پاکستان

طیبہ تشدد کیس: مجرمان کی سزا میں اضافہ کالعدم قرار

اسلام آباد ہائی کورٹ نے جج اور ان کی اہلیہ کی سزا کو ایک سال سے 3 سال اور جرمانہ 50 ہزار سے 5 لاکھ روپے کردیا تھا۔
|

سپریم کورٹ نے طیبہ تشدد کیس کے مجرم راجہ خرم علی خان اور ان کی اہلیہ ماہین ظفر کی سزاؤں میں 3 سال تک توسیع کالعدم قرار دیتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے دی گئی ایک سال قید کی سزا بحال کردی۔

واضح رہے کہ 27 دسمبر 2016 کو اسلام آباد میں ایک کمسن گھریلو ملازمہ طیبہ کو اس وقت کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اور ان کی اہلیہ کی جانب سے بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنانے کا واقعہ منظر عام پر آیا تھا۔

گزشتہ برس مئی میں عدالت عظمیٰ نے دونوں ملزمان کی جانب سے دائر اپیلوں پر فیصلہ محفوظ کیا تھا جسے آج سنایا گیا۔

سپریم کورٹ کے جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے راجہ خرم علی اور ان کی اہلیہ کی جانب سے دائر درخواست کی سماعت کی۔

یہ بھی پڑھیں: طیبہ تشدد کیس: سپریم کورٹ نے ملزمان کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا

اپریل 2018 کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق نے 10 سالہ طیبہ پر تشدد کرنے کے دونوں ملزمان کے خلاف ایک ایک سال قید اور 50، 50 ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی۔

بعدازاں جون 2018 میں ان دونوں مجرمان نے سزا کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی تھی جہاں ان کی سزا کو ایک سال سے بڑھا کر 3 سال اور جرمانہ 50 ہزار روپے کے بجائے 5 لاکھ روپے کردیا گیا تھا۔

تاہم آج سنائے گئے فیصلے میں عدالت عظمیٰ نے تین سال قید کی سزا کو ختم کرتے ہوئے ایک سال قید کی سزا بحال کردی۔

جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس مشیر عالم اور جسٹس یحیٰ آفریدی کے تحریر کردہ فیصلے میں کہا گیا کہ مجرمان کو دی گئی ابتدائی سزا برقرار رہے گی۔

مزید پڑھیں: 'اہل محلہ نے بچی کو ملزمان سے بچایا، وہ سخت سردی میں ٹھٹھرتی رہی'

مذکورہ فیصلے میں پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 328 کے تحت مجرمان کی سزا برقرار رکھتے ہوئے ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ کی جانب سے 11 جون 2018 کو ایک سال کی سزا بڑھا کر 3 سال کرنے کے فیصلے کو کالعدم کردیا گیا۔

فیصلے میں کہا گیا کہ پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 328-اے کے تحت سزا کا دورانیہ عدالت میں زیرِ التوا ایک اور درخواست کے ذریعے طے کیا جائے گا۔

طیبہ تشدد کیس

یاد رہے کہ 27 دسمبر 2016 کو اسلام آباد کے ایک گھر میں کمسن گھریلو ملازمہ طیبہ کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنانے کا واقعہ منظر عام پر آیا تھا۔

بچی کے بیان کے مطابق چائے والی ڈوئی سے مار کر ہاتھ جلایا گیا، پھر پانی کی ٹنکی سے باندھ دیا گیا جبکہ میڈیکل بورڈ کے مطابق بچی کے جسم پر 22 زخم پرانے اور تین زخم نئے تھے۔

پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز) کے میڈیکو لیگل آفیسر نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ 'بچی کی دائیں آنکھ کے گرد سوجن اور نیل موجود تھے، جسم پر سوجن اور جلائے جانے کے نشانات جبکہ چہرے کے دائیں طرف اور بائیں کان کے اوپر بھی چوٹ کے نشان تھے' اور بچی کے جسم پر 22 زخم پرانے اور تین زخم نئے تھے۔

بچی نے بتایا تھا کہ اسے گھر میں اکثر اوقات مارپیٹ کا نشانہ بنایا جاتا تھا جبکہ واقعہ منظر عام پر آنے سے کچھ روز قبل مالکن نے اس کا ہاتھ جلتے ہوئے چولہے میں ڈال دیا تھا اور جھاڑو گم ہوجانے پر اسے مارا پیٹا بھی گیا۔

ملازمہ کا کہنا تھا کہ اس کے مالکان اکثر اوقات اسے رات بھر اسٹور روم میں بند کردیتے اور بھوکا رکھنے کے ساتھ مار پیٹ بھی کرتے تھے۔

پولیس نے 29 دسمبر کو جج راجہ خرم اور ان کی اہلیہ ماہین ظفر کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا تھا اور دونوں افراد کے خلاف تھانہ آئی نائن میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

3 مارچ 2017 کو طیبہ کے والدین نے راجہ خرم اور ان کی اہلیہ کو معاف کردیا تھا۔

بچی کے والدین کی جانب سے راضی نامے کی رپورٹس سامنے آنے کے بعد سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے کم سن ملازمہ پر مبینہ تشدد کے معاملے کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے بچی اور اس کے والدین کو عدالت پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔

اس کے بعد سے پولیس طیبہ کی تلاش میں سرگرداں تھی جبکہ اس نے طیبہ کی بازیابی کے لیے مختلف شہروں میں چھاپے مارے تھے تاہم وہ اسلام آباد سے ہی بازیاب ہوئی، جسے بعدازاں پاکستان سوئیٹ ہوم کی تحویل میں دے دیا گیا تھا۔

چیف جسٹس نے رجسٹرار اسلام آباد ہائی کورٹ کو حکم دیا تھا کہ وہ 24 گھنٹوں کے اندر اندر معاملے کی تفصیلی رپورٹ پیش کریں۔

بعد ازاں 8 جنوری 2017 کو سپریم کورٹ کے حکم پر پولیس نے طیبہ کو بازیاب کروا کر عدالت میں پیش کیا تھا، جس کے بعد عدالتی حکم پر 12 جنوری کو جج راجہ خرم کو ان کے عہدے سے برطرف کردیا گیا تھا۔

اس کے بعد اس وقت کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کیس کا ٹرائل اسلام آباد ہائی کورٹ بھیج دیا تھا، جہاں متعدد سماعتوں کے بعد 16 مئی 2017 کو ملزمان پر فرد جرم عائد کی گئی تھی۔

بعد ازاں 17 اپریل 2018 میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق نے کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے ملزمان کو ایک، ایک سال قید اور 50، 50 ہزار جرمانے کی سزا سنائی تھی۔

سزا سنائے جانے کے بعد ملزم راجہ خرم علی خان کی جانب سے سزا کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کے لیے ضمانت طلب کی گئی تھی جسے عدالت نے منظور کرتے ہوئے انہیں ایک ہفتے کے اندر اپیل دائر کرنے کی ہدایت کی تھی۔

ملزمان نے سزا کے خلاف اپیل کی جس پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے سزا اور جرمانے میں مزید اضافہ کرتے ہوئے 3 سال قید اور 5 لاکھ جرمانہ عائد کردیا تھا۔