پاکستان

ثابت ہوکر رہے گا رانا ثناللہ کے خلاف کیس حقیقت ہے، شہریار آفریدی

رانا صاحب! آپ تیاری کریں، 18 تاریخ کو مقدمہ ہے، حکومت اور وزارت ان کو اس کیس سے بھاگنے نہیں دے گی، وزیر مملکت

وزیر مملکت برائے انسداد منشیات شہریار آفریدی کا کہنا ہے کہ یہ ثابت ہو کر رہے گا رانا ثنااللہ کے خلاف کیس حقیقت ہے جبکہ حکومت اور وزارت ان کو اس کیس سے بھاگنے نہیں دیں گی۔

قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے شہریار آفریدی نے کہا کہ 'رانا صاحب! آپ نے سات ماہ حیلے بہانے بنائے، ویڈیو کی بات کی گئی، ویڈیو تو رانا مشہود اور ایان علی کے کیس میں بھی موجود تھیں، رانا صاحب! آپ تیاری کریں، 18 تاریخ کو مقدمہ ہے اور جب مقدمہ شروع ہوگا تو دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے گا۔'

انہوں نے کہا کہ 'رانا ثنا اللہ کو احساس ہونا چاہیے کہ عدالت کا فیصلہ عدالت میں ہوگا، یہ معاملہ پارلیمنٹ اور میڈیا سے حل نہیں ہوگا، رانا صاحب قرآن ہاتھ میں اٹھاتے ہیں اس پر عمل بھی کیا کریں جبکہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین بھی قرآن اٹھا کر رانا ثنااللہ سے انصاف مانگ رہے ہیں۔'

شہریار آفریدی کا کہنا تھا کہ 'آئین اور قانون کی پاسداری اولین ترجیح ہونی چاہیے، میں نے کسی بھی جگہ کوئی قسم کھائی ہو تو جو چور کی سزا وہ میری سزا، میں نے کہا جان اللہ کو دینی ہے اس پر مذاق اڑایا گیا لیکن یہ ثابت ہو کر رہے گا رانا ثنااللہ کے خلاف کیس حقیقت ہے۔'

انہوں نے رانا ثنااللہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ 'ایوانوں میں کسی کو ٹارگٹ کرنے نہیں آئے لیکن حکومت اور وزارت آپ کو اس کیس سے بھاگنے نہیں دے گی۔'

یہ بھی پڑھیں: ضمانت کا مطلب یہ نہیں کہ رانا ثنا اللہ بری ہوگئے، فردوس عاشق اعوان

زندگی میں کسی منشیات فروش سے تعلق نہیں رکھا،رانا ثنااللہ

مسلم لیگ (ن) کے رہنما رانا ثنااللہ نے شہریار آفریدی کے بیان کے جواب میں کہا کہ 'ماڈل ٹاؤن کا مقدمہ انسداد دہشت گردی عدالت میں زیر سماعت ہے، عدالت نے 126 لوگوں کو ٹرائل کیا، شہادتیں قلمبند ہو رہی ہیں، ماڈل ٹاؤن کیس میں 15 سیاستدان شامل ہیں جن میں سے ایک میں بھی ہوں جبکہ کیس کا جو بھی فیصلہ ہوگا وہ ہمیں قابل قبول ہوگا۔'

انہوں نے کہا کہ 'شہریار آفریدی نے اج پھر ایک بار میرے مقدمے پر بات شروع کی، شہریار آفریدی کو بتایا کہ قرآن پاک میں قسم کا طریقہ کار درج ہے اور صرف یہ کہا کہ کہو رانا ثنااللہ اور شہریار آفریدی کے درمیان جو جھوٹا ہو اس پر اللہ کا قہر نازل ہو۔'

ان کا کہنا تھا کہ 'اللہ کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوں کہ زندگی میں کسی منشیات فروش سے تعلق نہیں رکھا، کسی بھی پراسیکیوشن میں پہلے تفتیش کا عمل ہے بعد میں ٹرائل ہوتا ہے لیکن منشیات کے مقدمے میں کوئی تفتیش نہیں ہوئی اور مجھ سے کسی تفیشی افسر نے بیان ریکارڈ نہیں کیا۔'

رانا ثنااللہ نے کہا کہ 'میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ شہریار آفریدی کو حقیقت معلوم ہے لیکن یہ صرف ادھرا ُدھر کی ہانک رہے ہیں۔'

واضح رہے کہ پنجاب کے سابق وزیر قانون رانا ثنا اللہ کے خلاف منشیات کی اسمگلنگ کا مقدمہ دائر ہے اور چند ہفتے قبل ہی انہیں ضمانت پر رہا کیا گیا تھا۔

گزشتہ روز انہوں نے قومی اسمبلی میں اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کو مسترد کردیا تھا اور مطالبہ کیا کہ عدالتی کمیشن اس معاملے کی تحقیقات کرے یا معاملہ ایوان زیریں کی متعلقہ قائمہ کمیٹی کے پاس بھیجیں تاکہ وہ اپنی بے گناہی کی درخواست کر سکیں۔

مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے قرآن پاک پر ہاتھ رکھ کر قسم کھائی تھی کہ وہ بے قصور ہیں اور ان کے خلاف منشیات اسمگلنگ کا جعلی مقدمہ چلایا گیا۔

وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان نے رانا ثنا اللہ کو مخاطب کرکے کہا تھا کہ وہ یہ تاثر پیدا نہ کریں کہ وہ منشیات کے مقدمے میں بری ہوچکے ہیں بلکہ اس معاملے میں ابھی مقدمہ چلنا باقی ہے۔

رانا ثنااللہ کے معاملے میں کب کیا ہوا؟

پاکستان مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر اور رکن قومی اسمبلی رانا ثنا اللہ کو انسداد منشیات فورس نے یکم جولائی 2019 کو گرفتار کیا تھا۔

اے این ایف نے مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر رانا ثنا اللہ کو پنجاب کے علاقے سیکھکی کے نزدیک اسلام آباد-لاہور موٹروے سے گرفتار کیا تھا۔

ترجمان اے این ایف ریاض سومرو نے گرفتاری کے حوالے سے بتایا تھا کہ رانا ثنااللہ کی گاڑی سے منشیات برآمد ہوئیں، جس پر انہیں گرفتار کیا گیا۔

مزید پڑھیں: رانا ثنااللہ کے خلاف کیس ختم نہیں ہوا، ابھی بھی ملزم ہیں، شہریار آفریدی

گرفتاری کے بعد رانا ثنا اللہ کو عدالت میں پیش کیا گیا تھا جہاں انہیں 14 روز کے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجا گیا تھا، جس میں کئی بار توسیع ہو چکی ہے۔

بعد ازاں عدالت نے اے این ایف کی درخواست پر رانا ثنا اللہ کو ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا جبکہ گھر کے کھانے کی استدعا بھی مسترد کردی تھی۔

علاوہ ازیں رانا ثنااللہ نے ضمانت پر رہائی کے لیے لاہور کی انسداد منشیات عدالت میں درخواست دائر کی تھی، جس پر 20 ستمبر کو عدالت نے دیگر 5 ملزمان کی ضمانت منظور کرلی لیکن رانا ثنااللہ کی رہائی کو مسترد کردیا۔

بعد ازاں 6 نومبر کو انہوں نے نئے موقف کے ساتھ انسداد منشیات کی عدالت سے ضمانت کے لیے ایک مرتبہ پھر رجوع کیا تاہم 9 نومبر کو اس درخواست کو بھی مسترد کردیا گیا تھا، جس کے بعد انہوں نے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

لاہور ہائی کورٹ نے منشیات برآمدگی کیس میں گرفتار مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر رانا ثنا اللہ کی درخواست ضمانت منظور کرتے ہوئے 10، 10 لاکھ روپے کے 2 مچلکے کے عوض ان کی رہائی کا حکم دے دیا تھا۔