وہ آدمی کہ جس کا دل 5 سال کے بچے جیسا تھا، ڈر گیا۔ اس نے سوچا ’ان کتوں کو کوئی روکتا کیوں نہیں؟‘
لیکن اس شہر میں اب کوئی کسی کو نہیں روک سکتا تھا۔
یہ بالکل نیا شہر تھا، پرانا شہر آہستہ آہستہ معدوم ہوتے ہوتے آج مکمل طور پر گم ہوگیا تھا۔
وہ وہاں سے بھاگا کہ اسے پرانا شہر ڈھونڈنا تھا۔
’کیا یونہی بھاگتا جاؤں، بھاگتا جاؤں تو مجھے گُم ہوا شہر مل جائے گا؟‘، اس نے اپنے آپ سے سوال کیا تھا۔
’نہیں، نہیں، نہیں۔ گم ہوئے شہر کبھی نہیں ملتے‘، اندر سے جواب ملا تھا۔
وہ اس نئے شہر سے بھاگ جانا چاہتا تھا، چند روز پہلے افشین نے اسے بتایا تھا کہ ’وہ تو اس شہر سے دُور جانے والی ہے، بہت دُور بلکہ خواب میں اس نے ایک گاڑی بھی پکڑلی تھی، جس پر وہ بغیر ٹکٹ سوار ہوگئی تھی اور اس نے کئی ہزار کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے یہ شہر پار کرلیا تھا۔ خواب میں انسان بہت تیز سفر کرتا ہے، صدیوں بھرا دن لمحوں میں کٹ سکتا ہے‘۔
’ہوسکتا ہے یہ زندگی عرصہ خواب ہو؟‘، اس نے افشین سے پوچھا تھا۔
’نہیں بالکل نہیں، یہاں ایک ایک لمحہ صدی بن گیا ہے، یہ خواب نہیں ہوسکتا‘، افشین نے کہا۔
’اس سے پہلے کہ دالیں سبزیوں کے بھاؤ، سبزیاں گوشت کی قیمت پر بکیں اور گوشت ہماری قوتِ خرید سے باہر ہوجائے ہمیں اس سے پہلے اس شہر سے بھاگ کر شادی کرلینی چاہیے‘، افشین نے کہا۔
’لیکن میری تو شادی ہوچکی ہے اور میرا ایک بچہ بھی ہے۔ لیکن اگر پھر بھی تم مجھ سے شادی کرنا چاہتی ہو تو سنو، ہم ضرور شادی کرلیں گے، بس کچھ رقم میرے ہاتھ آجائے، میں پیسے جمع کررہا ہوں، مجھے کچھ وقت چاہیے‘۔
’وقت ہی تو نہیں ہے‘، افشین نے کہا اور اس کے پاس واقعی وقت نہیں تھا۔ اس نے آج ایک بلڈنگ سے چھلانگ لگا کر خودکشی کرلی تھی۔ اس شہر میں اب ایسا کوئی قانون نہیں تھا جس سے یہ ثابت کیا جاسکتا کہ اس نے بلڈنگ سے چھلانگ لگائی تھی یا اسے مچھروں نے نیچے پھینکا تھا؟
وہ ڈرا ہوا لڑکا بھاگتا بھاگتا ایک گلی میں داخل ہوا جو اس کی اپنی گلی ہی کی طرح تھی، لیکن اس کا گھر کہیں موجود نہیں تھا۔ صبح تک تو اس کا گھر اسی گلی میں موجود تھا، معلوم نہیں اب اس کا گھر کہاں ہے؟ ابھی وہ یہ سوچ ہی رہا تھا کہ ایک لڑکا ہاتھ میں کتے کی رسی پکڑے اس کے سامنے آگیا۔ لڑکے اور کتے کی آنکھوں میں وحشت صاف دکھائی دے رہی تھی۔
’دیکھو مجھ سے لڑنا مت، مجھے لڑنا نہیں آتا‘، اس نے گھبرا کر کتے والے نوجوان سے التجا کی۔
لڑکے نے اس کا گریبان پکڑ لیا اور ایک زوردار تھپڑ اسے رسید کیا۔
’دیکھو مجھے چھوڑ دو میں ڈرا ہوا انسان ہوں، میرے ماں باپ بھی ڈرے ہوئے تھے اور انہوں نے مجھے سکھایا تھا کہ کسی سے مت لڑنا‘۔
لڑکے نے اسے دھکا دے کر نیچے گرا دیا۔ ’تم اتنے بڑے ہوگئے ہو اور ابھی بھی ڈرتے ہو، یہ لو کتا اور شہر کی گلی گلی میں گھومو‘۔
’کتا؟ نہیں، نہیں مجھے کتوں سے خوف آتا ہے‘۔
’خوف؟ کس بات کا خوف؟ اب تو شہر میں انسانوں سے زیادہ کتے ہیں‘۔
وہ وہاں سے بھاگا تو کتے والے لڑکے نے پیچھے سے آواز لگائی، ’نئے شہر میں رہنے کے لیے ہمارے جیسے ہوجاؤ، ورنہ تمہیں شہر چھوڑنا پڑے گا‘۔
وہ بھاگتا رہا، بھاگتا رہا حتٰی کہ اپنے گھر کے دروازے پر پہنچ گیا۔ لیکن اب دروازہ نہیں کُھل رہا تھا۔
’آپ رات کے اس وقت باہر کیوں گئے تھے؟‘، میں آپ سے معذرت چاہتا ہوں دراصل میری بیوی کی آنکھ پھر کھل گئی ہے۔
’سگریٹ پینے گیا تھا‘، میں نے اسے بتایا۔
’چار پیسے جو کماتے ہو، وہ بھی دھوئیں میں اُڑا دیتے ہو۔ اس بچے کو دیکھو، کل کو اس نے اسکول جانا ہے، کچھ بننا ہے۔ کیا تم نے اس بارے میں کچھ سوچا ہے؟‘، لیکن میرے پاس ان میں سے کسی سوال کا جواب نہیں۔
رکیے! میں سگریٹ پی کر آتا ہوں۔
’اب پھر باہر جارہے ہو؟ تم کبھی بھی ہمارے بارے میں نہیں سوچتے‘۔
میں اپنے ایک کمرے کے مکان سے باہر آجاتا ہوں۔ باہر بے انتہا سردی ہے لیکن میرے اندر آگ جل رہی ہے۔ سگریٹ سلگا کر میں نے سامنے دیکھا تو ایک آدمی تھر تھر کانپ رہا تھا۔
محمد جمیل اختر
پاکستان اور انڈیا کے بیشتر اردو اخبارات اور جرائد میں محمد جمیل اختر کے افسانے شائع ہوچکے ہیں، جس میں فنون، ادبیات، ایوان اردو دہلی، ادب لطیف، اردو ڈائجسٹ اور سہ ماہی تسطیر قابل ذکر ہیں۔ افسانوں کی پہلی کتاب ’ٹوٹی ہوئی سڑک‘ 2017 میں شائع ہوئی۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔