دنیا

شام میں ترکی کی مداخلت ختم ہونی چاہیے، سعودی وزیر خارجہ

سعودی عرب ایسی کسی مداخلت کو قبول نہیں کرے گا جس سے عرب ممالک کے استحکام کو خطرہ ہو، شہزادہ فیصل بن فرحان

سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان کا کہنا ہے کہ شام میں تنازع کا واحد حل صرف مذاکرات ہیں جبکہ وہاں ترکی کی مداخلت لازمی طور پر ختم ہونی چاہیے۔

عرب نیوز کی رپورٹ کے مطابق مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں عرب پارلیمنٹ کے اجلاس میں سعودی وزیر خارجہ نے کہا کہ ان کا ملک عرب ریاستوں کے اتحاد، خود مختاری اور تحفظ کو بہت اہمیت دیتا ہے اور ایسی کسی مداخلت کو قبول نہیں کرے گا جس سے عرب ممالک کے استحکام کو خطرہ ہو۔

یمن کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب نے یمنی عوام کی مدد کے لیے ساڑھے 14 ارب ڈالر دیے ہیں۔

انہوں نے بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ سعودی عرب میں حوثی باغیوں کے ہوائی اڈوں اور رہائشی علاقوں میں حملوں کی مذمت کرے۔

مزید پڑھیں: ترکی- طرابلس معاہدے: عرب لیگ کا لیبیا میں 'بیرونی مداخلت' روکنے پر زور

واضح رہے کہ حالیہ چند ماہ میں سعودی عرب اور ترکی کے درمیان تناؤ میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔

ترک فورسز اور اس کی پراکسیز نے شمالی شام میں کرد فورسز کے خلاف گزشتہ سال اکتوبر میں کارروائی کا آغاز کیا تھا۔

انقرہ کا ماننا ہے کہ وائے پی جی کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کی ذیلی 'دہشت گرد' تنظیم ہے جو ترکی میں 1984 سے بغاوت کی کوششیں کر رہی ہے۔

ترکی کی جانب سے یہ فوجی کارروائی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے شام سے فوجی انخلا کے حکم کے بعد سامنے آئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: ترکی نے شام میں فوجی بیس کو نشانہ بنانے کا امریکی الزام مسترد کردیا

امریکی صدر کے اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے اسے شام میں 'داعش' کے خلاف جنگ میں کرد شراکت داروں کو 'دھوکا دینے کے مترادف' قرار دیا گیا تھا۔

اس آپریشن میں ترکی نے امریکا اور روس سے الگ الگ معاہوں کے بعد شمالی شام کے ایک حصے کا کنٹرول حاصل کر لیا تھا۔

انقرہ کا کہنا تھا کہ وہ اس کے زیر کنٹرول خطے میں 'محفوظ زون' قائم کرنا چاہتا ہے، جہاں وہ ان تقریباً 36 لاکھ شامی مہاجرین کو آباد کرے گا جن کی وہ اپنی ملک میں میزبانی کر رہا ہے۔