پاکستان

'حکومت کو نواز شریف کی میڈیکل رپورٹس پر اعتراض ہے تو قانونی راستہ اختیار کرے'

اگر حکومت سمجھتی ہے کہ نوازشریف جان بوجھ کر پاکستان نہیں آرہے تو درخوست دائر کرسکتی ہے، لاہور ہائی کورٹ
|

لاہور ہائی کورٹ (ایل ایچ سی) نے سابق وزیراعظم نواز شریف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکالنے کے معاملے پر سماعت کے دوران کہا ہے کہ اگر حکومت کو نواز شریف کی میڈیکل رپورٹس پر اعتراض ہے تو وہ قانونی راستہ اختیار کرے۔

صوبائی دارالحکومت لاہور میں عدالت عالیہ کے جسٹس طارق عباسی کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے سابق وزیراعظم کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے معاملے پر درخواست کی سماعت کی۔

دوران سماعت نواز شریف کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ان کے موکل کو ہائی کورٹ نے ایک مرتبہ ملک سے باہر جانے کی اجازت دی اور ابھی نواز شریف کا بیرون ملک علاج جاری ہے جبکہ نواز شریف کی طبیعت ٹھیک نہیں۔

مزید پڑھیں: لاہور ہائیکورٹ: حکومت کی شرط مسترد، نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم

اس دوران عدالت نے استفسار کیا کہ نواز شریف پاکستان کب واپس آرہے ہیں، جس پر ان کے وکیل نے جواب دیا کہ سابق وزیراعظم کا بیرون ملک علاج جاری ہے۔

وکیل نے بتایا کہ ہم نواز شریف کی صحت سے متعلق رپورٹس باقاعدگی سے ہائی کورٹ میں جمع کروارہے ہیں، اس پر وفاقی حکومت کے وکیل نے دلائل دینا شروع کیے اور بتایا کہ عدالت نے چار ہفتوں کے لیے نواز شریف کو ملک سے باہر جانے کی اجازت دی اور یہ وقت مکمل ہو چکا ہے لیکن نوازشریف واپس نہیں آئے۔

اس پر جسٹس چوہدری مشتاق نے ریمارکس دیے کہ حکومتی وکیل یہاں سیاسی بیان نہ دیں بلکہ قانون کی بات کریں، جس پر وفاقی حکومت کے وکیل نے کہا کہ نواز شریف کے 4 ہفتے مکمل ہوچکے ہیں لیکن انہوں نے لاہور ہائی کورٹ سے توسیع نہیں لی۔

بعد ازاں عدالت نے ریمارکس دیے کہ ہائیکورٹ کے حکم میں لکھا ہے کہ نوازشریف کو جب ڈاکٹرز فٹنس سرٹیفکیٹ دیں تو وہ واپس آجائیں جبکہ نوازشریف کے وکیل کہہ رہے ہیں کہ ان کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے وہ ابھی پاکستان نہیں آسکتے، جس پر وفاقی حکومت کے وکیل نے بتایا کہ نواز شریف کو اگر اپنے بیرون ملک قیام کے دورانیے میں توسیع چاہیے تو انہیں عدالت سے رجوع کرنا چاہیے تھا۔

جس پر عدالت نے کہا کہ اگر وفاقی حکومت سمجھتی ہے کہ نوازشریف جان بوجھ کر پاکستان نہیں آرہے تو وہ درخوست دائر کرسکتی ہے۔

ساتھ ہی عدالت نے حکومت کو نواز شریف کی میڈیکل رپورٹس پر اعتراضات کی صورت میں قانون کے مطابق رجوع کرنے کا کہہ دیا، جس کے بعد مذکورہ کیس کی سماعت ملتوی کردی گئی۔

واضح رہے کہ گزشتہ برس نومبر میں حکومت نے نواز شریف کو اپنے علاج کے لیے 4 ہفتوں کے لیے 'ایک مرتبہ' باہر جانے کی اجازت دینے کا اعلان کیا تھا۔

تاہم حکومت نے شریف خاندان کو 7 سے ساڑھے 7 ارب روپے تک کے انڈیمنٹی بانڈ جمع کروانے کا کہا تھا، جس پر مسلم لیگ (ن) نے حکومت کے اس فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے اسے 'جانبدارانہ' اور 'بدلے کی سیاست پر مبنی' قرار دیا تھا۔

مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے مذکورہ معاملے پر عدالت جانے کا اعلان کیا تھا اور مسلم لیگ (ن) کی قانونی ٹیم نے انڈیمنٹی بانڈز کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی اور حکومت پر 'گندی سیاست' کرنے کا الزام لگایا تھا۔

بعد ازاں 16 نومبر 2019 کو لاہور ہائی کورٹ نے میڈیکل رپورٹس کی بنیاد پر نواز شریف کو 4 ہفتوں کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دیتے ہوئے انڈیمنٹی بانڈز کی شرط کو معطل کردیا تھا۔

عدالت کی جانب سے شریف برادران کی جانب سے معمولی ترمیم کے ساتھ جمع کراوے گئے بیان حلفی کی روشنی میں یہ اجازت دی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: ای سی ایل کا معاملہ: وفاقی حکومت اپنے فیصلے سے مریم نواز کو آگاہ کرے، لاہور ہائیکورٹ

اس بیان حلفی میں نواز شریف نے کہا تھا کہ میں عہد کرتا ہوں کہ ماضی کے ریکارڈ کے تحت میں قانون و انصاف پر عمل پیرا ہوتے ہوئے 4 ہفتوں یا جتنی جلدی میرے ڈاکٹر مجھے سفر کی اجازت کے لیے ٹھیک قرار دیں میں واپس پاکستان آجاؤں گا اور میں اپنے بھائی شہباز شریف کی جانب سے دیے گئے بیان حلفی کی بھی تائید کرتا ہوں۔

شہباز شریف کے بیان حلفی میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ میں یہ یقین دہانی کرواتا ہوں کہ میرے بھائی میاں محمد نواز شریف 4 ہفتوں یا جب ڈاکٹر کی جانب سے انہیں پاکستان آنے کے لیے فٹ قرار دیا گیا وہ واپس آجائیں گے۔

علاوہ ازیں نواز شریف اپنی ضمانت کی مدت کے دوران ہی علاج کے لیے بیرون ملک روانہ ہوئے تھے جبکہ انہوں نے کوئی انڈیمنٹی بانڈز بھی جمع نہیں کروائے تھے۔