پاکستان

سعید غنی کی ایس ایس پی ڈاکٹر رضوان پر کڑی تنقید، 'تھرڈ کلاس شخص' قرار دے دیا

صوبہ سندھ کی پولیس کا مزاج نیب کی طرح ہو گیا ہے، جو پولیس کے خلاف بولے اس کے خلاف رپورٹ بنا دو، وزیر اطلاعات سندھ

وزیر اطلاعات سندھ اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) سعید غنی نے سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) شکارپور ڈاکٹر رضوان پر کڑی تنقید کرتے ہوئے انہیں 'تھرڈ کلاس شخص' قرار دے دیا۔

کراچی میں پریس کانفرنس کے دوران سعید غنی نے کہا کہ 'فروری 2018 میں ایک بڑے انگریزی اخبار میں رپورٹ چھپی جس میں چنیسر گوٹھ میں منشیات فروشوں اور جرائم پیشہ افراد کی سیاسی سرپرستی کا الزام لگایا گیا جبکہ رپورٹ میں کسی کا نام نہیں تھا۔'

انہوں نے کہا کہ 'میں نے اُس وقت کے انسپکٹر جنرل (آئی جی) اے ڈی خواجہ کو مارچ میں حقائق جاننے کے لیے خط لکھا، کارروائی کی جائے لیکن خط کا جواب نہیں دیا گیا، اس کے بعد ایک بار پھر انہیں خط لکھا تاہم پھر بھی جواب نہیں دیا گیا اور بعد ازاں علاقے کے ایس پی کا بھی تبادلہ ہوگیا۔'

سعید غنی نے کہا کہ 'معاملے کا پس منظر یہ ہے کہ ڈاکٹر رضوان جب ایس پی جمشید ٹاؤن لگے تو انہوں نے میرے چھوٹے بھائی و یو سی کے چیئرمین فرحان غنی کو بلایا اور کہا کہ 8 موٹر سائیکلیں لے کر دیں اور چنیسر گوٹھ میں چوکی بنا کر دیں، اس کا فرنیچر لے کر دیں اور پولیس کے لیے مخبری کریں اور علاقے کے لوگوں کے نام دیں تاکہ ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔'

انہوں نے کہا کہ 'میرے بھائی کی جانب سے پولیس کے یہ ناجائز مطالبات رد کیے جانے کے بعد میرے علاقے میں منشیات کا کاروبار بڑھ گیا، کوشش کے باوجود میری اس معاملے پر اس وقت کے ڈی آئی جی شرقی سلطان خواجہ سے ملاقات نہیں ہو سکی، ایڈیشنل آئی جی سے بھی ملاقات کی کوشش کی مگر وہ بھی نہ ہو سکی۔'

ان کا کہنا تھا کہ 'اس وقت کے صوبائی وزیر داخلہ سہیل انور سیال سے معاملے کی شکایت کے بعد میری سلطان خواجہ اور اے آئی جی سے ملاقاتیں ہوئیں، اس کے بعد علاقے میں منشیات فروشوں کے خلاف کارروائی ہوئی لیکن طریقہ یہ اپنایا گیا کہ پولیس دو جرائم پیشہ افراد کے ساتھ 20 بے گناہوں کو بھی اٹھا لیتی تھی تاکہ ہم پر سیاسی دباؤ پڑ سکے۔'

یہ بھی پڑھیں: شکارپور : ڈاکوؤں کیلئے مخبری میں ملوث 50پولیس افسران و اہلکار ضلع بدر

صوبائی وزیر اطلاعات نے کہا کہ 'ڈاکٹر رضوان کو یہ تکلیف ہوئی کہ میں نے علاقے میں منشیات کا کام بڑھنے کی شکایت ڈی آئی جی اور اے آئی جی کو کیوں کی اور شاید بدلے میں انہوں نے یہ رپورٹ بنا دی۔'

انہوں نے کہا کہ 'اس کے بعد ایک اور واقعہ ہوا کہ فیصل لودھی ایم کیو ایم چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں آئے تو پولیس ان کے پیچھے پڑ گئی اور ان کے گھر پر چھاپے مارے گئے، یکم دسمبر 2017 کو انہیں ایک حجام کی دکان سے اٹھایا گیا اور اسی رات پولیس نے انہیں گولیاں مار کر ہلاک کردیا۔'

ان کا کہنا تھا کہ 'یہ رپورٹ جنوری 2018 میں تیار ہوئی اور دلچسپ بات یہ ہے کہ آئی جی سندھ کلیم امام کو ہٹانے کے کابینہ کے فیصلے اور اس حوالے سے میری میڈیا سے گفتگو کے بعد یہ رپورٹ سامنے لائی گئی جس میں امتیاز شیخ سے متعلق بھی کئی باتیں کی گئی ہیں۔'

سعید غنی نے کہا کہ 'میں یہ سمجھتا ہوں کہ صوبہ سندھ کی پولیس کا مزاج نیب کی طرح ہو گیا ہے، جو نیب کے خلاف بولے اس پر کیس بنا دو یا جو پولیس کے خلاف بولے اس کے خلاف رپورٹ بنا دو۔'

انہوں نے کہا کہ 'میں وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ سے درخواست کروں گا کہ میرے خلاف رپورٹ کی مستند لوگوں اور افسران سے انکوائری کرائیں، اگر یہ درست ثابت ہوئی تو نہ صرف سیاست چھوڑ دوں گا بلکہ انکوائری کرنے والے لوگ جس سزا کا تعین کریں گے اس کے لیے خود کو پیش کروں گا۔'

ان کا کہنا تھا کہ 'میں نے سیاست میں بہت مشکل سے عزت کمائی ہے، اس قسم کے لُچے پولیس افسر کو یہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ اپنے ذاتی اور گھٹیا مقاصد کے لیے لوگوں کی عزت اچھا لے، یہ تھرڈ کلاس اور تھرڈ کیٹیگری کا شخص ہے اور مجھے حیرت ہے کہ یہ شخص پولیس میں بھرتی ہو کر اس پوزیشن پر کیسے پہنچا۔'

واضح رہے کہ سعید غنی کی جانب سے یہ پریس کانفرنس ایس ایس پی شکارپور ڈاکٹر رضوان کی اس رپورٹ کے بعد کی گئی جس میں انہوں نے پیپلز پارٹی کے رہنما اور وزیر توانائی سندھ امتیاز شیخ پر جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی کرنے اور انہیں اپنے سیاسی و مالی مفادات کے لیے استعمال کرنے کا الزام لگایا تھا۔

سندھ کابینہ نے 15 جنوری کو صوبے کے پولیس سربراہ ڈاکٹر کلیم امام کو 'ٹھوس وجوہات' کی بنا پر عہدے سے ہٹانے کی منظوری دی تھی۔

چونکا دینے والے انکشافات

ایس ایس پی ڈاکٹر رضوان کی رپورٹ کی ڈان ڈاٹ کام کو موصول ہونے والی کاپی میں امتیاز شیخ پر الزام لگاتے ہوئے کہا گیا ہے کہ 'وہ سیاسی مخالفین کو دبانے اور معاشرے میں اپنا خوف قائم کرنے کے لیے اپنے کرمنل گینگ کا استعمال کرتے ہیں، جبکہ اسی گینگ کے افراد نے سیاسی مخالف شاہ نواز بروہی کے بیٹے کو بھی قتل کیا۔'

'خفیہ' رپورٹ میں ضلع کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) کو مخاطب کرکے کہا گیا ہے کہ 'امتیاز شیخ پولیس پر مکمل کنٹرول چاہتے ہیں اور محکمے میں اہم عہدوں پر من پسند افسران تعینات کرانے کے لیے ضلع کے ایس ایس پی پر مستقل دباؤ ڈالتے ہیں جبکہ یہ افسران محکمے کی خفیہ معلومات انہیں فراہم کرتے تھے۔'

اپنے الزامات کے ثبوت کے طور پر ڈاکٹر رضوان نے امتیاز شیخ، ان کے سیکریٹری، بیٹے اور ان کے قریبی ساتھیوں کا موبائل ریکارڈ بھی رپورٹ کے ساتھ منسلک کیا ہے، جس میں اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ صوبائی وزیر نے کئی بار 'مطلوب' اتو شیخ جیسے مجرمان سے رابطے کیے جس کے خلاف درجنوں مقدمات درج ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امتیاز شیخ کا کرمنل گینگ بھی ہے جو ضلع شکار پور کے تھانہ نیو فوجداری کی حدود میں واقعے علاقے چِنگی مُقام میں منشیات فروخت کرتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق امتیاز احمد شیخ، ان کے بھائی مقبول احمد شیخ اور بیٹے فراز احمد شیخ نے نجی محافظ بھی رکھے ہوئے ہیں جو مجرمانہ ریکارڈ رکھتے ہیں اور 'اشتہاری' ہیں۔