مسلم اُمّہ میں جمہوریت کا فقدان کیوں؟


مذہب کے اعتبار سے دنیا کو تقسیم کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ قریب 50 مسلم اکثریتی ریاستوں میں سے صرف 5 یعنی انڈونیشا، ملائشیا، ترکی، سینیگال اور سیرا لیونی ریاستوں میں ہی انتخابی جمہوری نظام کے عام اصولوں کی پاسداری ہوتی دکھائی دیتی ہیں اور اس لحاظ سے انہیں انتخابی جمہوریتیں پکارا جاسکتا ہے، وہاں گزشتہ 2 انتخابات منصفانہ رہے اور غیر منتخب عناصر منتخب ہونے والی حکومتوں کو رد کرنے کا اختیار نہیں رکھتے۔
تاہم چند ایسی بھی ریاستیں ہیں جہاں ان اصولوں سے چھیڑ چھاڑ کی جاتی ہے، اور ان ریاستوں میں شمار ہوتا ہے پاکستان، بنگلہ دیش، تیونس، البانیا اور بوسنیا کا۔
دنیا میں کوئی ایک بھی ایسا مسلمان ملک نہیں ہے جہاں پختہ جمہوری راج شہری آزادیوں کو یقینی بناتا ہو۔ نصف مسلم ریاستوں میں تو بدتر شخصی یا آمرانہ حکومتیں قائم ہیں۔
لیکن اگر دیگر مذاہب کی بات کریں تو وہاں صورتحال نسبتاً بہتر ہے۔
100 سے زائد مسیحی اکثریتی آبادی والی ریاستوں میں سے تقریباً 70 ریاستوں میں انتخابی جمہوری نظام قائم ہے۔ بدھ پیروکاروں کی اکثریتی والی 10 ریاستوں میں سے نصف، اور 3 ہندو اکثریتی ریاستوں میں سے بھارت اور موریشئیز میں باقاعدگی کے ساتھ آزادانہ انتخابات کا انعقاد ہوتا ہے۔
دنیا کی واحد یہودی ریاست اسرائیل میں جمہوری نظام قائم ہے۔ دنیا کی وہ 4 سے 5 ریاستیں جہاں کسی بھی مذہب کو نہ ماننے والوں کی اکثریت ہے، ان میں سے نصف ریاستوں میں جدید جمہوری نظام موجود ہے۔
یہ مایوس کن اعداد و شمار کی مدد سے اسلام بیزار افراد کو یہ کہنے کا موقع مل جاتا ہے کہ اسلامی تعلیمات یا ہدایات جمہوری نظام کی حوصلہ شکنی کرتی ہیں۔
جب میں سماجی سائنسدان کے طور پر سماجی مسائل کا تجزیہ کرنے بیٹھتا ہوں تو ایسی عینک کا استعمال کرتا ہوں جس کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ مگر ایسی عینکوں کو چڑھا کر بھی جائزہ لیں تو بھی اس قسم کے اسلامو فوبیائی منطق مبہم ہے اور تعلیمات کے ان خاص حصوں کو مناسب انداز میں دیگر مذاہب میں شامل یکساں عقیدوں سے موازنہ کرنے میں ناکام نظر آتی ہے۔
حقیقی معنوں میں یہ کہنا زیادہ ٹھیک ہوگا کہ اسلام شاید وہ واحد مذہب ہے جس کی ابتدائی تاریخ یعنی ریاستِ مدینہ جمہوریت کے عملی مظاہرے کا ٹھوس مقدمہ پیش کرتی ہے۔
خلفائے راشدین کو میرٹ کی بنیاد پر متفقہ رائے کے ساتھ منتخب کیا گیا تھا اور انہوں نے ایسے دور میں جوابدہی کے تابع رہ کر حکمرانی کی جب دیگر بڑی ریاستوں میں شخصی حکومتیں قائم تھیں۔