متوفی ڈی ایس پی امان اللہ — فوٹو: غالب نہاد
دھماکے کے بعد پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نفری جائے وقوع پر پہنچی جبکہ ریسکیو عملے نے زخمیوں کو سول ہسپتال کے ٹراما سینٹر منتقل کیا جہاں انہیں طبی امداد فراہم کی جارہی ہے۔
صوبائی وزیر داخلہ میر ضیا لانگو نے میڈیا سے گفتگو میں دھماکے میں 15 افراد کے جاں بحق اور 19 کے زخمی ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ 'مدرسے میں دھماکہ خودکش ہوسکتا ہے جبکہ دہشت گردوں نے مسجد کو آسان ہدف سمجھا۔'
انہوں نے کہا کہ 'سیکیورٹی انتظامات کا ازسر نو جائزہ لے رہے ہیں، امن کے لیے سیکیورٹی فورسز نے بے شمار قربانیاں دیں لیکن دشمن ملک کو ہمارا امن ایک آنکھ نہیں بھا رہا۔'
ابتدائی طور پر دھماکے کی ذمہ داری کسی گروپ نے قبول کرنے کا دعویٰ نہیں کیا۔
دوسری جانب افغان طالبان کے مرکزی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کوئٹہ کے دھماکے میں طالبان رہنما کے ہلاک ہونے کی تردید کی۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ٹوئٹ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ دھماکے کے مقام پر نہ تو کوئی طالبان رہنما موجود تھا اور نہ ہی وہاں کوئی اجلاس جاری تھا، جبکہ اس طرح کی خبریں من گھڑت ہیں۔
واضح رہے کہ دھماکے کے بعد سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر اس طرح کی خبریں گردش کرنے لگی تھیں کہ دھماکے میں طالبان رہنما بھی ہلاک ہوئے۔
وزیر اعظم، آرمی چیف کا قیمتی جانوں کے ضیاع پر افسوس
وزیر اعظم عمران خان نے کوئٹہ دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ دھماکے میں قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع پر دکھ ہوا۔
انہوں نے صوبائی حکومت کو زخمیوں کو علاج معالجے کی بہترین سہولیات فراہم کرنے کی ہدایت کی اور متعلقہ حکام سے واقعے کی رپورٹ بھی طلب کر لی ہے۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ مسجد میں معصوم افراد کو قتل کرنے والے کسی صورت حقیقی مسلمان نہیں ہو سکتے۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق فرنٹیئر کور (ایف سی) بلوچستان کے دستے کوئٹہ میں دھماکے کے مقام پر پہنچ گئے ہیں، زخمیوں کو ہسپتال منتقل کردیا گیا ہے، علاقے کو سیل کردیا گیا ہے اور پولیس کے ساتھ مشترکہ سرچ آپریشن جاری ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ آرمی چیف نے ہدایت کی ہے کہ سول انتظامیہ اور پولیس کو ہر ممکن تعاون فراہم کیا جائے۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال کی سیٹلائٹ ٹاؤن کی مسجد میں دھماکے کی مذمت کی ہے۔
انہوں نے دھماکے میں جاں بحق افراد کے لواحقین سے تعزیت کا اظہار کیا اور متعلقہ حکام کو زخمیوں کو بہتر طبی امداد کی فراہمی کی ہدایت کی۔
ان کا کہنا تھا کہ نمازیوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنانے والے عناصر کا کوئی مذہب، قوم اور قبیلہ نہیں وہ صرف دہشت گرد ہیں اور سخت ترین سزا کے حقدار ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: کوئٹہ کے اسپینی روڈ پر دھماکا، پولیس اہلکاروں سمیت 4 افراد زخمی
وزیراعلیٰ نے کہا ہے کہ ملک دشمن قوتیں ایک مرتبہ پھر بلوچستان میں دہشت گردی کے ذریعے عدم استحکام پیدا کرنا چاہتی ہیں، تاہم سیکیورٹی فورسز اور عوام کی قربانیوں سے قائم ہونے والے امن کو کسی صورت خراب نہیں ہونے دیا جائے گا اور دہشت گردی میں ملوث عناصر کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔
واضح رہے کہ 3 روز قبل کوئٹہ کے میکانگی روڈ پر بھی دھماکا ہوا تھا جس کے نتیجے میں 2 افراد جاں بحق اور دیگر 14 زخمی ہوئے تھے۔
پولیس کے مطابق دھماکا کوئٹہ کے لیاقت بازار کے قریب میکانگی روڈ پر سیکیورٹی فورسز کی گاڑی کے قریب ہوا۔
سول ہسپتال کوئٹہ کے ترجمان وسیم بیگ کا کہنا تھا کہ ہسپتال میں دو لاشیں اور سیکیورٹی فورسز کے 2 اہلکاروں سمیت 14 زخمیوں کو لایا گیا جنہیں ٹراما سینٹر میں داخل کرادیا گیا ہے۔
قبل ازیں 15 نومبر 2019 کو کوئٹہ کے علاقے کچلاک میں ریموٹ کنٹرول بم دھماکے کے نتیجے میں 2 سیکیورٹی اہلکار شہید اور 5 زخمی ہوگئے تھے۔
سیکیورٹی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈان نیوز کو بتایا تھا کہ فرنٹیئر کور (ایف سی) کی گاڑی کو پرانے کچلاک بائی پاس کے علاقے میں اس وقت سڑک کنارے نصب ریموٹ کنٹرول بم کے دھماکے کا نشانہ بنایا گیا جب وہ معمول کی پیٹرولنگ کرتے ہوئے وہاں سے گزر رہی تھی۔