یہ ایرانی ہوٹل ہمیشہ کونے (نکڑ) پر ہی کیوں ہوتے ہیں؟
سندھ میں ایرانی ہوٹلوں کے زوال کی دلچسپ کہانی
ہمارے کچھ دوستوں کا ہم سے ایک دیرینہ مطالبہ تھا کہ ایرانی ہوٹلوں پر کچھ لکھا جائے۔ یہ کوئی ایک برس قبل کی بات ہے کہ ہم نے اس کی ہامی بھی بھرلی لیکن دن گزرتے گئے اور یہ عرصہ ایک برس سے زیادہ کا ہوگیا، مگر اس حوالے سے کوئی کام نہیں ہوسکا۔
آخر کار ہم نے اس موضوع پر لکھنے کا مصمم ارادہ کرلیا اور اس بات کا ذکر اپنے دوست سعید جان بلوچ سے بھی کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے ضرور لکھیے کہ کچھ سوال تو ان کے ذہن میں بھی ہیں جن کے جواب آج تک نہیں ملے۔ انہی سوال میں اہم ترین سوال یہ ہے کہ آخر یہ تمام ایرانی ہوٹل شاہراہوں اور بازاروں کے (کارنر) نُکڑ پلاٹ پر ہی کیوں ہوتے ہیں؟ یہ محض اتفاق ہے یا بہت سوچ بچار کے بعد ایسا کیا گیا ہے؟
اب ہم نے اس مسئلے پر غور کرنا شروع کیا تو ان کی بات درست نظر آنے لگی۔ کراچی کے علاقے صدر میں لکی اسٹار کے قریب واقع چُلّو کباب سیستانی ہو، آئی بی اے اور پی ایم اے ہاؤس کے کونے پر واقع کیفے مبارک یا پھر آئی آئی چندریگر روڈ پر صحافیوں کی بیٹھک کے حوالے سے مشہور خیرآباد ریسٹورنٹ، حتیٰ کہ حیدرآباد کا کیفے جارج اور لطیف آباد، ٹنڈو آدم، میرپورخاص اور نوابشاہ کے کیفے شیراز بھی نُکڑ پر ہی واقع ہیں۔ یہ واقعی ایک اہم بات تھی۔
اس حوالے سے کراچی صدر میں واقع کیفے یوروز کے مالک فرشید روحانی سے تفصیلی بات ہوئی۔ روحانی صاحب کے والد نے 1947ء میں کیفے یوروز قائم کیا تھا جو دسمبر 2015ء میں بند ہوگیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’یہ 1910ء یا 1912ء کی بات ہے جس وقت ایران میں تیل اور گیس کے ذخائر دریافت نہیں ہوئے تھے، نہ وہاں کی معیشت بہت بہتر تھی، نہ ہی زراعت زیادہ زرخیز تھی۔ یہی وہ وجوہات تھیں جن کی وجہ سے ایران سے لوگ ہجرت کرکے ہندوستان کے شہر بمبئی (موجودہ ممبئی) میں سکونت اختیار کرنے پر مجبور ہوئے۔ بعدازاں ان ہجرت کرنے والے لوگوں میں سے کچھ لوگ کراچی آئے جو اب پاکستان کا اہم کاروباری شہر ہے‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ، ’انہی لوگوں میں سے ایک ’بومن آبادان‘ نامی ایک پارسی شخص بھی تھا جس نے کراچی کے مشہور علاقے صدر میں ’آبادان ٹی شاپ‘ کے نام سے ایک دُکان کھولی۔ یہ لگ بھگ 1912ء یا 1913ء کے بعد یعنی پہلی جنگِ عظیم کے بعد کی بات ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ وہ دور بہت اچھا اور صاف ستھرا تھا۔ اس دور میں کاروبار بھی بہت اچھا چلتا تھا۔ آبادان ٹی شاپ کو دیکھ کر ایران سے مزید لوگ قافلوں کی صورت میں کراچی آنا شروع ہوگئے‘۔
ہمارے دوست احسن کے مطابق بہائیوں نے ایران کے زوال پذیر معاشی حالات کے سبب وہاں سے ہجرت نہیں کی تھی بلکہ اس کی 2 وجوہات تھیں۔ اوّل یہ کہ 1850ء میں ایران کے حکمران قاچاری بادشاہوں محمد علی شاہ اور ناصر الدین شاہ کے احکامات پر 20 ہزار سے زیادہ بہائی قتل کردیے گئے تھے اور دوسری وجہ یہ تھی کہ بہائیوں کے روحانی پیشوا سید علی محمد باب نے بھی بہائی مذہب کے پیروکاروں کو ہدایت کی تھی کہ وہ اپنے مذہب کی تبلیغ اور ترویج کے لیے پوری دنیا میں پھیل جائیں۔
لیکن ہمارے سامنے پہلا سوال یہ تھا کہ ایرانیوں نے کراچی میں کاروبار کا آغاز کب کیا؟ جہانگیر فریمروز پنتھکی کی مرتبہ کتاب کراچی کا زرتشتی کیلنڈر مطبوعہ 1919ء میں ’کراچی کی پہلی ایرانی دکان‘ کے عنوان سے تحریر شامل ہے جس کے مطابق ’دیگر بڑے شہروں کی طرح کراچی میں بھی ایرانی دکانوں کا اہم کردار رہا ہے۔ کراچی کی آبادی میں اضافے کے ساتھ ساتھ ایرانی دکانوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہونے لگا۔ پہلی ایرانی دکان سیٹھ جہانگیر رستم ایرانی نے قائم کی۔ انہوں نے 1893ء کے قریب قریب یہاں رہائش اختیار کی۔ یہ کہنے میں کوئی مبالغہ نہیں کہ کراچی میں موجودہ ایرانی دکانیں سیٹھ جہانگیر جی کی مرہون منت ہیں کیونکہ انہوں نے اس ضمن میں اپنے ایرانی بھائیوں کی بہت مدد کی۔‘