یہ ملک آخر کون چلا رہا ہے بھئی؟


اگر جمہوریت میں ہارنے والوں کی رائے یا ان کا خیال شامل ہونا لازمی ہوتا تو پھر پاکستان کسی بھی طور پر ایک جمہوری ملک نہیں کہلایا جاسکتا تھا۔
یہ بات درست ہے کہ ہمارے ہاں انتخابات کا انعقاد ہوتا ہے، ایک ایسی شاندار عمارت بھی موجود ہے جسے اسمبلی کہا جاتا ہے، اور جمہوریت کے تقاضوں کو پورا کرنے کا سارا سامان بھی ہے، لیکن شاید ہی کبھی ہارنے والوں نے یہ تسلیم کیا ہو کہ انتخابات منصفانہ اور شفاف ہوئے ہیں۔
بدقسمتی سے ان کی یہ رائے عموماً ٹھیک ہی ہوتی ہے۔ ویسے تو میں یہاں دھاندلی کی مثالوں کے انبار لگا سکتا ہوں لیکن اپنا نکتہ رکھنے کے لیے گزشتہ انتخابات کی مثال ہی کافی ثابت ہوگی۔
اگر بھارت کا ذکر کریں تو وہاں بھی عام انتخابات کے اس قدر بڑے حجم اور پیچیدگی کے باوجود انتخابی فراڈ کی محض چند شکایات ہی موصول ہوا کرتی ہیں۔ زیادہ سے زیادہ حکمران جماعت پر ریاستی وسائل کے غلط استعمال کے الزامات عائد ہوتے ہیں۔ لیکن الزامات اتنی اہمیت کے حامل نہیں ہوتے کیونکہ امیدواروں کو وسیع فاصلے طے کرنے ہوتے ہیں۔
پھر ہمارے اور ان 2 ملکوں کے انتخابی منظرنامے اتنے مختلف کیوں ہیں؟ پہلی بات تو ان ملکوں میں الیکشن کمیشن آزاد ہے اور اسے ایگزیکیٹو اور عدلیہ کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ دوسری اور اہم بات یہ ہے کہ دونوں ملکوں میں سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ انتخابات میں اپنا کردار ادا نہیں کرتی۔ اسی لیے ان کے پاس انتخابی عمل میں مداخلت اور کسی جماعت کی حامی یا حریف بننے کی کوئی وجہ ہی نہیں ہوتی۔