ملک بھر میں آٹے کا شدید بحران، ارباب اختیار ایک دوسرے پر ذمے داری ڈالنے لگے
اسلام آباد: ملک بھر میں قیمتیں بڑھنے کے بعد ایک مرتبہ پھر آٹے کا بحران سر اٹھانے لگا ہے اور حکومت اور متعلقہ اسٹیک ہولڈرز ذمہ داری لینے اور مسئلے کا حل تلاش کرنے کے بجائے بحران کا قصور وار ایک دوسرے کو ٹھہرا رہے ہیں۔
کئی ماہ سے جاری بحران ایک ایسے موقع پر شدت اختیار کر گیا ہے جب چند دن قبل ہی وزیر اعظم عمران خان نے صوبائی حکام کو ہدایات جاری کی تھیں کہ وہ مہنگی اشیائے خوردونوش کا تدارک کرتے ہوئے عوام کو سستی اشیا کی فراہمی یقینی بنائیں اور ناجائز منافع خوروں کے خلاف کارروائی کریں۔
مزید پڑھیں: وزیراعظم نے غذائی اشیا کی قیمتوں میں کمی کی تجاویز طلب کرلیں
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق خیبرپختونخوا کے نان بائی پہلے ہی پیر سے حکومت کے خلاف ہڑتال پر جانے کا اعلان کر چکے ہیں جہاں پنجاب میں ان کی ایسوسی ایشن نے حکومت کو پانچ دن کا الٹی میٹم دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ انہیں پرانے نرخوں پر آٹا فراہم کریں یا پھر انہیں نان اور روٹی کی قیمتیں بڑھانے کی اجازت دی جائے۔
چاروں صوبوں اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں آٹے کا شدید بحران پیدا ہونے کے بعد یہ معاملہ بھی سیاست کی نذر ہو گیا ہے جہاں تحریک انصاف کی زیر قیادت وفاقی اور پنجاب و خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومتیں اس بحران کا ذمے دار گندم کی کمی کے سبب سندھ میں حکومت کرنے والی پیپلز پارٹی کو قرار دے رہی ہیں۔
نیشنل فوڈ سیکیورٹی کے سیکریٹری ہاشم پوپلزئی نے بتایا کہ ٹراسپورٹرز کی حالیہ ہڑتال سے ملک میں گندم کی ترسیل متاثر ہونا ہی آٹے کے بحران کی بنیادی وجہ ہے، ان کا ماننا ہے کہ یہ وقتی بحران چند دن میں ختم ہو جائے گا اور سندھ میں 20 مارچ اور پنجاب میں 15 اپریل سے گندم کی نئی فصل آنے کے بعد صورتحال مزید بہتر ہو جائے گی۔
یہ بھی پڑھیں: ملک میں مہنگائی کی شرح 9 سال کی بلند ترین سطح 12.7 فیصد تک جا پہنچی
ہاشم پوپلزئی نے الزام عائد کیا کہ حکومت سندھ سے کہا گیا تھا کہ وہ اپنے پاس ایک کروڑ 40 لاکھ ٹن گندم خرید کر رکھ لیں لیکن صوبائی حکومت نے اس جانب توجہ نہیں دی، ملک کی ماہانہ گندم کی ضرورت 22 لاکھ ٹن ہے اور حکومت کے پاس پہلے ہی 42 لاکھ ٹن گندم اسٹاک میں موجود تھی۔
ہفتے کو متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) سے ملاقات کے لیے کراچی میں موجود تحریک انصاف کے سیکریٹری جنرل جہانگیر ترین نے دعویٰ کیا کہ آٹے کا بحران جلد حل ہو جائے گا کیونکہ حکومت نے ڈیوٹی فری گندم درآمد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اپنی وفاقی اتحادی سیاسی جماعت، ایم کیو ایم کو منانے کرنے کے لیے ان کے قائم مقام مرکز بہادرآباد کا دورہ کرنے والے جہانگیر ترین نے کہا کہ حکومت نے دو ماہ اس بحران کے جنم لیتے ہی 4 لاکھ ٹن گندم پاکستان ایگری کلچر اسٹوریج اینڈ سروس کوآپریشن (پاسکو) کو دے دی تھی۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ پاسکو کے پاس اب بھی 3لاکھ ٹن گندم ذخیرہ ہے اور روزانہ کی بنیاد پر کراچی اور حیدرآباد کو نیشنل لاجسٹک سیل کے ذریعے 10ہزار ٹن گندم فراہم کی جائے گی۔
مزید پڑھیں: سال 2019: دسمبر میں بھی مہنگائی کی شرح 12.63 فیصد رہی
انہوں نے حکومت سندھ کو بھی تجویز دی کہ وہ پاسکو سے گندم اٹھا لیں۔
متحدہ نان بائی ایسوسی ایشن کے ایک ذمے دار نے بتایا کہ ان کی راولپنڈی کی مقامی انتظامیہ کے ساتھ ساتھ جہانگیر ترین اور دیگر حکومتی نمائندوں سے کئی ملاقاتیں ہو چکی ہیں لیکن سب بے نتیجہ رہیں۔
راولپنڈی کے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر انور ظہیر جپا نے کہا کہ ہم یہ واضح کر چکے ہیں کہ حکومت قیمتیں نہیں بڑھائے گی، نان بائی گندم کی کمی کی شکایت کر رہے ہیں اور ہم انہیں براہ راست ملوں سے آٹے کی فراہمی کی پیشکش کی ہے لیکن وہ ہمیں اپنے تندور مالکان کی فہرست ہی فراہم نہیں کر رہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ راولپنڈی میں آٹے کی کوئی کمی نہیں، گزشتہ ماہ ہم نے 805 روپے فی 20 کلو کے حکومتی نرخوں پر گندم کے آٹے کے 22 ہزار بیگز مرکزی منڈی کے طے شدہ مقامات پر فراہم کیے تھے لیکن انہوں نے صرف 4 ہزار بیگز فروخت کیے۔
گندم کی قیمت میں اضافے پر مسلم لیگ ن کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے لندن سے اپنے بیان میں کہاکہ حکومت کی نااہلی کے سبب بحران نے جنم لیا اور ذمے داران کے خلاف فوری کارروائی کا مطالبہ کیا۔
یہ بھی دیکھیں: ملک بھر میں آٹے کے بحران سے عوام سخت پریشان
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ عمران خان کی حکومت نے گندم برآمد کرنے والے ملک کو گندم درآمد کرنے والا ملک بنا دیا ہے اور الزام عائد کیا کہ حکومت نے 40ہزار میٹرک ٹن گندم افغانستان بھیجی جس کے نتیجے میں بحران نے جنم لیا۔
لاہور میں شہری اب تک کی سب سے بلند ترین قیمت 70 روپے فی کلو آٹا خریدنے پر مجبور ہیں اور کسانوں نے بحران کا ذمے دار آٹے کے مل مالکان اور حکومت پنجاب کو قرار دیا ہے۔
پاکستان کسان اتحاد کے چیئرمین خالد کھوکھر نے کہا کہ یہ سراسر حکومتی نااہلی ہے جس کے سبب وہ مافیا خصوصاً آٹے کے مالکان اور طورخم کے راستے افغانستان گندم اسمگل کرنے والوں سے نمٹنے میں ناکام رہی ۔
انہوں نے کہا کہ یہ بحران اس وقت شروع ہوا جب حکومت نے 1300روپے کی قیمت پر کسانوں سے زیادہ مقدار میں گندم نہیں خریدی جہاں پیداواری لاگت بڑھنے کے باوجود اس قیمت میں گزشتہ کئی سالوں سے اضافہ نہیں کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر فوڈ مارکیٹوں کے پاس گندم کے مناسب ذخائر ہوتے تو اس نے اوپن مارکیٹ میں قیمت بڑھنے کا انتظار کیوں کیا۔پنجاب کے آٹے کے مل مالکان کا موقف ہے کہ صوبے بھر میں پولٹری اور جانوروں کے کھانے کے لیے گندم کی بڑی تعداد میں کھپت کے سبب اوپن مارکیٹ میں آٹے کا بحران پیدا ہوا۔
پنجاب فلور ملز ایسوسی ایشن کے عہدیدار عاصم رضا کا کہنا تھا کہ ہمیں کوئی مسئلہ نہیں کیونکہ ہم طے شدہ قیمت پر آٹا فروخت کر رہے ہیں، محکمہ خوراک ہمیں روزانہ کی بنیاد پر 25ہزار ٹن گندم فروخت کر رہا ہے اور یہ مسئلہ ہمارا نہیں بلکہ چکیوں کا ہے۔
مزید پڑھیں: لاہور کے شہریوں نے گیس کی عدم فراہمی کا حل نکال لیا
چکی مالکان نے 40کلو گندم کے تھیلے کی قیمت 2ہزار 150روپے تک پہنچنے کے سبب آٹا 70روپے فی کلو سے کم پر فروخت کرنے سے انکار کردیا ہے۔
آٹا چکی ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری عبدالرحمٰن نے کہا کہ ہم 40کلو گندم کا تھیلا 2ہزار 150روپے میں خرید رہے ہیں، ہم اسے 70روپے فی کلو سے کم میں کیسے فروخر کر سکتے ہیں، ہمیں 8روپے فی کلو پسائی اور صفائی پر 2 روپے فی کلو لاگت آتی ہے۔
ان کا کہنا تھا حکومت ہمیں محض پسائی کی لاگت پر گندم فروخت کرنے پر مجبور نہیں کر سکتی، اگر ہمیں 60روپے فی کلو آٹا بھیجنے پر مجبور کیا گیا تو ہم چکیاں بند کر دیں گے۔