آسیب کہانیاں - پانچویں قسط
’جب وہاں کوئی نہیں تھا تو وہ آوازیں کس کی تھیں؟‘
**تحریر و تصاویر: عبیداللہ کیہر
اس سیریز کی بقیہ اقساط۔ پہلی، دوسری، تیسری اور چوتھی قسط۔
میں پہلی مرتبہ فیری میڈوز 2001ء میں اپنے دوستوں ڈاکٹر قیصر اور ڈاکٹر اکرم کے ساتھ گیا تھا۔ شاہراہِ قراقرم پر دریائے سندھ کے کنارے رائے کوٹ پل سے ہم نے جیپ لی تھی جس نے ڈیڑھ گھنٹے کے دشوار گزار راستے پر سفر کرکے ہمیں 10 ہزار فٹ بلند گاؤں ’تتو‘ تک تو پہنچا دیا تھا، لیکن فیری میڈوز پہنچنے کے لیے ابھی ہمیں مزید ایک ہزار فٹ اوپر چڑھنا تھا۔
البتہ تتو سے فیری میڈوز تک یہ راستہ اتنا تنگ تھا کہ اس پر صرف پیدل یا گھوڑے پر بیٹھ کر ہی جایا جاسکتا تھا۔ مقامی لوگ تو یہ فاصلہ 2 گھنٹے میں طے کرلیتے ہیں، لیکن ہم شہریوں کو فیری میڈوز تک پہنچنے میں تقریباً 7 گھنٹے لگ گئے تھے۔
2001ء کے بعد مجھے فیری میڈوز جانے کا موقع 2018ء میں یعنی 17 سال بعد ملا۔ اس بار یہ سفر اپنے دوست شکیل فہیم اور ملک شاہنواز کے ساتھ کیا۔ ان دونوں کا ایک ایک لڑکا بھی ہمارا ہمسفر تھا۔