیں ہے، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے سندھ حکومت کی درخواست منظور کرنے سے انکار کردیا۔

انہوں نے بتایا کہ وفاق نے کہا کہ جب تک کلیم امام سے متعلق فیصلہ نہیں ہوتا چارج کسی اور افسر کو نہیں دیا جاسکتا جبکہ مذکورہ معاملے پر صوبے اور وفاق کے درمیان کوئی مشاورت نہیں ہوئی۔

سماعت کے دوران وکیل کے دلائل کے بعد ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سندھ شبیر شاہ نے بتایا کہ سندھ حکومت نے ٹیلی فون کے ذریعہ ہدایت دی ہیں تاہم یہ عوامی مفاد کا معاملہ ہے۔

اس پر جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ وفاق کی جانب سے سندھ حکومت کو ابھی تک کوئی جواب نہیں دیا گیا۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ سندھ ہائی کورٹ پہلے ہی یہ فیصلہ دے چکی ہے کہ صوبے اور وفاق کی مشاورت کے بعد آئی جی تبدیل ہوگا۔

عدالت عالیہ نے ریمارکس دیے کہ قانون میں آئی جی سندھ کے عہدے کی مدت 3 سال ہے، صوبائی کابینہ میں آئی جی کی کارکردگی پر بھی بات کی گئی ہے، نئے آئی جی کی تعیناتی قانون کے مطابق کی جائے۔

واضح رہے کہ ڈاکٹر کلیم امام کو ستمبر 2018 میں صوبہ سندھ کا انسپکٹر جنرل تعینات کیا گیا تھا۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ سندھ حکومت کی جانب سے آئی جی تبدیل کے خط کا ابھی تک کوئی جواب نہیں ملا، جب تک اسٹیبلشمنٹ ڈویژن سے جواب نہیں آتا، کلیم امام آئی جی سندھ ہی رہیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ کابینہ نے آئی جی کلیم امام کی خدمات وفاق کو واپس دینے کی منظوری دیدی

سندھ ہائی کورٹ نے کہا کہ اگر شام کو وفاق کا جواب آجائے تو آگاہ کردیں لیکن وفاق کا جواب آنے تک آئی جی سندھ کو نہ ہٹایا جائے۔

بعد ازاں عدالت نے مذکورہ کیس کی سماعت 28 جنوری تک کے لیے ملتوی کردی۔

عدالتی فیصلوں کا مذاق اڑانے کی کوشش کی جارہی ہے، جبران ناصر

علاوہ ازیں عدالتی فیصلے کے بعد جبران ناصر نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ چاہے نقیب اللہ محسود کا کیس ہو یا انتظار یا مقصود کا مقدمہ ہو یا پھر عمر اور بینش کا کیس ہو، اس سب میں پولیس کا احتساب کرتے ہوئے سول سوسائٹی نے کارکردگی دکھائی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں اس بات کا بھی خیال ہے کہ اگر پولیس کو مفلوج کرکے سیاسی قیدی بنادیا جائے گا تو جس بدعنوانی کے خلاف ہم جنگ لڑ رہے ہیں، اس میں ہم ہمیشہ ناکام ہی رہیں گے۔

جبران ناصر کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت قانون پر عمل درآمد کیے بغیر، وفاقی حکومت سے مشاورت کیے بغیر اور آئی جی سندھ کو وفاق اور صوبے کے سامنے اپنے دفاع کا حق استعمال کرنے دینے تک آئی جی سندھ تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت اپنی تمام تر صلاحتیں اور وقت اس کام میں لگا رہی ہے کہ کیسے عدالتی فیصلوں کی خلاف ورزی کی جائے اور ان فیصلوں کی روح کا مذاق اڑایا جائے۔

جبران ناصر کی درخواست

خیال رہے کہ اس سے قبل سماجی کارکن جبران ناصر نے آئی جی سندھ کلیم امام کو ہٹانے کا نوٹیفکیشن عدالت عالیہ میں چیلنج کیا تھا۔

مذکورہ درخواست میں موقف اپنایا گیا تھا کہ آئی جی سندھ کو ہٹانے سے متعلق سندھ حکومت کے اقدامات غیر آئینی اور غیر قانونی ہے، لہٰذا سندھ حکومت کا آئی جی سندھ کو ہٹانے کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دیا جائے۔

درخواست میں کہا گیا تھا کہ آئی جی سندھ کو ہٹانے کا طریقہ کار سندھ حکومت کے نئے قوانین پولیس ایکٹ 2019 کی بھی خلاف ورزی ہے کیونکہ سندھ حکومت نے اپنے نئے قوانین پر بھی عملدرآمد نہیں کیا۔

ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا تھا کہ آئی جی سندھ کو ہٹانا اعلیٰ عدالتوں کے احکامات اور قوانین کی خلاف ورزی ہے۔

آئی جی سندھ کے معاملے پر وفاقی و صوبائی حکومت میں تناؤ

واضح رہے کہ آئی جی سندھ کلیم امام کے معاملے پر وفاق اور سندھ حکومت کے درمیان تناؤ جاری ہے اور آئی جی سندھ پر اصولوں کی خلاف ورزی کا الزام عائد کرتے ہوئے سندھ کابینہ نے 15 جنوری 2020 کو انہیں عہدے سے ہٹانے اور ان کی خدمات وفاق کو واپس دینے کی منظوری دے دی تھی۔

مزید پڑھیں: سندھ پولیس کے نئے آئی جی کے لیے وفاق کو 3 نام بھجوا دیئے گئے

صوبائی حکومت کی جانب سے آئی جی سندھ پر سنگین نوعیت کے الزامات عائد کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ان کے دور میں صوبے میں امن و امان کی صورتحال خراب ہوئی اور ساتھ ساتھ سندھ پولیس کے سربراہ پر حکومت کے احکامات نہ ماننے کا بھی الزام لگایا گیا تھا۔

اس بارے میں ایک عہدیدار نے ڈان کو بتایا تھا کہ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے وزیر اعظم کو جمعرات کی شام ایک خط بھیجا جس میں انہوں نے آئی جی سندھ کے لیے غلام قادر تھیبو، مشتاق احمد مہر اور ڈاکٹر کامران کے نام تجویز کیے تھے۔

تاہم وفاقی حکومت نے صوبائی حکومت کی درخواست پر آئی جی سندھ کو فوری ہٹانے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ صوبائی حکومت کی درخواست زیر غور ہے جس پر کسی فیصلے تک کلیم امام ہی آئی جی سندھ رہیں گے۔