نقطہ نظر

آسیب کہانیاں - پانچویں قسط

تھوڑی دیر بعد پھر آہٹیں آنا شروع ہوگئیں۔ مگر اب میں اپنی جگہ سے نہیں اٹھا، بلکہ سر کو بھی آوازوں کی طرف نہیں گھمایا۔

’جب وہاں کوئی نہیں تھا تو وہ آوازیں کس کی تھیں؟‘

**تحریر و تصاویر: عبیداللہ کیہر


اس سیریز کی بقیہ اقساط۔ پہلی، دوسری، تیسری اور چوتھی قسط۔


میں پہلی مرتبہ فیری میڈوز 2001ء میں اپنے دوستوں ڈاکٹر قیصر اور ڈاکٹر اکرم کے ساتھ گیا تھا۔ شاہراہِ قراقرم پر دریائے سندھ کے کنارے رائے کوٹ پل سے ہم نے جیپ لی تھی جس نے ڈیڑھ گھنٹے کے دشوار گزار راستے پر سفر کرکے ہمیں 10 ہزار فٹ بلند گاؤں ’تتو‘ تک تو پہنچا دیا تھا، لیکن فیری میڈوز پہنچنے کے لیے ابھی ہمیں مزید ایک ہزار فٹ اوپر چڑھنا تھا۔

البتہ تتو سے فیری میڈوز تک یہ راستہ اتنا تنگ تھا کہ اس پر صرف پیدل یا گھوڑے پر بیٹھ کر ہی جایا جاسکتا تھا۔ مقامی لوگ تو یہ فاصلہ 2 گھنٹے میں طے کرلیتے ہیں، لیکن ہم شہریوں کو فیری میڈوز تک پہنچنے میں تقریباً 7 گھنٹے لگ گئے تھے۔

2001ء کے بعد مجھے فیری میڈوز جانے کا موقع 2018ء میں یعنی 17 سال بعد ملا۔ اس بار یہ سفر اپنے دوست شکیل فہیم اور ملک شاہنواز کے ساتھ کیا۔ ان دونوں کا ایک ایک لڑکا بھی ہمارا ہمسفر تھا۔

مقامی لوگ تو یہ فاصلہ 2 گھنٹے میں طے کرلیتے ہیں، لیکن ہم شہریوں کو فیری میڈوز تک پہنچنے میں تقریباً 7 گھنٹے لگ گئے

رائے کوٹ برج سے تتو تک تو ہم جیپ لے کر آگئے، لیکن اس دفعہ اس سے آگے فیری میڈوز تک پیدل چڑھائی کی ہمت نہ کرسکے۔ چنانچہ یہاں سے ہم نے 5 گھوڑے لیے اور ان کی پیٹھ پر لٹکے لٹکے اس تنگ پگڈنڈی پر چل دیے کہ جس کے برابر میں رائے کوٹ نالا ہزاروں فٹ گہرائی میں گرجدار آواز کے ساتھ تیزی سے بہتا ہوا نیچے دریائے سندھ کی طرف جا رہا تھا۔ ہم اس گہرائی سے آنکھیں چراتے ہوئے 2 گھنٹے میں فیری میڈوز پہنچ گئے۔

جیپ اسٹاپ

جیپ کا دشوار گزار راستہ

یہ ستمبر کا مہینہ تھا اور فیری میڈوز گہرے بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا۔ رات ہونے تک بارش بھی شروع ہوگئی اور سردی یکایک بڑھ گئی۔ بلندی کی وجہ سے فیری میڈوز میں آکسیجن کی بھی کمی تھی اس لیے سانس لینے میں کچھ دشواری ہو رہی تھی۔ بہرحال رات کسی طرح گزر گئی۔ صبح ہی صبح سب خوشی خوشی اٹھے اور ہوٹل کے کمرے سے باہر نکلے تاکہ نانگا پربت کا نظارہ کرسکیں، لیکن یہ کیا؟ بادل تو اسی طرح چھائے ہوئے تھے اور نانگا پربت کی چوٹی ان کے دبیز پردے میں کہیں چھپی ہوئی تھیں۔

خیر ناشتہ کرنے کے بعد ہم نے پھر گھوڑے بک کروائے اور یہاں سے اور اوپر بیال کیمپ کے گاؤں سے ہوتے ہوئے رائے کوٹ گلیشئر کے کنارے نانگا پربت ویو پوائنٹ پہنچ گئے۔ لیکن یہاں بھی بادلوں کا ڈیرہ تھا، بلکہ ہمارے پہنچتے ہی یہاں برف بھی گرنے لگی۔ ابھی ہم واپسی کا ارادہ کر ہی رہے تھے کہ برف گرنا بند ہوگئی۔ اسی وقت ہم نے اپنے سامنے دیکھا اور دیکھتے ہی رہ گئے۔ ہمارے بالکل سامنے والے بادل مہربانی کرکے تھوڑا سا کھسک گئے تھے اور نانگا پربت کی حسین چوٹیاں ہمیں اپنی جھلک دکھا رہی تھیں۔

نانگا پربت کی جھلک

فیری میڈوز واپس آتے ہوئے ہمیں راستے میں ایک چرواہا ملا۔ اس کی بکریاں، بھیڑیں اور گائیں فیری میڈوز کی گھاس اور جڑی بوٹیاں چر چر کر خوب موٹی تازی ہو رہی تھیں۔ ایک چھوٹے مگر صحت مند بکرے پر شکیل بھائی کا دل آگیا۔ چرواہے سے قیمت پوچھی تو بولا 5 ہزار روپے۔ شکیل بھائی کی تو باچھیں کھل گئیں۔ انہوں نے جھٹ اپنی جیب سے 5 ہزار کا نوٹ نکال کر چرواہے کو تھمایا اور اسے بکرا ہوٹل پہنچانے کا کہہ دیا۔ یعنی آج رات سب کی ضیافت تھی۔ مٹن بار بی کیو، چانپ، کڑاہی، کلیجی فرائی، مغز فرائی، رات کو ہم نے ہی نہیں، پورے ہوٹل اسٹاف نے بھی ہمارے ساتھ یہ دعوت اڑائی۔

اگلی صبح واپسی تھی۔ رات بھر شدید سردی کی وجہ سے نیند بھی ٹھیک نہیں آئی۔ چنانچہ صبح سویرے ہی اٹھ کھڑا ہوا اور واپسی کے لیے تیار ہوگیا۔ آسمان پر بادل اسی طرح چھائے ہوئے تھے۔ تھوڑی دیر میں ہمیں تتو واپس لے جانے والے گھوڑے بھی پہنچ گئے۔ میں تو جلد از جلد یہاں سے نکلنا چاہ رہا تھا کیونکہ سردی اور بارش کی وجہ سے مجھے بالکل مزا نہیں آرہا تھا۔ چنانچہ گھوڑوں کے آتے ہی میں تو فوراً اپنے گھوڑے پر سوار ہوگیا۔ باقی لوگ تو ابھی کمرے سے بھی باہر نہیں آئے تھے۔ میں نے اپنی واپسی کا اعلان کردیا اور گھوڑے والے سے چلنے کو کہا۔ وہ بھی میری طرح جلدی میں ہی تھا اس لیے گھوڑے کی لگام پکڑ کر آگے آگے چل پڑا۔

فیری میڈوز اور تتو کا درمیانی سفر پہاڑ کی ڈھلوان پر ایک گھنے جنگل میں ہوتا ہے۔ اس جنگل کے درخت صدیوں پرانے ہیں کیونکہ یہاں تک سڑک نہ ہونے کی وجہ سے ان درختوں کو کاٹ کر لے جانا آسان نہیں۔ اس لیے جو درخت بھی پرانا ہوا، یا کسی طوفان کی زد میں آکر اکھڑا، وہ بیچارہ وہیں پڑے پڑے سیاہی مائل ہوکر گل سڑ جاتا ہے اور بالآخر مٹی ہوکر مٹی میں مل جاتا ہے۔

راستے میں جابجا ایسے گرے ہوئے تنے ملتے ہیں۔ اس جنگل میں جگہ جگہ شور مچاتے پہاڑی نالے اور خاموشی سے بہتے شفاف چشمے بھی ملتے ہیں۔ ان بہتے پانیوں کی آوازوں یا پھر کہیں کسی پرندے کی چہچہاہٹ کے سوا یہاں اور کوئی آواز نہیں ہوتی۔ بس بلند و بالا درختوں میں سرسراتی ہوا کا ایک غیر محسوس شور ہوتا ہے۔

میرا گھوڑے والا بھی آگے آگے خاموشی سے چل رہا تھا اور وفادار گھوڑا بڑی جفا کشی اور خاموشی سے اپنے سوار کو کشاں کشاں منزل کی طرف لیے جا رہا تھا۔ ہم جنگل میں ہی تھے کہ ہلکی ہلکی بارش شروع ہوگئی۔ میں نے برساتی جیکٹ پہن رکھی تھی اس لیے اوپر کا بدن تو بھیگنے سے بچ رہا تھا، لیکن پینٹ اور جوتے خوب پسیج رہے تھے۔

واپسی کا سفر کچھ کم وقت میں ہی طے ہوگیا۔ جیسے ہی ہم تتو پہنچے، گھوڑے والے نے مجھے اتارا اور فوراً ہی واپس چلا گیا، لیکن اس کے جانے کے بعد اچانک مجھے یہ تشویشناک احساس ہوا کہ میں اس جگہ بالکل اکیلا ہوں۔

تتو گاؤں دراصل فیری میڈوز کے راستے پر نہیں بلکہ رائے کوٹ نالے کے پار والے پہاڑ کے دامن میں ہے۔ جس جگہ سے فیری میڈوز کی طرف جانے والے پیدل مارچ کا آغاز کرتے ہیں وہاں بس چند لکڑی سے بنے ہوٹل ہیں یا پھر ایک مسجد ہے، اور کچھ نہیں۔

فیری میڈوز واپس آتے ہوئے ہمیں راستے میں ایک چرواہا ملا

فیری میڈوز کا ایک نظارہ

یہاں رائے کوٹ نالےمیں بائیں طرف کے پہاڑوں سے بہہ کر آنے والا ایک اور نالہ بھی شامل ہورہا ہے۔ جس وقت میں ادھر پہنچا، اس وقت وہاں جو دو چار ہوٹل تھے، وہ سارے کے سارے بند تھے۔ میں نے ہر ہوٹل کا دروازہ دھکیل کر دیکھا، لیکن جب انہیں بند پایا تو مسجد کی طرف بڑھا۔ مسجد بھی بند تھی۔ مسجد کی چوبی چھت ایک طرف سے یوں باہر نکلی ہوئی تھی کہ سائبان سا بن گیا تھا۔ اس سائبان کے نیچے ایک بینچ پڑی تھی۔ بارش سے بچنے کے لیے میں اس بینچ پر بیٹھ گیا۔

یہ ایک ایسی جگہ تھی جہاں فیری میڈوز سے آنے والا رستہ دیوار کی اوٹ میں ہوگیا تھا۔ یہاں بیٹھے بیٹھے مجھے راستہ تو نظر نہیں آ رہا تھا، لیکن اس رستے کی ہر آہٹ پر میرے کان لگے تھے کیونکہ میں اپنے ساتھیوں کا انتظار کررہا تھا۔ تھوڑی ہی دیر گزری ہوگی کہ مجھے یوں لگا جیسے اس راستے پر کوئی آرہا ہے۔ اس کے قدموں کی آواز رفتہ رفتہ قریب آتی جارہی تھی۔ میں فوراً اپنی جگہ سے اٹھا اور راستے پر جاکر دیکھا۔ لیکن یہ کیا؟ وہاں تو کوئی بھی نہیں تھا اور اب آواز بھی کہیں غائب ہوگئی۔ میں سمجھا میرے کان بجے ہیں۔ واپس آکر پھر بینچ پر بیٹھ گیا اور دُور تتو گاؤں کے گرم چشمے سے بلند ہوتے بھاپ کے بادل کو دیکھنے لگا۔

چند لمحے گزرے تو مجھے پھر یوں لگا جیسے کچھ لوگ آرہے ہیں۔ ان کے آپس میں باتیں کرنے کی بھنبھناہٹ بھی سنائی دے رہی تھی۔ میں پھر اپنی جگہ سے اٹھا اور راستے پر جاکر اِدھر اُدھر نظر دوڑائی، لیکن وہاں تو اب بھی اسی طرح ہُو کا عالم تھا۔ دُور دُور تک نہ بندہ نہ بندے دی ذات۔ میرے اٹھتے ہی آوازیں بھی یکدم خدا جانے کہاں غائب ہوگئیں۔ مجھے تھوڑی سی گھبراہٹ ہوئی۔ میں نے زیرِ لب آیت الکرسی پڑھی اور دوبارہ مسجد کے زیرِ سایہ آکر بیٹھ گیا۔

تھوڑی دیر گزری ہوگی کہ پھر آہٹیں آنا شروع ہوگئیں۔ مگر اب میں اپنی جگہ سے نہیں اٹھا، بلکہ سر کو بھی آوازوں کی طرف نہیں گھمایا۔ یہ سب اللہ جانے کیا تھا؟ وہاں بیٹھے بیٹھے صدیاں گزر گئیں۔ قدموں کی آہٹیں اور سرگوشیوں کی بھنبھناہٹیں آتی رہیں اور گزرتی رہیں، لیکن کوئی انسان نظر نہیں آیا۔ کچھ دیر مزید گزری ہوگی کہ اچانک مجھے کسی دروازے کی کنڈی کھلنے کی آواز سنائی دی۔ اب میں جلدی سے اٹھا اور راستے پر جاکے دیکھا۔ سامنے والے ہوٹل کا دروازہ کسی نے اندر سے کھولا تھا اور باہر جھانک رہا تھا۔ میں تیزی سے اس کی طرف لپکا اور سلام کیا۔

‘وعلیکم السلام سر، آئیے آئیے’، ہوٹل والے نے خندہ پیشانی سے میرا استقبال کیا اور دروازے سے ہٹ کر مجھے اندر آنے کا رستہ دیا۔

میں نے ہوٹل کے اندر جانے میں ایک لمحہ بھی نہیں لگایا۔ اندر ایک وسیع ہال تھا جس میں 2 لمبی میزوں کے اطراف میں پلاسٹک کی کرسیاں رکھی تھیں۔ ہال کے اندر سے ایک دروازہ کچن میں جا رہا تھا۔ میرے اندر آتے ہی ہوٹل والے نے بیرونی دروازہ بند کیا اور خود کچن میں چلا گیا۔ اب اس ویران اور ٹھنڈے ہال میں تھا تو میں اکیلا ہی، مگر یہاں حفاظت کا احساس بھی تھا اور باہر فیری میڈوز سے آنے والی پگڈنڈی پر نہ نظر آنے والے لوگوں کی آہٹیں بھی نہیں تھیں۔

تتو ولیج کے ویران ہوٹل

ہوٹل کا ہال

فیری میڈوز سے واپسی پر ویران ہوٹل

میں نے اپنا بیگ ٹیبل پر لٹایا اور کیمرا نکال کر اس کے ویو فائنڈر میں اب تک کھینچی گئی تصویریں دیکھنے لگا۔ یہ میں بس اپنا ٹائم ہی پاس کررہا تھا، اصل میں تو میں اپنے دوستوں کا انتظار کر رہا تھا کیونکہ میں کچھ ڈر سا گیا تھا۔ یہاں ہوٹل کے اندر کم از کم یہ اطمینان تو تھا کہ برابر میں میرے علاوہ ایک اور انسان بھی تھا، جس کے چلنے پھرنے کی آواز بھی سنائی دے رہی تھیں، جس کی گنگناہٹ بھی میرے کانوں تک پہنچ رہی تھی اور وہ مجھے دروازے میں سے نظر بھی آرہا تھا۔ وہ میرے جیسا ہی انسان تھا۔

ہال میں یوں اکیلے بیٹھے بیٹھے بھی اچھا خاصا وقت گزر گیا، یا یہ کہ انتظار کے لمحے انسان کو یوں بھی طویل محسوس ہوتے ہیں۔ لیکن آخر اس انتظار کی گھڑیاں بھی ختم ہوئیں اور مجھے دروازے کے باہر بہت سارے قدموں کی آہٹیں سنائی دیں۔ ہوٹل کا دروازہ ایک جھٹکے سے کھلا اور میرے ساتھی گھوڑوں کی پیٹھوں سے اتر اتر کر اندر داخل ہوگئے۔ ان کو دیکھ کر میں نے اطمینان کا سانس لیا، لیکن کسی کو یہ بتانا مناسب نہیں سمجھا کہ میں یہاں ڈر گیا تھا۔

ہوٹل میں ہم نے کھانا کھایا۔ ماش کی دال، چپاتیاں اور چائے نوش کرکے ہم اٹھے اور اس جگہ کی طرف چل پڑے جہاں ہمیں تتو سے شاہراہ قراقرم کی طرف واپس لے جانے والی جیپ کو آنا تھا۔ ان ہوٹلوں اور جیپ اسٹاپ کے درمیان ایک نالا تھا جو پہاڑ سے بہتا ہوا نیچے جاکر رائے کوٹ نالے میں شامل ہو رہا تھا۔ جیپ اسٹاپ تک پہنچنے کے لیے ہمیں نیچے گہرائی میں جاکر اس نالے کو پیدل پار کرنا تھا اور پھر دوسرے کنارے کی چڑھائی چڑھ کر اوپر جیپ تک پہنچنا تھا۔ ہماری جیپ وہاں آچکی تھی اور ڈرائیور ہمارا انتظار کر رہا تھا۔

ہم سب نالا کراس کرنے کے لیے نیچے اترنے لگے۔ میں سب سے آخر میں تھا۔ نیچے اترنے سے پہلے میں نے پیچھے مڑ کر اس راستے کو دیکھا جس پر مجھے کچھ دیر پہلے غیبی مخلوق کے چلنے پھرنے کی آوازوں نے ڈرا دیا تھا۔ پتھروں پر پیر رکھتے، اپنے تھیلوں کو پیٹھ پر سنبھالتے ہم نالے کی طرف اترتے چلے گئے۔ نیچے نالے کی تہہ میں پہنچ کر ہم نے پانی کے اندر پڑے بڑے بڑے پتھروں پر پیر جما کر بڑی مشکل سے نالا کراس کیا۔ دوسرے کنارے پر ایک عمودی چڑھائی سامنے تھی۔ میرے ساتھی اوپر چڑھتے چلے گئے۔ میں نے بھی آسمان کی طرف اٹھتی اس پگڈنڈی پر قدم رکھا اور آہستہ آہستہ چڑھنے لگا۔

مجھ سے آگے جانے والے بہت اوپر پہنچ چکے تھے۔ میں نے اوپر جانے کے لیے چڑھائی پر اپنے قدم جمائے، لیکن جیسے ہی آگے بڑھانے کی کوشش کی تو اچانک مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میرے قدم پتھر کے ہوگئے ہیں۔ اوپر چڑھنے کے لیے آج مجھے کچھ زیادہ ہی طاقت لگانی پڑ رہی تھی حالانکہ اس طرح کی چڑھائیاں تو میں سانس پھولے بغیر سر کرتا رہا ہوں۔ لیکن یہاں نہ صرف میرا سانس پھول رہا تھا بلکہ مجھے اپنا وزن بھی بہت زیادہ محسوس ہو رہا تھا۔

میں نے کسی نہ کسی طرح اوپر بڑھنے کی کوشش کی، لیکن اچانک مجھے یوں محسوس ہوا جیسے کوئی میرے سر پر ہتھوڑے برسا رہا ہو۔ دھم دھم دھا دھم۔ پھر یوں لگا جیسے کوئی میرے سر کو زور زور سے جھٹکے دے رہا ہے، جھنجھوڑ رہا ہے۔ میرا ذہن ماؤف سا ہونے لگا۔ میں نے بیچارگی سے اوپر کی طرف دیکھا۔ میرے سارے ساتھی اوپر پہنچ چکے تھے۔ مجھے کسی نہ کسی طور یہ چڑھائی سر کرنا تھی۔ لیکن صورتِ حال یہ تھی کہ کوئی نادیدہ طاقت میرے سر پر ضربیں لگا رہی تھی اور مجھے جانے نہیں دے رہی تھی۔

میں حیران تھا کہ یہ ہو کیا رہا ہے؟ کیونکہ یہ تو ایک آسان سی چڑھائی تھی جسے مجھے ہنستے کھیلتے عبور کرلینا چائیے تھا، لیکن اس وقت یوں لگ رہا تھا کہ جیسے میں اس طرح کے راستے پر زندگی میں پہلی مرتبہ چڑھ رہا ہوں۔ میں کچھ دیر کے لیے وہیں کھڑا رہ گیا۔ لیکن یوں کھڑا رہنا کوئی حل نہیں تھا۔ مجھے بہرحال وہ چڑھائی چڑھنا تھی۔ میں نے اپنے پورے جسم کا زور لگا کر آہستہ آہستہ اوپر کھسکنا شروع کیا۔ میرے ہر قدم کے ساتھ ساتھ میرے سر پر پڑنے والی ضربوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ اپنے پورے جسم کا زور لگا کر میں کچھ دیر میں اوپر تک پہنچنے میں کامیاب تو ہوگیا، لیکن مجھے یوں لگا جیسے میرے سر کو کسی نے آہنی شکنجے میں جکڑ لیا ہے اور اسی وقت میرا پورا سر ایک شدید درد کی لپیٹ میں آگیا۔ میں بمشکل اپنی جیپ کے قریب پہنچا اور اس کی باڈی سے ٹیک لگاکر آنکھیں بند کرلیں۔ اب میرے اندر اتنی بھی ہمت نہیں تھی کہ جیپ میں سوار ہوپاتا۔ دماغ پر اسی طرح ہتھوڑے برس رہے تھے اور میں اپنی آنکھیں کھولنے کے قابل بھی نہیں رہا تھا۔

اسی وقت اچانک جیپ ڈرائیور کی نظر مجھ پر پڑی۔ اس نے جو یہ حالت دیکھی تو فوراً ڈرائیونگ سیٹ سے اترا اور میرے قریب آکر میرے سر پر اپنے دونوں ہاتھ رکھ دیا۔ میں نے ایک لمحے کے لیے اپنی آنکھیں کھول کر اس کی طرف دیکھا تو مجھے یوں لگا جیسے وہ زیرِ لب کچھ پڑھ رہا ہے۔ پھر اس نے پھونک مار کر میرے سر پر دم کیا اور مجھے سہارا دے کر جیپ کے پچھلے حصے میں سوار کرا دیا۔ میرا دماغ بدستور اسی دھمک کے زیرِ اثر تھا اور آنکھیں نہیں کھل پا رہی تھیں۔

جیپ کے اندر آتے ہی شاہنواز نے مجھ سے پوچھا ‘کیا ہوا؟’

میں نے جواب دینے کی بجائے اپنا سر پکڑ لیا اور بڑی مشکل سے صرف یہ کہہ پایا ‘میرا سر’۔

لیکن مجھے حیرت ہوئی کہ شاہنواز نے بھی سر درد کی کوئی دوا تجویز کرنے کی بجائے میرا سر اپنے ہاتھوں میں تھام لیا اور جلدی جلدی کچھ پڑھ پڑھ کر میرے ماتھے پر دم کرنے لگا۔

ڈرائیور نے اس دوران جیپ اسٹارٹ کرلی تھی اور وہ تتو کے خوفناک راستے پر شاہراہِ قراقرم کی طرف اترتی جا رہی تھی۔ لیکن مجھے کچھ احساس نہیں تھا کہ میں کہاں جا رہا ہوں اور کیسے راستے سے گزر رہا ہوں۔ میں تو بس اپنی آنکھیں بند کیے بیٹھا تھا اور شاہنواز مجھ پر کچھ پڑھ پڑھ کر پھونکے جا رہا تھا۔ جیپ دشوار راستے پر گھومتی لڑکھڑاتی نیچے کی طرف اترتی رہی اور جیسے جیسے تتو سے دُور ہوتی گئی، میری حالت بھی سنبھلتی گئی۔ حتیٰ کہ رائے کوٹ برج تک پہنچتے پہنچتے میں بالکل نارمل ہوگیا، آنکھیں کھل گئیں، سر کا درد جاتا رہا اور مجھے یوں لگا جیسے مجھے کچھ بھی نہیں ہوا تھا۔

میں آج بھی سوچتا ہوں کہ تتو کے اس ویرانے میں وہ کیسی غیبی آوازیں تھیں جو مجھے سنائی دیتی رہیں؟ اور کیا یہ وہی پُراسرار مخلوق تھی جس نے میرے سر پر ہتھوڑے برسائے اور میرے دماغ کو ماؤف کر دیا۔ واللہ اعلم۔

(جاری ہے)

عبیداللہ کیہر

عبیداللہ کیہر پیشے کے لحاظ سے میکینیکل انجینیئر، مگر ساتھ ہی سیاح، سفرنامہ نگار، پروفیشنل فوٹوگرافر اور ڈاکومنٹری فلم میکر ہیں۔ آپ کی اب تک 15 کتابیں بھی شائع ہوچکی ہیں۔ آبائی تعلق سندھ کے شہر جیکب آباد سے ہیں۔ عمر کا غالب حصہ کراچی میں گزارا اور اب اسلام آباد میں رہتے ہیں ۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔