پاکستان

'قوم کے پیسے سے کسی کو ہمدردی نہیں، شبر زیدی کتنے بیمار ہیں سب معلوم ہے'

سرکاری نقصان ہوا اور آپ کو پرواہ ہی نہیں، چیف جسٹس کے قائم مقام چیئر پرسن ایف بی آر کی سرزنش کے دوران ریمارکس

سپریم کورٹ آف پاکستان نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو 15 روز میں غیرقانونی ٹیکس ری فنڈ کی تحقیقات مکمل کرنے کا حکم دے دیا۔

عدالت عظمیٰ میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں بینچ نے غیرقانونی ٹیکس ری فنڈ کیس کی سماعت کی، جہاں ایف بی آر کی قائم مقام چیئرپرسن نوشین جاوید امجد عدالت میں پیش ہوئیں۔

دوران سماعت نوشین جاوید نے عدالت کو بتایا کہ وزیراعظم آفس سے منظوری کے بعد انکوائری شروع ہوچکی ہے، اس پر چیف جسٹس نے قائم مقام چیئرپرسن کی سخت سرزنش کی اور کہا کہ بی بی ہم یہاں کہانیاں سننے نہیں بیٹھے۔

مزید پڑھیں: ٹیکس چوری کیلئے جعلی انوائسز استعمال کرنے والا گروہ بےنقاب

چیف جسٹس نے پوچھا کہ 3 ماہ کی عدالتی مہلت میں تحقیقات مکمل کیوں نہیں ہوئیں، اربوں روپے لٹ گئے ہیں، سرکار کا نقصان ہوا ہے آپ کو پرواہ ہی نہیں۔

عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو پرواہ نہیں تو اپنا عہدہ چھوڑ دیں، ایف بی آر دیگر کاموں میں مصروف ہے اور عدالتی احکامات پر توجہ نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے ان کی سرزنش کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ چیئرپرسن صاحبہ رقم آپ کی جیب سے گئی ہوتی تو آپ ایک منٹ بھی گھر نہ بیٹھتیں۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ قوم کے پیسے سے کسی کو ہمدردی نہیں لیکن اب ایسا نہیں ہوگا۔

سماعت کے دوران عدالت نے کہا کہ چیئرمین ایف بی آر بھی چھٹی پر چلے گئے ہیں، جس پر قائم مقام چیئرپرسن نے بتایا کہ شبرزیدی بیمار ہوکر ہسپتال میں داخل ہیں، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ شبر زیدی کیوں اور کتنے بیمار ہیں سب معلوم ہے۔

بعد ازاں عدالت نے مذکورہ معاملے کی سماعت 2 ہفتوں کے لیے ملتوی کرتے ہوئے ایف بی آر کو 15 روز میں غیرقانونی ٹیکس ری فنڈ کی تحقیقات مکمل کرنے کا حکم دے دیا۔

یہ بھی پڑھیں: مشیر خزانہ کی ایف بی آر کو ریونیو کلیکشن بڑھانے کی ہدایت

خیال رہے کہ گزشتہ دنوں فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے اربوں روپے کی ٹیکس دھوکا دہی میں ملوث جعلی کمپنیوں کے نام پر انوائسز جاری کرنے والے 50 سے 60 بد عنوان کے افراد کے گروہ کو بے نقاب کیا تھا۔

یہ گینگ ملک کے مختلف شہروں سے کام کررہا تھا اور چیزوں کی نقل و حرکت کے بغیر سیلز ٹیکس انوائسز جاری کر رہا تھا۔

یہ جعلی کمپنیاں جو صرف کاغذوں میں موجود تھیں وہ جعلی انوائسز جاری کرتی تھیں اور پھر وہ کبھی نہ خریدے گئے خام مال پر محکمہ سیلز ٹیکس سے رقوم کی واپسی (ریفنڈ) کا دعویٰ کرتی تھیں۔