آسٹریلیا کے جنگلات میں لگی آگ کے بارے میں آپ کیا کچھ جانتے ہیں؟

ستمبر 2019 سے آسٹریلیا کے جنگلات میں لگی آگ نے ملک کی تمام ریاستوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

جنگلات میں گزشتہ چند ماہ سے آگ لگی ہوئی ہے—فوٹو: اے ایف پی

ویب ڈیسک

دنیا کے سب سے بڑے براعظم ایشیا کے ایک کونے میں ’اوقیانوس‘ نامی خطے میں واقع رقبے کے لحاظ سے دنیا کے چھٹے بڑے ملک آسٹریلیا میں گزشتہ چند ماہ سے آگ کی تباہ کاریاں جاری ہیں۔

آسٹریلیا ایک ایسے خطے میں واقع ہے جسے نہ صرف ’اوقیانوس‘ کا خطہ کہا جاتا ہے بلکہ اس خطے کو ’براعظم آسٹریلیا‘ بھی کہا جاتا ہے جو کہ غلط ہے۔

جریزہ نما ملک کے پڑوس میں نیوزی لینڈ، انڈونیشیا، مشرقی تیمور اور پاپانیوگنی جیسے جزیرہ نما ممالک ہیں جن کا بہت بڑا حصہ آسٹریلیا کی طرح صحرا، جنگلات اور جزائر پر مشتمل ہے۔

’نیو ساؤتھ ویلز، وکٹوریا، کوئینز لینڈ، ویسٹرن آسٹریلیا، ساؤتھ آسٹریلیا اور تسمانیا‘ نامی ریاستوں پر مبنی ملک آسٹریلیا کا شمار دنیا کی بڑی معیشتوں اور ترقی پذیر ممالک میں بھی ہوتا ہے۔

آسٹریلیا کا شمار بڑے اقتصادی ممالک میں ہوتا ہے—فوٹو: ایشیا پیڈیا

اس ملک کا بہت بڑا رقبہ جنگلات پر مشتمل ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ جب دنیا کے دیگر ممالک میں سردیاں ہوتی ہیں تو یہاں گرمیاں ہوتی ہیں۔

آسٹریلیا میں آگ لگنے کے واقعات معمول کا حصہ ہیں اور چوں کہ وہاں جنگلات کافی ہیں اس لیے ہر سال وہاں کے لوگ آگ کا سامنا کرتے ہیں۔

تاہم سال 2019 کے آخر میں آسٹریلیا کے جنگلات میں لگنے والی آگ نے اس بار نہ صرف آسٹریلوی بلکہ دنیا کے دیگر ممالک کے افراد کو بھی ہلا کر رکھ دیا۔

آسٹریلوی جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں—فوٹو: اے ایف پی

آسٹریلیا کی ریاست نیوساؤتھ ویلزکے جنگلات میں ستمبر 2019 میں نامعلوم وجوہات کی بنا پر لگنے والی آگ دسمبر 2019 تک شدت اختیار کر گئی تو پہلی بار آسٹریلوی حکومت نے لوگوں کو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ہدایت کی۔

جب تک لوگوں کو احتیاطی تدابیر لینے کی ہدایات موصول ہوئیں تب تک آگ اپنا کام کر چکی تھی اور اس کی شدت انتہائی بڑھ چکی تھی۔

آسٹریلیا کے جنگلات میں لگی آگ کے نقصانات کے حوالے سے حتمی طورپر اب تک کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے کیوں کہ خود آسٹریلوی حکام کو ہی آگ کے نقصانات کا درست اندازہ نہیں۔

آسٹریلوی حکام اور متعدد فلاحی اداروں کی جانب سے جاری کی گئی 8 جنوری 2020 تک کی معلومات کے مطابق جنگلات میں لگی آگ کے نتیجے میں 4 ارب 40 کروڑ امریکی ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔

ستمبر 2019 سے 7 جنوری 2020 تک 25 افراد ہلاک ہوچکے تھے—فوٹو: اے ایف پی

عالمی اقتصادی ادارے ’موڈیز‘ کے مطابق ستمبر 2019 سے لگنے والی آگ نے 8 جنوری 2020 تک آسٹریلیا کی معیشت کو 4 ارب 40 کروڑ امریکی ڈالر کا نقصان پہنچایا۔

عالمی ادارے کے مطابق آگ کی وجہ سے پھیلنے والی آلودگی نے آسٹریلیا کی 30 فیصد آبادی کو بھی متاثر کیا ہے جب کہ انشورنس کمپنیوں نے جنوری کے آغاز تک تقریبا ایک ہزار انشورنس دعوے وصول کیے جن کے مطابق دعوے دائر کرنے والے افراد نے 65 کروڑ امریکی ڈالر کے نقصانات کے دعوے کیے ہیں۔

ستمبر 2019 سے 7 جنوری 2020 تک آگ لگنے کے بعد ہونے والے واقعات، آگ میں جھلس کر ہلاک ہونے یا آگ کی وجہ سے دھواں پھیلنے کے بعد سانس لینے میں دشواری کے باعث 25 افراد ہلاک ہوئے جن میں کچھ نابالغ افراد اور عمر رسیدہ افراد بھی شامل تھے۔

جنگلات میں لگی آگ ریاست ساؤتھ ویلز کے جنگلات سے نکل کر دوسری ریاستوں کے جنگلات تک بھی پہنچ گئی ہے اور اب تک ریاست وکٹوریا اور کوئنز لینڈ کے جنگلات سمیت دیگر ریاستوں کے جنگلات بھی اس سے متاثر ہوئے ہیں۔

50 کروڑ جانوروں کی زندگی داؤ پر لگی ہوئی ہے—فوٹو: اے ایف پی

یہ واضح نہیں ہے کہ آسٹریلیا کی تمام ریاستوں کے جنگلات میں کتنے مقامات پر آگ لگی ہوئی ہے تاہم اندازہ ہے کہ آگ 300 سے زائد مقامات پر لگی ہوئے ہے اور اس کی شدت میں ہر گزرتے دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

آگ نے ریاست وکٹوریا کے 43 مقامات یا رہنے کی قابل جگہوں کو مکمل طور پر تباہ کردیا جب کہ مذکورہ ریاست کے 6 ہزار کے قریب بجلی سمیت دیگر مواصلات سے بھی محروم ہوگئے۔

ریاست نیو ساؤتھ ویلز کے کچھ مقامات ایسے بھی ہیں جہاں آگ جنگلات سے نکل کر مقامی آبادی تک پہنچ گئی ہے اور لوگ علاقہ چھوڑ کر محفوظ مقامات کی جانب سے چلے گئے ہیں۔

آگ کی سب سے زیادہ شدت نیو ساؤتھ ویلز، وکٹوریا اور ساؤتھ آسٹریلیا ریاستوں میں ہے جہاں آسٹریلیا کے تین اہم اور بڑے شہر بھی واقع ہیں جن تک اگرچہ آگ ابھی تک نہیں پہنچی تاہم ان شہروں تک آگ کی وجہ سے اٹھنے والا دھواں پہنچ چکا ہے۔

7 جنوری 2020 تک 2 ہزار گھر تباہ ہوچکے تھے—فوٹو: اے ایف پی

ریاست وکٹوریا میں میلبورن، نیو ساؤتھ ویلز میں سڈنی اور ساؤتھ آسٹریلیا میں ایڈیلیڈ شہر سے آگ 50 سے 90 میل کی دوری پر ہے اور ان شہروں کو دھوئیں نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔

گزشتہ چند ماہ سے لگی ہوئی آگ نے جنوری 2020 کے آغاز تک اسرائیل، کویت،قطر، برونائی اور ہانک کانگ سمیت درجنوں ممالک کے کل رقبے سے زیادہ رقبے پر پھیلے جنگلات کو جلا کر راکھ کر چکی ہے۔

نیویارک ٹائمز کے مطابق آسٹریلیا کے جنگلات میں لگی آگ نے ستمبر 2019 سے 7 جنوری 2020 تک اگست 2019 میں ایمیزون جنگلات میں لگی آگ سے 6 گنا زیادہ نقصان کیا اور آگ میں لاکھوں ایکڑ رقبے پر پھیلے جنگلات جل گئے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ اگرچہ یہ واضح نہیں ہےکہ اس بار لگنے والی آگ کی اصل وجوہات کیا تھیں تاہم آسٹریلیا کے جنگلات میں انتہائی گرم موسم کی وجہ سے تھوڑی سے بھی لاپرواہی کی وجہ سے آگ لگ جاتی ہے۔

آسٹریلیا کی تمام ریاستوں کے جنگلات آگ کی لپیٹ میں ہیں تاہم 4 ریاستوں کے جنگلات میں آگ زیادہ ہے—فوٹو: اے ایف پی

خیال کیا جا رہا ہے کہ ستمبر 2019 میں اپنی شدت کو پہنچنے والی مذکورہ آگ اپریل 2019 میں شروع ہوئی ہوگی اور پھر یہ آگ دسمبر 2019 تک بہت بڑے پیمانے تک پھیل گئی۔

مذکورہ آگ کی وجہ سے 7 جنوری 2020 تک مختلف ریاستوں کے 2 ہزار کے قریب گھر متاثر ہوئے یا وہ مسمار ہوگئے جب کہ مختلف ریاستوں سے 4 ہزار کے قریب افراد نے محفوظ مقامات کی جانب نقل مکانی بھی کی۔

آگ کی وجہ سے سب سے زیادہ نقصان جنگلات میں رہنے والے جانوروں کو ہوا ہے اور تقریبا 50 کروڑ کے قریب جانوروں کی زندگی خطرے میں ہے۔

آگ کو بجھانے کے لیے ہر طرح کی امدادی کارروائیاں جاری ہیں—فوٹو: اے ایف پی

جنگلات میں پھیلی آگ کی وجہ سے لاکھوں جانور جل کر ہلاک بھی ہوچکے ہیں اور کئی جاندار ایسے بھی ہیں جن کی نسل دنیا سے معدوم ہونے کے خطرات بھی پیدا ہوگئے ہیں کیوں کہ آگ سے متاثرہ آسٹریلیا کے جنگلات میں کئی جاندار ایسے ہیں جن کی نسل معدوم ہونے کے قریب تھی۔

ویب ڈیسک

جنگلات میں لگی آگ نے ریاست وکٹوریا، نیو ساؤتھ ویلز اور ساؤتھ آسٹریلیا کو بری طرح متاثر کیا ہے اور دیگر ریاستوں کے جنگلات بھی اس آگ سے متاثر ہوئے ہیں۔

آگ سے متاثرہ بڑی ریاست نیو ساؤتھ ویلز کے دارالحکومت اور آسٹریلیا کے اہم ترین شہر سڈنی سے اگرچہ آگ اب بھی کافی دوری پر ہے اور اندازہ اس شہر سے آگ 100 میل سے کم دوری پر ہے تاہم آگ کے دھوئیں نے اس شہر کو اپنی لپیٹ میں لینا شروع کیا ہے۔

آگ آسٹریلیا کے بڑے شہروں سے 100 میل کی دوری تک پہنچ گئی—فوٹو: اے ایف پی

سڈنی تک آنے والے دھوئیں کی وجہ سے لوگوں کو سانس لینے میں مشکلات کا سامنا ہے جب کہ اسی ریاست کے قریب ہی دارالحکومت کینبرا واقع ہے اور وہاں تک بھی آگ کے دھووں کے اثرات پہنچے ہیں۔

اسی طرح ریاست وکٹوریا کے اہم ترین شہر میلبورن سے بھی آگ 50 سے 70 میل کی دوری پر ہے اور آگ کے اثرات شہر تک پہنچنا شروع ہوگئے ہیں۔

وکٹوریا اور نیو ساؤتھ ویلز کی طرح ریاست ساؤتھ آسٹریلیا کا شہر ایڈیلیڈ بھی آگ سے 80 میل کی دوری پر ہے اور آگ کے دھوئیں نے اس شہر کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔

آگ کے شعلے گھروں تک پہنچنے کی وجہ سے لوگ خوف میں بھی مبتلا ہیں—فوٹو: اے ایف پی

اس بات کے امکانات بہت کم ہیں کہ آگ مذکورہ شہروں تک پہنچے کیوں کہ ان تینوں شہروں میں آسٹریلوی فوج کے اڈوں سمیت فائر فائیٹرز اور دیگر حکومتی ادارے موجود ہیں اور مذکورہ شہروں میں فوج، فائر فائیٹرز اور دیگر ریسکیو اہلکاروں کو پہلے ہی الرٹ کردیا گیا ہے۔

تاہم آگ کے انتہائی قریب پہنچنے اور ان شہروں تک دھوئیں کے پھیلنے کی وجہ سے لوگوں میں خوف پایا جاتا ہے اور ایک بہت بڑی آبادی کو سانس لینے سمیت دیگر امور سر انجام دینے میں مشکلات درپیش ہیں۔

امدادی کارروائیوں کے دوران فائر فائیٹر بھی جھلس کر جاں بحق ہوگئے—فوٹو: اے ایف پی

اگرچہ ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ حالیہ آگ جنگلات میں خود لگی تھی یا کسی انسان نے لگائی تھی تاہم پھر بھی آسٹریلوی حکام نے آگ لگانے یا تخریب کاری کے شبے میں 180 افراد کے خلاف قانونی کارروائی شروع کردی ہے۔

آسٹریلوی حکام نے جن 180 افراد کے خلاف قانون کارروائی شروع کر رکھی ہے اس میں سے 24 افراد پر مبینہ طور پر حالیہ آگ لگانے یا آگ کی راہ ہموار کرنے جیسے الزامات لگائے گئے ہیں۔

نیو ساؤتھ ویلز پولیس کے مطابق جن افراد کے خلاف قانونی کارروائی شروع کی گئی یا جن پر آگ لگانے یا آگ لگنے کا سبب بننے جیسے الزامات لگائے گئے ہیں ان کا ریکارڈ یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ تخریب کاری اور آگ لگانے جیسی کارروائیوں میں ملوث رہے ہیں۔

آگ لگائے جانے کے الزامات کا سامنا کرنے والے زیادہ تر افراد کم عمر اور نابالغ ہیں جب کہ بعض افراد بڑی عمر کے بھی ہیں تاہم زیادہ تر کا تعلق دیہی اور جنگلات کے قریب رہنے والے علاقوں سے ہے۔

پولیس نے کئی افراد کو گرفتار کرکے ان سے پوچھ گچھ شروع کردی—فوٹو: نیو ساؤتھ ویلز پولیس