نقطہ نظر مسلم اُمّہ میں جمہوریت کا فقدان کیوں؟ حالانکہ اسلام شاید وہ واحد مذہب ہے جس کی ابتدائی تاریخ یعنی ریاستِ مدینہ جمہوریت کے عملی مظاہرےکا ٹھوس مقدمہ پیش کرتی ہے ڈاکٹر نیاز مرتضیٰ لکھاری برکلے میں یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے سینئر فیلو ہیں، اور انسپائیرنگ پاکستان نامی ایک ترقی پسند پالیسی یونٹ کے سربراہ ہیں۔ مذہب کے اعتبار سے دنیا کو تقسیم کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ قریب 50 مسلم اکثریتی ریاستوں میں سے صرف 5 یعنی انڈونیشا، ملائشیا، ترکی، سینیگال اور سیرا لیونی ریاستوں میں ہی انتخابی جمہوری نظام کے عام اصولوں کی پاسداری ہوتی دکھائی دیتی ہیں اور اس لحاظ سے انہیں انتخابی جمہوریتیں پکارا جاسکتا ہے، وہاں گزشتہ 2 انتخابات منصفانہ رہے اور غیر منتخب عناصر منتخب ہونے والی حکومتوں کو رد کرنے کا اختیار نہیں رکھتے۔تاہم چند ایسی بھی ریاستیں ہیں جہاں ان اصولوں سے چھیڑ چھاڑ کی جاتی ہے، اور ان ریاستوں میں شمار ہوتا ہے پاکستان، بنگلہ دیش، تیونس، البانیا اور بوسنیا کا۔ دنیا میں کوئی ایک بھی ایسا مسلمان ملک نہیں ہے جہاں پختہ جمہوری راج شہری آزادیوں کو یقینی بناتا ہو۔ نصف مسلم ریاستوں میں تو بدتر شخصی یا آمرانہ حکومتیں قائم ہیں۔ لیکن اگر دیگر مذاہب کی بات کریں تو وہاں صورتحال نسبتاً بہتر ہے۔ 100 سے زائد مسیحی اکثریتی آبادی والی ریاستوں میں سے تقریباً 70 ریاستوں میں انتخابی جمہوری نظام قائم ہے۔ بدھ پیروکاروں کی اکثریتی والی 10 ریاستوں میں سے نصف، اور 3 ہندو اکثریتی ریاستوں میں سے بھارت اور موریشئیز میں باقاعدگی کے ساتھ آزادانہ انتخابات کا انعقاد ہوتا ہے۔ دنیا کی واحد یہودی ریاست اسرائیل میں جمہوری نظام قائم ہے۔ دنیا کی وہ 4 سے 5 ریاستیں جہاں کسی بھی مذہب کو نہ ماننے والوں کی اکثریت ہے، ان میں سے نصف ریاستوں میں جدید جمہوری نظام موجود ہے۔ یہ مایوس کن اعداد و شمار کی مدد سے اسلام بیزار افراد کو یہ کہنے کا موقع مل جاتا ہے کہ اسلامی تعلیمات یا ہدایات جمہوری نظام کی حوصلہ شکنی کرتی ہیں۔ جب میں سماجی سائنسدان کے طور پر سماجی مسائل کا تجزیہ کرنے بیٹھتا ہوں تو ایسی عینک کا استعمال کرتا ہوں جس کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ مگر ایسی عینکوں کو چڑھا کر بھی جائزہ لیں تو بھی اس قسم کے اسلامو فوبیائی منطق مبہم ہے اور تعلیمات کے ان خاص حصوں کو مناسب انداز میں دیگر مذاہب میں شامل یکساں عقیدوں سے موازنہ کرنے میں ناکام نظر آتی ہے۔ حقیقی معنوں میں یہ کہنا زیادہ ٹھیک ہوگا کہ اسلام شاید وہ واحد مذہب ہے جس کی ابتدائی تاریخ یعنی ریاستِ مدینہ جمہوریت کے عملی مظاہرے کا ٹھوس مقدمہ پیش کرتی ہے۔خلفائے راشدین کو میرٹ کی بنیاد پر متفقہ رائے کے ساتھ منتخب کیا گیا تھا اور انہوں نے ایسے دور میں جوابدہی کے تابع رہ کر حکمرانی کی جب دیگر بڑی ریاستوں میں شخصی حکومتیں قائم تھیں۔ دیگر مذاہب سے جڑے حکمران شاہی گھرانوں سے تعلق رکھنے والے بادشاہ تھے۔ یہ بات تو صاف ہے کہ صدیوں پہلے وجود رکھنے والی ریاستِ مدینہ اور موجودہ جمہوریت میں بہت زیادہ فرق ہے۔ مگر آج کی جمہوریت تو 150 سال پرانی اس جدید مغربی جمہوریت سے بھی کافی زیادہ مختلف ہے جس میں کولونیل ازم تھا، خواتین رائے دہی کے حق سے محروم تھیں اور غلامی کا چلن عام تھا وغیرہ۔آج مسلمان ریاستوں میں اس بڑے جمہوری فقدان کی وجوہات عصری عناصر سے واضح ہوجاتی ہیں۔ علاقائی تجزیے سے اس بات کا پتا چلتا ہے کہ یہ عناصر نہ صرف متعدد مسلمان بلکہ دیگر غیر مسلم علاقائی ریاستوں میں بھی جمہوریت کو کمزور کرتے ہیں۔ مشرقی ایشیا کی مسلمان ریاستوں میں جہاں انڈونیشیا اور ملائشیا میں انتخابی جمہوری نظام پایا جاتا ہے وہیں برونائی واحد ایسی مسلم ریاست ہے جہاں شخصی حکومت قائم ہے۔ مشرقی ایشیا میں واقع چین، شمالی کوریا، لاؤس، میانمار، کمبوڈیا اور ویتنام جیسی متعدد غیر مسلم ریاستوں میں آمرانہ نظام رائج ہے۔ اگر ایک طرف سابقہ سوویت مسلم اکثریتی ریاستوں (کازغستان، ازبکستان و دیگر) میں غیر جمہوری نظام موجود ہے تو دوسری طرف روس، بیلاروس اور یوکرین کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے۔ جنوبی ایشیا کی 4 مضبوط جمہوریتوں میں بنگلہ دیش اور پاکستان شامل ہیں دوسری طرف اس خطے میں جمہوری دوڑ میں پیچھے رہ جانے والی 4 ریاستوں میں سے 2 غیر مسلم ریاستیں ہیں۔ افریقہ میں بھی اسی طرح کی ملی جلی تصویر ابھر سامنے آتی ہے۔ مشرق وسطیٰ تقریباً مکمل طور پر مسلم ریاستوں کا خطہ ہے اور وہاں غیر مسلم ریاستوں کے ساتھ خطے کی داخلی سطح پر موازنہ ممکن نہیں ہے۔ یوں انتہائی ترقی یافتہ مغربی اور مشرقی ایشیائی ریاستوں کے باہر مختلف مذاہب کی اکثریتی ریاستوں میں جمہوریت پسندی کافی یکساں دکھائی دیتی ہے۔ آج اگر مسلمان ریاستوں کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو ایران کے علاوہ آپ شاید ہی کوئی ایسی ریاست ڈھونڈ پائیں جہاں مذہبی ہدایات یا تعلیمات کسی بھی طرح سے سیاسی نظاموں کے مزاج پر مقتدرین کے نظریات اور فیصلوں پر اثرا انداز ہوتی ہوں۔ جہاں تک سعودی عرب اور برونائی کا تعلق ہے تو یہ ریاستیں بدعنوان شخصی نظام کو جائز ٹھہرانے کے لیے اس کا محض دکھاوا کرتی ہیں۔ دنیا کی مختلف مسلم اور غیر مسلم ریاستوں میں متعدد سیکولر عناصر بھی جمہوریت کی کمزوری کا باعث بنتے ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ میں امریکی حمایت سیکولر آمروں کو اپنا اقتدار برقرار رکھنے میں مدد فراہم کرتی ہے، یہی حال ماضی میں مشرقی ایشیا کا بھی تھا۔ دیگر مسلم ریاستوں میں سیاست میں دلچسپی رکھنے والے تقریباً تمام سیکولر فوجی جنرلوں کے مقاصد نے جمہوریت کو پنپنے نہیں دیا، ماضی میں یہی صورتحال ہم نے لاطینی امریکا میں دیکھی تھی۔ ہم پلہ طاقت کے محدود مراکز کی حامل متعدد چھوٹی افریقی ریاستوں میں مسلم اور غیر مسلم آمر دہائیوں تک حکمرانی چلانے میں کامیاب رہے۔ مسلم خلیجی ریاستوں اور غیر مسلم انگولہ جیسی قدرتی وسائل سے بھرپور ریاستوں میں بھی جمہوریت پنپ نہ سکی۔چنانچہ مسلمان ریاستوں میں موجودہ جمہوری فقدان کے پیچھے مذہبی بنیاد پر کوئی ایک بھی وضاحت حاصل نہیں ہوتی بلکہ اس کے برعکس جمہوریت کے فقدان میں مختلف عصری عناصر کا اہم کردار نظر آتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ مربوط بنیاد پرستانہ تحاریک دیگر غیر مسلم ریاستوں کے مقابلے میں آج مسلم ریاستوں میں زیادہ طاقتور ہیں۔ تاہم بنیاد پرستی کے ابھار کے باوجود ان دہائیوں میں اُمّہ کے اندر جمہوری نظام اپنانے کا رجحان بڑھا ہے۔ حتیٰ کہ ایران جو دنیا کی ایسی واحد مسلم ریاست ہے جہاں اقتدار کی باگ ڈور مذہبی رہنماؤں کے ہاتھوں میں ہیں اب وہ بھی اسلامی انقلاب کے بعد پہلے کے مقابلے میں تھوڑا زیادہ جمہوری ملک بن گیا ہے۔کیتھولک اور بدھ مت ریاستوں کو کسی وقت میں مذہبی مسائل کی بنیاد پر جمہوریت کے لیے پوری طرح سے تیار تصور نہیں کیا جاتا تھا، لیکن اب وہ ریاستیں بھی جمہوریت کی راہ لے چکی ہیں۔ چونکہ شہریوں کی تحاریک زور پکڑ رہی ہیں اس لیے مستقبل میں مسلم اُمّہ کے اندر جمہوریت کی مضبوطی ناگزیز بن چکی ہے۔یہ مضمون 14 جنوری 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔ ڈاکٹر نیاز مرتضیٰ لکھاری ایک سیاسی و معاشی تجزیہ کار اور یو سی بارکلے کے سنیئر فیلو ہیں۔ ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔ ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔