خیال رہے کہ 3 جنوری کو قومی اسمبلی اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹیوں برائے دفاع کے اجلاس کے بعد وزیر قانون فروغ نسیم نے اعلان کیا تھا کہ مذکورہ بلز منظور ہوگئے اور سینیٹ کمیٹی سے علیحدہ منظوری کی ضرورت نہیں۔
تاہم جب اپوزیشن کی جانب سے حکومت کی ’ غیرمعمولی جلدبازی ‘ پر احتجاج کیا گیا تو حکومت کو 4 جنوری کو دونوں ایوانوں کا طلب کیا گیا اجلاس ملتوی کرنا پڑا تھا اور حکومت نے اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے مطالبہ کیے گئے نئی ٹائم لائن پر اتفاق کیا تھا۔
گزشتہ روز وزیر دفاع پرویز خٹک نے کہا تھا کہ ’ قائمہ کمیٹی کی جانب سے متفقہ طور پر ترامیم کی منظوری دی گئی‘۔انہوں نے کہا تھا کہ کوئی ٹریک سے پیچھے نہیں ہٹ رہا، ہمیں افواہوں سے گریز کرنا چاہیے، تمام سیاسی جماعتیں ایک پیج پر ہیں اور مسلح افواج کے ساتھ کھڑی ہیں۔
واضح رہے کہ 3 جنوری کو ایوانِ زیریں میں پاک آرمی ایکٹ 1952، پاک فضائیہ ایکٹ 1953 اور پاک بحریہ ایکٹ 1961 میں ترامیم کے لیے علیحدہ علیحدہ بل وزیر دفاع پرویز خٹک نے پیش کیے تھے۔
اس سے قبل یکم جنوری کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی وفاقی حکومت نے کابینہ کے ہنگامی اجلاس میں آرمی ایکٹ پر ترامیم کی منظوری دی تھی۔
وزیر قانون فروغ نسیم نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں ترامیمی بلز کے مختلف پہلوؤں پر بریفنگ دی تھی۔
اپوزیشن جماعتوں پاکستان مسلم لیگ(ن) اور پاکستان پیپلزپارٹی نے بلز میں کچھ ترامیم متعارف کروانے کی کوشش کی تھی لیکن ویزر قانون نے بتایا کہ مجوزہ تبدیلیوں کے لیے آئینی ترمیم کی ضرورت ہوگی۔
قائمہ کمیٹی کے رکن کے مطابق اپوزیشن جماعتوں نے ترامیم کے لیے دباؤ نہیں ڈالا تھا اور بلز متفقہ طور پر منظور کیے گئے تھے۔
آرمی ایکٹ میں ترامیم کیا ہیں؟
پاکستان آرمی (ترمیمی) ایکٹ 2020 کے عنوان سے کی جانے والی قانون سازی کے نتیجے میں تینوں مسلح افواج کے سربراہان اور چیئرمین آف جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی کی ریٹائرمنٹ کی زیادہ سے زیادہ عمر کی حد 64 برس ہوجائے گی۔
اس کے ساتھ مستقبل میں 60 برس کی عمر تک کی ملازمت کے بعد ان کے عہدے کی مدت میں توسیع کا استحقاق وزیراعظم کو حاصل ہوگا جس کی حتمی منظوری صدر مملکت دیں گے۔
پیش کردہ بل کے مطابق آرمی ایکٹ میں دفعہ 8 اے، بی، سی، ڈی، ای، ایف شامل کیے جائیں گے جبکہ آرمی چیف کی مدت ملازمت اور عمر کے حوالے سے دفعہ 8 سی کہتی ہے کہ: اس ایکٹ کے قواعد و ضوابط کے مطابق کسی جنرل کی مقررہ ریٹائرمنٹ کی عمر اور مدت ملازمت کی کم از کم عمر کا اطلاق چیف آف آرمی اسٹاف کی تعیناتی کی مدت، دوبارہ تعیناتی اور توسیع کے دوران نہیں ہوگا اور اس کی زیادہ سے زیادہ عمر 64 سال ہوگی۔
یہ بھی پڑھیں: آرمی ایکٹ میں ترامیم: پارلیمانی طریقہ اپنایا جائے گا تو حمایت کریں گے، بلاول بھٹو
اس عرصے کے دوران چیف آف آرمی اسٹاف، پاک فوج میں جنرل کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہیں گے۔
دفعہ 8 اے (بی) کے مطابق چیف آف آرمی اسٹاف کے لیے شرائط و ضوابط کا تعین صدر مملکت وزیراعظم کے مشورے پر کریں گے۔
اس حوالے عہدیدار کا کہنا تھا کہ آرمی ایکٹ میں کی گئی ترامیم کو کسی قانونی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکے گا۔
دفعہ 8 بی (ٹو) کے مطابق اس ایکٹ یا کسی اور قانون میں موجود مواد، کسی حکم یا کسی عدالت کے فیصلے، تعیناتی، دوبارہ تعیناتی، چیئرمین کی توسیع، جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی، یا اس سلسلے میں کسی کو تعینات کرنے کی صوابدیدی کو کسی عدالت میں کسی بھی بنیاد پر چیلنج نہیں کیا جاسکتا‘۔
پس منظر
خیال رہے کہ 28 نومبر کو سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اگلے 6 ماہ تک پاک فوج کے سربراہ ہوں گے اور اس دوران حکومت پارلیمنٹ کے ذریعے سے آرمی چیف کی توسیع اور تعیناتی پر قانون سازی کرے۔
سپریم کورٹ نے 26 نومبر کو درخواست کی پہلی سماعت میں وفاقی حکومت کی جانب سے آرمی چیف کی مدت کے حوالے سےاگست میں جاری کیے گئے نوٹی فکیشن کو معطل کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس حوالے سے قانون موجود نہیں ہے۔
بعد ازاں اپنے تفصیلی فیصلے میں عدالت عظمیٰ نے کہا تھا کہ آرمی سے متعلق قوانین کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ جنرل اور آرمی چیف کی مدت اور ریٹائرمنٹ کی عمر کے ساتھ ساتھ مدت میں توسیع یا ازسر نو تعیناتی کے حوالے سے کوئی شق موجود نہیں ہے۔
فیصلے میں کہا گیا تھا کہ وزارت دفاع کی جانب سے آرمی چیف کی دوبارہ تعیناتی، توسیع اور از سرنو تعیناتی کے لیے جاری کی گئی سمری جس کی منظوری صدر، وزیراعظم اور کابینہ نے دی، بے معنیٰ ہے اور قانونی خلا پر کوئی اثر نہیں پڑا۔
عدالت عظمیٰ نے کہا تھا کہ اٹارنی جنرل نے عدالت کو یقین دہانی کروائی ہے کہ وفاقی حکومت حاضر سروس جنرل اور آرمی چیف کی سروس کے حوالے سے 6 ماہ کے اندر ایک ایکٹ کی شکل میں پارلیمنٹ کے ذریعے قانون سازی کرے گی۔
بعد ازاں دسمبر کے اواخر میں وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی درخواست دائر کی تھی اور فیصلے کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی تھی۔
علاوہ ازیں 2 جنوری کو وفاقی حکومت نے آرمی چیف کی مدت ملازمت سے متعلق دیے گئے 28 نومبر 2019 کے فیصلے پر حکم امتناع مانگتے ہوئے ایک متفرق درخواست دائر کی تھی۔