—فوٹو:اے ایف پی
مارب کے مرکزی ہسپتال کے میڈیکل حکام کے مطابق حملے میں ہلاک ہونے والے 83 فوجیوں کی لاشیں اور 148 زخمیوں کو ہسپتال لایا گیا۔
رپورٹ کے مطابق 2014 میں شروع ہونے والی یمن جنگ کے دوران مارب میں اب تک کئی افراد مارے جاچکے ہیں لیکن کسی ایک واقعے میں ہونے والی یہ سب سے زیادہ ہلاکتیں ہیں۔
سعودی ٹی وی الحدث نے حملے کے بعد ویڈیو جاری کی جس میں فرش میں خون اور لاشوں کے ٹکڑوں کو دکھایا جاسکتا ہے۔
مزید پڑھیں:یمنی حکومت اور علیحدگی پسندوں کے درمیان اختیارات کی تقسیم کا معاہدہ
یمن میں ڈرون اور میزائل حملے ایک ایسے وقت میں ہوئے ہیں جب ایک روز قبل ہی اتحادی حکومتی فورسز نے صنعا کے شمالی ضلع نیہم میں حوثی باغیوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائی شروع کی تھی۔
سرکاری نیوز ایجنسی کے مطابق نیہم میں حوثی باغیوں کے خلاف کارروائی جاری ہے جہاں درجنوں باغیوں کو مارا گیا ہے اور کئی زخمی ہیں۔
عالمی سطح پر تسلیم شدہ یمنی حکومت کے صدر عبدالرب منصور ہادی نے مسجد پر حملے کی مذمت کی اور اس کارروائی کو دہشت گردی اور بزدلانہ اقدام قرار دیا۔
سرکاری نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق ان کا کہنا تھا کہ ‘حوثی جنگجوؤں کی شرم ناک کارروائی سے اس بات کی تصدیق ہوگئی ہے کہ وہ یمن میں پائیدار امن نہیں چاہتے کیونکہ وہ جنگ وجدل کے علاوہ کچھ نہیں جانتے اور یہ خطے میں ایران کے آلہ کار ہیں’۔
دوسری جانب حوثی باغیوں کی جانب سے اس کارروائی کی ذمہ داری قبول کرنے کے حوالے سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔
یہ بھی پڑھیں:اقوام متحدہ: یمن جنگ بندی کی نگرانی کیلئے کمیشن کی منظوری
یاد رہے کہ یمن میں جاری خانہ جنگی میں اب تک ہزاروں افراد مارے جاچکے ہیں اور لاکھوں بے گھر ہوگئے ہیں جبکہ اقوام متحدہ کی جانب سے متعدد مرتبہ یہاں انسانی بحران جنم لینے کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے پوری دنیا کو خبردار کیا گیا۔
سعودی عرب کی سربراہی میں اتحادی فوجیوں نے مارچ 2015 میں یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف کارروائی شروع کی تھی اور الزام عائد کیا تھا کہ ایران حوثی باغیوں کی پشت پناہی کر رہا ہے۔
حوثی باغیوں نے لڑائی کے شروع میں صنعا پر قبضہ کرکے اپنی حکومت بنالی تھی اور دیگر علاقوں تک جنگ کو پھیلا دیا تھا۔
یمن کی حکومت اور حوثی باغیوں ایک طرف مسلح تصادم میں مصروف ہیں اور دوسری طرف پانچ سال سے جاری بحران میں ایک نیا محاذ کھولتے ہوئے پرانے اور نئے بینک نوٹوں پر تنازع شروع کردیا ہے جس سے ملک میں ایک ہی وقت میں دو معیشتوں کے قیام کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔
حوثی باغیوں نے عالمی سطح پر تسلیم شدہ یمن کی حکومت کی جانب سے جاری نئے یمنی ریال کو مسترد کیا اور عوام سے پرانے نوٹوں کے استعمال کا مطالبہ کیا۔
مزید پڑھیں:یمن میں حکومت اور حوثیوں کی علیحدہ کرنسی جاری، معاشی بحران کا خطرہ
ان کا کہنا تھا کہ نئے کرنسی نوٹوں کو مسترد کرنے کا مقصد مہنگائی کے خلاف اقدامات کرنا ہے جبکہ پابندی سے ایک ماہ قبل حوثی باغیوں کے زیر انتظام علاقوں میں عوام قطاروں میں لگ کر نئے نوٹوں کی جگہ پرانے نوٹوں کے حصول میں سرگرداں تھے۔
جس وقت پابندی کا اعلان کیا گیا تو اس وقت ایک ڈالر کے مقابلے میں یمنی ریال کی قیمت 560 تھی اور اعلان کے بعد حوثیوں کے زیر قبضہ علاقوں میں اس کی قدر کم ہو کر 582 جبکہ حکومت کے زیر انتظام جنوبی علاقوں میں مزید کم ہو کر 642 روپے ہو گئی۔