آسیب کہانیاں - چوتھی قسط
’وہ میری بیٹی ہے، لیکن اس کو مرے ہوئے تو اب زمانہ ہوگیا‘
**تحریر و تصاویر: عبیداللہ کیہر
اس سیریز کی بقیہ اقساط۔ پہلی، دوسری اور تیسری قسط۔
رات گئے کوئی ٹیکسی ڈرائیور یہاں سے گزر رہا ہوتا تو اسے روڈ کے کنارے فٹ پاتھ پر ایک ایسی لڑکی کھڑی نظر آتی کہ جس کی گردن سے خون بہہ رہا ہوتا۔ وہ لڑکی ٹیکسی والے کو ہاتھ دیتی ہے تو وہ فوراً رک جاتا ہے اور لڑکی کا خون بہتا دیکھ کر پریشان ہوجاتا ہے۔ وہ اس سے کہتا ہے ’باجی آپ کو کہاں جانا ہے؟ اور یہ کیا ہوا ہے آپ تو بہت زخمی ہیں۔ آپ کو کسی گاڑی نے مارا ہے؟‘
تو وہ کہتی ہے’نہیں نہیں میں ٹھیک ہوں، تم بس مجھے جلدی سے میرے گھر پہنچادو‘۔
ڈرائیور کہتا ہے ’باجی آپ گھر نہیں جائیں آپ ہسپتال جائیں۔ آپ کی حالت ٹھیک نہیں ہے‘۔
وہ کہتی ہے ’نہیں میں پہلے گھر جاؤں گی، پھر وہاں سے ہسپتال جاؤں گی‘۔
مجبوراً ڈرائیور کہتا ہے ’اچھا باجی بیٹھ جائیں‘۔
لڑکی خون ٹپکاتی ہوئی گاڑی کے اندر آکر بیٹھ جاتی ہے تو ڈرائیور اس سے پوچھتا ہے ’باجی آپ کو کہاں جانا ہے؟‘
تو وہ کہتی ہے ’ناظم آباد‘۔
ڈرائیور بیچارہ تیزی سے گاڑی چلاتا ہوا اسے ناظم آباد لے جاتا ہے۔ لڑکی اسے ایک گلی میں لے جاتی ہے اور ایک گھر کے سامنے رکوا لیتی ہے۔ وہ ٹیکسی سے اترتے ہوئے ڈرائیور کو رکنے کا اشارہ کرتی ہے اور پھر اس گھر کا دروازہ بغیر کھٹکھٹائے ہاتھ کے دباؤ سے کھول کر اندر چلی جاتی ہے۔
اب ٹیکسی والا انتظار کر رہا ہے لیکن خاصی دیر گزرنے کے باوجود اس گھر سے کوئی باہر نہیں نکلتا۔ پریشان ہوکر ڈرائیور ٹیکسی سے اترتا ہے اور گھر کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے۔ 2، 3 بار کھٹکھٹانے کے بعد آنکھوں میں نیند لیے ایک بوڑھا آدمی باہر آتا ہے اور ٹیکسی والے کو اچنبھے سے دیکھتا ہے۔
’کیا بات ہے بیٹا؟ کیوں آدھی رات کو دروازہ پیٹ رہے ہو؟‘، وہ ڈرائیور سے کہتا ہے۔
ڈرائیور حیران ہو کر بولتا ہے ’وہ بابا جی، ابھی ایک باجی میری ٹیکسی میں لال کوٹھی سے یہاں تک آئی ہیں اور گھر کے اندر گئی ہیں۔ وہ زخمی تھیں، ان کی گردن سے خون بہہ رہا تھا۔ ابھی تو انہوں نے مجھے کرایہ بھی نہیں دیا۔ کیا ان کو ہسپتال لے کر جانا ہے؟‘
بوڑھا چونکتا ہے۔ چند لمحے اس ڈرائیور کی طرف خاموشی سے دیکھتا ہے، پھر کہتا ہے ’بیٹا تم یہیں ٹھہرو، میں تمہیں ابھی کرایہ لاکر دیتا ہوں‘۔
وہ گھر کے اندر جاکر واپس آتا ہے اور ڈرائیور کو مطلوبہ رقم دے دیتا ہے۔ ڈرائیور کرایہ تو لے لیتا ہے لیکن اس کی تشویش ختم نہیں ہوتی۔
’بابا جی وہ باجی کدھر ہیں؟ ان کو ہسپتال لے کر نہیں جانا؟‘
بوڑھا افسردگی سے سر ہلاتا ہے اور کہتا ہے ’نہیں بیٹا تم جاؤ۔ اندر کوئی لڑکی نہیں ہے‘۔
ڈرائیور حیرت سے اچھل پڑتا ہے۔ ’کیا مطلب جی؟ ابھی 10 منٹ پہلے تو وہ باجی خون ٹپکاتے ہوئے آپ کے گھر میں گئی ہیں اور اب آپ کہتے ہیں اندر کوئی لڑکی نہیں ہے۔ وہ کدھر چلی گئیں؟‘
’جی بیٹا آپ صحیح کہتے ہیں۔ اسی لیے تو آپ کو کرایہ دیا ہے۔ لیکن وہ لڑکی اب اس دنیا میں نہیں۔‘
ڈرائیور چونک کر ان کی طرف دیکھتا ہے۔
’وہ میری بیٹی ہے، لیکن اس کو مرے ہوئے تو اب زمانہ ہوگیا۔ وہ آج سے کئی سال پہلے لال کوٹھی کے پاس قتل ہوگئی تھی۔ لیکن اس کی روح وہاں اب تک بھٹک رہی ہے۔ ہر سال سردیوں کی ایک رات میں وہ کسی نہ کسی ٹیکسی میں بیٹھ کر گھر تک آتی ہے اور یہاں پہنچ کر غائب ہوجاتی ہے۔ تم چھوڑو اس بات کو۔ تم اپنا کرایہ لو اور جاؤ۔‘
ڈرائیور بیچارے کی تو گھگھی بندھ جاتی ہے۔ وہ خوف سے لرزتا کانپتا سیدھا اپنے گھر کی طرف بھاگتا ہے اور اگلے کئی دن تک بخار میں مبتلا رہتا ہے۔
اچھا یہ تو ساری وہ جھوٹی سچی کہانی ہے کہ جس سے کراچی کے اکثر قدیم باشندے واقف ہیں۔ اصل بات کیا ہے یہ کسی کو نہیں معلوم۔ لال کوٹھی کی اس بھٹکتی روح پر کتابیں بھی لکھی گئی ہیں اور اس پر بڑی داستان آرائیاں بھی کی گئی ہیں، لیکن جس شخص کے ساتھ خود حقیقت میں یہ واقعہ پیش آیا ہو، وہ عام طور پہ نہیں ملتا۔
ہمارے بزرگ دوست ہیں عبدالرشید شاہد صاحب۔ مشہور خطاط ہیں اور ایک اخبار میں کام کرتے ہیں۔ میری کتاب ’سفر کہانیاں‘ اور ’یارِ من ترکی‘ کے ناموں کی خوبصورت خطاطی انہی کے دستِ کمال سے تشکیل پائی ہے۔ وہ بھی لال کوٹھی کی اس بھٹکتی روح کے حوالے سے ایک عجیب واقعہ سناتے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’یہ 70ء کی دہائی کا زمانہ تھا۔ ہم ان دنوں روزنامہ مشرق میں کام کرتے تھے۔ مشرق کا دفتر لال کوٹھی کے قریب ہی ایک بنگلے میں ہوتا تھا۔ ہم چونکہ اخبار کی لے آؤٹ ڈیزائننگ اور پیسٹنگ کرتے تھے، اس لیے جب تک کاپی پریس میں نہ چلی جائے، ہم فارغ نہیں ہوتے تھے۔ چنانچہ رات گئے تک دفتر میں رکنا پڑتا تھا اور سب سے آخر میں گھر جاتے تھے۔ عام طور پر رات کے ڈھائی تین بج جاتے تھے۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ ان دنوں کراچی میں ٹریفک ویسے ہی بہت کم ہوا کرتا تھا، بسیں بھی زیادہ سے زیادہ 9 یا 10 بجے تک چلتی تھیں۔ اس کے بعد سڑکوں پر ہُو کا عالم ہوتا تھا۔ چنانچہ جب ہم دفتر سے گھر جانے کے لیے نکلتے تو ہمارے پاس ایک ہی طریقہ ہوتا تھا کہ ٹیکسی کرلیں۔ اب روزانہ ٹیکسی لے کر گھر جانا بھی خاصا مہنگا کام تھا۔ اس لیے ہم یہ کرتے کہ 2، 3 دوست مل کر ایک ٹیکسی لے لیتے تھے اور کرایہ آپس میں تقسیم کر لیتے تھے۔
’ایک رات ہم 3 ساتھی دفتر سے گھر جانے کے لیے نکلے۔ وہ دسمبر کی ایک سرد رات تھی۔ کوئٹہ سے آنے والی برفیلی ہواؤں نے اس رات کو یخ بستہ کردیا تھا۔ آدھی رات کا وقت تھا۔ ہم شارع فیصل پر آکر لال کوٹھی اسٹاپ پر کھڑے ہوگئے۔ سڑک پر سناٹے کا راج تھا۔ دُور دُور تک کوئی گاڑی نظر نہیں آرہی تھی۔ ہم نے اسٹاپ پر کھڑے ہوکر کافی دیر انتظار کیا، لیکن کوئی گاڑی نہیں آئی۔ ہمیں ڈرگ کالونی جانا تھا جو یہاں سے تقریباً 12 یا 13 کلومیٹر دُور تھی۔ جب خاصی دیر تک کوئی گاڑی نظر نہ آئی تو ہم تینوں نے باتیں کرتے کرتے پیدل ہی چلنا شروع کردیا۔ خیال یہ تھا کہ راستے میں جہاں بھی پیچھے سے کوئی گاڑی آئی اس پر سوار ہوجائیں گے، ورنہ یہ راستہ پیدل ہی طے کرلیں گے، اور ہمارے لیے یہ کوئی انوکھی بات نہیں تھی کیونکہ اکثر رات گئے پیدل گھر پہنچتے تھے۔