دنیا

امریکا کی ایران کو غیرمشروط مذاکرات کی پیشکش

امریکا، ایران کے ساتھ غیرمشروط مذاکرات کے لیے تیار ہے تاکہ عالمی امن اور سیکیورٹی کو مزید خطرہ نہ ہو، سلامتی کونسل کو خط

امریکا نے جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کے نتیجے میں ایران سے ہونے والی کشیدگی کے خاتمے اور عالمی سطح پر امن کے قیام کے لیے ایران کو مذاکرات کی غیرمشروط پیشکش کردی۔

گزشتہ ہفتے امریکی ڈرون حملے میں ایران کی قدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی ہلاک ہوگئے تھے جس کے بعد تہران نے امریکا کو سنگین نتائج کی دھمکی دی تھی۔

مزید پڑھیں: عراق: امریکی فضائی حملے میں ایرانی قدس فورس کے سربراہ ہلاک

اس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان حالات انتہائی کشیدہ ہو گئے تھے اور دونوں فریقین کی جانب سے سخت بیانات کے تبادلے کا سلسلہ جاری تھا۔

بدھ کو ایران نے سلیمانی کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے عراق میں موجود امریکی فوجی اڈوں پر 20 میزائل فائر کیے تھے اور ان حملوں میں 80امریکی فوجیوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا تھا۔

تاہم اس کے برعکس امریکا نے ایرانی دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ حملوں میں امریکی فوج کا کسی بھی قسم کا جانی نقصان نہیں ہوا۔

ایران نے موجودہ حالات میں جوہری معاہدے کی پاسداری نہ کرنے کا اعلان کیا تو دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ روز خطاب کے دوران ایران پر فوری طور پر اضافی پابندیاں لگانے کا اعلان کیا جس سے دونوں ممالک اور خطے میں کشیدگی میں اضافے اور باقاعدہ جنگ کا خدشہ تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ایران کا جوابی وار، عراق میں امریکی فوجی اڈوں پر میزائل حملے

تاہم اب امریکا کی جانب سے ایران کو غیر مشروط مذاکرات کی پیشکش کی گئی ہے۔

امریکی سفیر کیلی کرافٹ کی جانب سے اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کو خط تحریر کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ امریکا، ایران کے ساتھ غیرمشروط سنجیدہ مذاکرات کے لیے تیار ہے تاکہ عالمی امن اور سیکیورٹی کو مزید خطرہ نہ ہو اور ایرانی حکومت مزید جارحیت نہ کرے۔

تاہم امریکا کی جانب سے لکھے گئے اس خط میں اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 51 کے تحت جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کا دفاع کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ سلیمانی کا قتل امریکا نے اپنے دفاع میں کیا۔

خط میں مزید کہا گیا کہ امریکا خطے میں اپنی فوج اور مفادات کے تحفظ کے لیے ضروری اقدامات کرنے کے لیے تیار ہے۔

مزید پڑھیں: امریکا-ایران کشیدگی میں کمی، اسٹاک مارکیٹوں میں بہتری، تیل کی قیمتوں میں کمی

اقوام متحدہ کے چارٹر کی شق 51 کے مطابق کسی بھی ملک پر اپنے دفاع میں کوئی بھی کارروائی کرتے ہوئے یہ لازم ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی 15رکنی سیکیورٹی کونسل میں فوری طور پر رپورٹ کرے۔

یاد رہے کہ 2014 میں امریکا نے شام میں داعش کے خلاف کارروائی کو جائز قرار دینے کے لیے بھی آرٹیکل 51 کا استعمال کیا تھا۔

کیلی کرافٹ کی جانب سے تحریر کیے گئے خط میں کہا گیا کہ سلیمانی کی موت اور 29 دسمبر کو شام اور عراق میں ایران کی حمایت یافتہ ملیشیا گروپوں پر امریکی فضائی حملے حالیہ عرصے میں اسلامی جمہوریہ ایران اور ایران کے حمایت یافتہ ملیشیا کی جانب سے مشرق وسطیٰ میں امریکی فوج اور اس کے مفادات کو نشانہ بنانے کے ردعمل کے طور پر کیے گئے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس حملے کا مقصد ایران کو حملے کرنے یا اس کی سپورٹ کرنے سے روکنا اور حملے کرنے کی صلاحیت کو ختم کرنا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ایران کا جوہری معاہدے سے مکمل دستبرداری کا اعلان

دوسری جانب ایران نے بھی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں خط لکھ کر عراق میں امریکی فوجی اڈوں پر کارروائی کا آرٹیکل 51 کے تحت ہی دفاع کیا ہے۔

تاہم سفارتی ذرائع نے برطانوی خبر رساں ایجنسی رائٹرز کو بتایا کہ اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں ایران کا خط امریکا سے پہلے پہنچا۔

اقوام متحدہ میں ایرانی سفیر مجید تخت روانچی نے کہا کہ ایران کشیدگی میں اضافہ یا جنگ نہیں چاہتا، ایران نے ایک مناسب فوجی کارروائی کے دوران عراق میں امریکی فوجی اڈوں کو نشانہ بنا کر اپنے دفاعی حق کا استعمال کیا۔

انہوں نے کہا کہ آپریشن انتہائی محدود اور اس میں فوجی اہداف کو نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں علاقے میں کسی شہری یا شہری اثاثوں کو نقصان نہیں پہنچا۔

مزید پڑھیں: بغداد میں ایک اور راکٹ حملہ، ویڈیو سامنے آگئی

انہوں نے امریکا کو خبردار کیا کہ وہ مزید کسی فوجی محاذ آرائی سے گریز کرے اور کہا کہ ایران عالمی قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے کسی بھی جارحیت کی صورت میں اپنے عوام کے دفاع، خود مختاری، اتحاد اور علاقائی سالمیت کی بقا کی خاطر جواب دینے کے لیے پرعزم ہے۔

خط میں واضح طور پر کہا گیا کہ ایران، عراق کی خودمختاری مکمل احترام کرتا ہے۔

ایران-امریکا کشیدگی

ایران اور امریکا کے درمیان حالیہ کشیدگی میں شدت اس وقت آئی تھی جب 27 دسمبر کو بغداد کے شمال میں کرکوک میں عراقی فوجی اڈے پر 30 راکٹ فائر ہونے کے نتیجے میں ایک امریکی شہری کی ہلاکت ہوئی۔

جس کے جواب میں امریکی فورسز نے 29 دسمبر کو عسکری آپریشن (او آئی آر) کے تحت ایران کی حامی ملیشیا کتائب حزب اللہ کے عراق اور شام میں 5 ٹھکانوں پر حملہ کیا جس سے 25 جنگجو ہلاک ہوگئے تھے۔

جنگجوؤں کی ہلاکت پر ہزاروں افراد نے بغداد میں موجود امریکی سفارتخانے پر دھاوا بول دیا تھا تاہم اس سے قبل ہی امریکی سفارتکار اور سفارتخانے کے عملے کے بیشتر ارکان کو باحفاظت وہاں سے نکال لیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: امریکی صدر کا ایران پر فوری طور پر اضافی پابندیاں لگانے کا اعلان

مظاہرین نے سفارت خانہ بند کرنے کے مطالبے اور پارلیمنٹ سے امریکی فورسز کو ملک چھوڑنے کا حکم دینے پر مبنی پوسٹرز تھامے ہوئے تھے جنہوں نے نہ صرف سفارتخانے پر پتھراؤ کیا بلکہ دیواروں پر نصب سیکیورٹی کیمرے اتار کر پھینک دیے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بغداد میں امریکی سفارتخانے پر مظاہرین کے حملے کی مذمت کرتے ہوئے اس کا ذمہ دار ایران کو قرار دیا اور تہران کو خبردار کیا تھا کہ اسے اس کی ’بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی‘۔

جس کے جواب میں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے عراق میں فضائی حملوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی تھی کہ ان کا ملک خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہے۔

اس تمام تر تنازع میں مزید کشیدگی اس وقت شدید تر ہوگئی جب امریکا کے ڈرون حملے میں ایران کی القدس فورس کے سربراہ اور انتہائی اہم کمانڈر قاسم سلیمانی مارے گئے ان کے ساتھ عراقی ملیشیا کمانڈر ابو مہدی المہندس بھی حملے میں ہلاک ہوئے۔

پینٹاگون سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ’اس حملے کا مقصد مستقبل میں ایرانی حملوں کی منصوبہ بندی کو روکنا تھا اور امریکا اپنے شہریوں اور دنیا بھر میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ناگزیر اقدامات کرتا رہے گا‘ـ

مزید پڑھیں: امریکی سیکریٹری دفاع کا آرمی چیف کو فون،'خطے کی کشیدگی میں کمی کے خواہاں ہیں'

قاسم سلیمانی کی ہلاکت پر ایران کی جانب سے سخت ردِ عمل سامنے آیا اور تہران نے امریکا کو سخت نتائج کی دھمکی دیتے ہوئے اس قتل کا بدلہ لینے کا عزم ظاہر کیا۔

ایران کے ریاستی ٹی وی نے قاسم سلیمانی کے قتل کو جنگ عظیم دوئم کے بعد امریکا کی سب سے بڑے غلطی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ خطے کے عوام اب امریکا کو یہاں مزید قیام کا کوئی موقع نہیں دیں گے۔

بعدازاں 4 جنوری کو عراق کے دارالحکومت بغداد کے گرین زون میں امریکی فوجیوں کے ایک بیس پر راکٹ حملہ کیا گیا تھا تاہم کسی قسم کے نقصان کی اطلاع موصول نہیں ہوئی تھی۔