ملک کی حسین ترین وادی کس طرح ڈینگی کی وبا کا گڑھ بن گئی؟
وادئ سوات حُسن کے اعتبار سے ایشیا کا سوئٹزرلینڈ کہلاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہر سال لاکھوں سیاح یہاں حسین یادیں سمیٹنے اور دلکش نظارے دیکھنے آتے ہیں۔
اس حسین وادی میں انتہائی تکلیف دہ وقت اس وقت آیا جب یہاں تحریکِ طالبان کا کنٹرول ہوا لیکن فطری حسن و جمال کے نظاروں نے انتہاپسندی کے دور میں بھی اپنی دلکشی نہیں کھوئی بلکہ جب وادی کے مقامی افراد آپریشن کے بعد اپنے گھروں کو لوٹے تو ایک بار پھر سیاحوں کا تانتا بندھ گیا۔
مگر یہ سیاح اپنے سازو سامان کے علاوہ اپنے ساتھ کچھ ایسے امراض بھی لے آئے جس نے وادی کے دیگر لوگوں کو بھی متاثر کیا اور آج یہاں اس پریشانی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔
سوات کے مقامیوں نے شاید ہی کبھی ڈینگی بخار کا نام سنا ہوگا لیکن سیاحوں کی ’مہربانی‘ سے یہ مرض اب یہاں پنپ رہا ہے۔ کبھی یہ شہر اس وبا سے مکمل طور پر پاک تھا اور کسی نے یہ سوچا بھی نہیں تھا کہ یہ وبا اس وادی میں بھی عام ہوجائے گی۔
سوات میں ڈینگی بخار کا پہلا کیس 12ء-2011ء میں سامنے آیا۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ وبائی مرض کراچی سے یہاں منتقل ہوا تھا، جس کے بعد یہ علاقہ ڈینگی بخار سے نجات حاصل نہ کرسکا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال یہاں اس مرض سے کوئی ہلاکت نہیں ہوئی ہے لیکن متاثرہ افراد کی تعداد سیکڑوں میں ہیں۔