دنیا

ایران کا جوابی وار، عراق میں امریکی فوجی اڈوں پر میزائل حملے

تہران نے رات ڈیڑھ بجے الاسد فضائی اڈے اور ایربل میں ایک بیس کو ایک درجن سے زائد بیلسٹک میزائلوں سے نشانہ بنایا، رپورٹ

ایران نے القدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے جواب میں عراق میں امریکا اور اس کی اتحادی افواج کے 2 فوجی اڈوں پر 15 بیلسٹک میزائل داغ دیے۔

برطانوی خبررساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق تہران نے مقامی وقت کے مطابق رات ڈیڑھ بجے عراق میں اربیل اور عین الاسد کے مقام پر 2 فوجی اڈوں کو نشانہ بنایا جہاں امریکی، اتحادی افواج کے اہلکار موجود تھے جبکہ مذکورہ حملے میں ایران نے اپنی سرزمین سے ایک درجن سے زائد میزائل فائر کیے۔

ایران کے سرکاری ٹیلی ویژن کی رپورٹ کے مطابق میزائل حملے میں ’80 امریکی دہشت گرد‘ ہلاک ہوئے اور کوئی میزائل روکا نہیں جاسکا۔

سرکاری ٹی وی نے پاسداران انقلاب کے ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ اگر امریکا نے جوابی کارروائی کی تو ایران کی نظر خطے میں موجود 100 اہداف پر ہے۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ امریکی ہیلی کاپٹرز اور فوجی سازو سامان کو بھی ’سخت نقصان‘ پہنچا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ایران کا کسی بھی جارحیت کی صورت میں امریکا کو مزید حملوں کا انتباہ

واضح رہے کہ 1979 میں تہران میں موجود امریکی سفارتخانے کا محاصرہ کرنے کے بعد سے اب تک کا یہ ایران کا امریکا کے خلاف سب سے بڑا براہ راست حملہ ہے۔

دوسری جانب امریکی اور عراقی حکام نے کہا ہے کہ عمارتوں کی تلاشی جاری ہے تاہم ابھی تک کسی قسم کے جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔

ایران کے سرکاری ٹیلی ویژن کے مطابق ایران کے اسلامی پاسداران انقلاب نے قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے جواب میں راکٹ فائر کرنے کی تصدیق کی۔

بیان میں امریکا کو مزید اموات سے بچنے کے لیے خطے سے اپنے فوجی اہلکار واپس بلانے کی تجویز بھی دی گئی اور امریکی اتحادیوں بشمول اسرائیل کو خبردار کیا کہ حملوں کے لیے اپنی سرزمین نہ استعمال ہونے دے۔

مزید پڑھیں: 52 اہداف کا ذکر کرنے والوں کو 290 کا نمبر بھی یاد کرنا چاہیے، ایرانی صدر

دوسری جانب امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کی جانب سے ایرانی حملے سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد فراہم نہیں کی گئی۔

پینٹاگون کے ترجمان جوناتھن ہوفمین نے ایک بیان میں کہا کہ عراق میں عین الاسد فضائی اڈے اور ایربیل میں ایک اور اڈے کو نشانہ بنایا گیا، ہم لڑائی سے ہونے والے نقصانات کے ابتدائی جائزے پر کام کررہے ہیں‘۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ ’جیسے ہی ہم صورتحال اور اپنے ردِ عمل کا اندازہ لگالیں گے خطے میں موجود امریکی اہلکاروں، اتحادیوں اور شراکت داروں کا دفاع اور حفاظت کرنے کے لیے تمام تر ضروری اقدامات اٹھائے جائیں گے‘۔

ایرانی حملے میں کوئی عراقی شہری ہلاک نہیں ہوا، عراقی فوج

عراقی فوج نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے بتایا کہ میزائل حملوں میں 2 اڈوں کو نشانہ بنایا گیا لیکن اس میں کوئی عراقی شہری ہلاک نہیں ہوا۔

بیان کے مطابق رات ایک بج کر 45 منٹ سے 2 بج کر 15 منٹ کے دوران عراق میں 22 میزائل داغے گئے جس میں سے 17 میزائلوں نے عین الاسد بیس جبکہ 5 نے اربیل شہر میں فوجی اڈے کا نشانہ بنایا۔

بیان میں غیر ملکی افواج کے جانی نقصان کی کوئی تفصیلات فراہم کیے بغیر صرف اتنا بتایا گیا کہ حملے سے متاثرہ افراد میں عراقی فوج کا کوئی اہلکار شامل نہیں۔

واضح رہے کہ عین الاسد سب سے بڑا فضائی اڈا ہے جہاں امریکی سربراہی میں اتحادی افواج موجود ہیں جبکہ اربیل کرد خطے کا دارالحکومت ہے جہاں کی مقامی حکومت کے عہدیدار نے کہا کہ کسی امریکی فوجی اڈے یا امریکی قونصلیٹ کو نشانہ نہیں بنایا گیا جبکہ انہوں نے اربیل میں کسی قسم کی ہلاکت کی بھی نفی کی۔

سب ٹھیک ہے، امریکی صدر

ادھر سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں امریکی عوام کو تسلی دیتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ اب تک ’سب ٹھیک ہے‘، ہمارے پاس دنیا کی سب سے بہترین اور طاقتور فوج ہے۔

انہوں نے کہا کہ عراق میں 2 فوجی اڈوں پر ایرانی میزائل حملے میں ہونے والے نقصانات اور ہلاکتوں کا اندازہ لگایا جارہا اور اس ضمن میں بدھ کی صبح بیان جاری کیا جائے گا۔

علاوہ ازیں وائٹ ہاؤس ترجمان اسٹیفنی گریشم نے بتایا کہ دسمبر 2018 میں الاسد فضائی اڈے کا دورہ کرنے والے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو حملے کے حوالے سے بریفنگ دی گئی اور صورتحال کی نگرانی جاری ہے۔

بیان میں انہوں نے کہا کہ ’ہم عراق میں امریکی مقامات کو نشانہ بنانے کی اطلاعات سے آگاہ ہیں، صدر کو اس حوالے سے بریف کیا گیا، جو صورتحال کی بغور نگرانی اور قومی سلامتی ٹیم سے مشاورت کررہے ہیں‘۔

ادھر حملے کی خبر ملتے ہی امریکی سیکریٹری اسٹیٹ مائیک پومپیو اور سیکریٹری دفاع مارک اسپر وائٹ ہاؤس پہنچے تاہم یہ بات واضح نہیں کہ امریکا کی جانب سے کس طرح کا ردِ عمل دیا جاسکتا ہے۔

ایران جنگ یا کشیدگی میں اضافہ نہیں چاہتا، جواد ظریف

ایران کے جوابی حملے کے بعد ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ ایران نے اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 51 کے تحت اپنے دفاع میں مناسب اقدامات اٹھائے۔

ساتھ ہی انہوں نے لکھا کہ ایران جنگ یا کشیدگی میں اضافہ نہیں چاہتا لیکن کسی بھی جارحیت کے خلاف ہم اپنا دفاع کریں گے۔

ایرانی حملے کے اثرات

عراق میں ایرانی حملے کی خبریں پھیلتے ہیں ایشیا میں اسٹاک مارکیٹ میں بحران سی کیفیت دیکھی گئی جبکہ سرمایہ کاروں نے سرمایہ محفوظ بنانے کے لیے جاپانی ین اور سونے میں سرمایہ کاری کرنی شروع کردی جس سے ان کی قیمتوں میں اضافہ ہوگیا۔

علاوہ ازیں حملے کے بعد مشرق وسطیٰ میں تنازع زور پکڑنے اور غیر یقینی صورتحال کے پیشِ نظر تیل کی قیمتیں کئی ماہ کی بلند ترین سطح پر جاپہنچیں۔

یہ بھی پڑھیں: ایرانی فوجی جنرل کو بہت پہلے ہی قتل کردینا چاہیے تھا، ڈونلڈ ٹرمپ

ایران کے حملے کے بعد امریکا کی فیڈرل ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن نے امریکی طیاروں کے ایران، عراق، خلیج عمان کے ساتھ ساتھ ایران اور سعودی عرب کے درمیان مغربی ساحلوں سے گزرنے پر پابندی عائد کردی۔

ایران-امریکا کشیدگی

واضح رہے ایران اور امریکا کے درمیان کشیدگی میں شدت اس وقت آئی تھی جب 27 دسمبر کو بغداد کے شمال میں کرکوک میں عراقی فوجی اڈے پر 30 راکٹ فائر ہونے کے نتیجے میں ایک امریکی شہری کی ہلاکت ہوئی۔

جس کے جواب میں امریکی فورسز نے 29 دسمبر کو عسکری آپریشن (او آئی آر) کے تحت ایران کی حامی ملیشیا کتائب حزب اللہ کے عراق اور شام میں 5 ٹھکانوں پر حملہ کیا جس سے 25 جنگجو ہلاک ہوگئے تھے۔

جنگجوؤں کی ہلاکت پر ہزاروں افراد نے بغداد میں موجود امریکی سفارتخانے پر دھاوا بول دیا تھا تاہم اس سے قبل ہی امریکی سفارتکار اور سفارتخانے کے عملے کے بیشتر ارکان کو باحفاظت وہاں سے نکال لیا گیا تھا۔

مظاہرین نے سفارت خانہ بند کرنے کے مطالبے اور پارلیمنٹ سے امریکی فورسز کو ملک چھوڑنے کا حکم دینے پر مبنی پوسٹرز تھامے ہوئے تھے جنہوں نے نہ صرف سفارتخانے پر پتھراؤ کیا بلکہ دیواروں پر نصب سیکیورٹی کیمرے اتار کر پھینک دیے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بغداد میں امریکی سفارتخانے پر مظاہرین کے حملے کی مذمت کرتے ہوئے اس کا ذمہ دار ایران کو قرار دیا اور تہران کو خبردار کیا تھا کہ اسے اس کی ’بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی‘۔

جس کے جواب میں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے عراق میں فضائی حملوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی تھی کہ ان کا ملک خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہے۔

اس تمام تر تنازع میں مزید کشیدگی اس وقت شدید تر ہوگئی جب امریکا کے ڈرون حملے میں ایران کی القدس فورس کے سربراہ اور انتہائی اہم کمانڈر قاسم سلیمانی مارے گئے ان کے ساتھ عراقی ملیشیا کمانڈر ابو مہدی المہندس بھی حملے میں ہلاک ہوئے۔

پینٹاگون سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ’اس حملے کا مقصد مستقبل میں ایرانی حملوں کی منصوبہ بندی کو روکنا تھا اور امریکا اپنے شہریوں اور دنیا بھر میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ناگزیر اقدامات کرتا رہے گا‘ـ

قاسم سلیمانی کی ہلاکت پر ایران کی جانب سے سخت ردِ عمل سامنے آیا اور تہران نے امریکا کو سخت نتائج کی دھمکی دیتے ہوئے اس قتل کا بدلہ لینے کا عزم ظاہر کیا۔

ایران کے ریاستی ٹی وی نے قاسم سلیمانی کے قتل کو جنگ عظیم دوئم کے بعد امریکا کی سب سے بڑے غلطی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ خطے کے عوام اب امریکا کو یہاں مزید قیام کا کوئی موقع نہیں دیں گے۔

بعدازاں 4 جنوری کو عراق کے دارالحکومت بغداد کے گرین زون میں امریکی فوجیوں کے ایک بیس پر راکٹ حملہ کیا گیا تھا تاہم کسی قسم کے نقصان کی اطلاع موصول نہیں ہوئی تھی۔