نقطہ نظر

بے چارہ مستقبل کا مورخ!

پرانے اور نئے پاکستان کو ملاکر ڈیجیٹل پاکستان بنالیا گیا تھا، جو گوگل، فیس بک اور ٹوئٹر پر قائم ہوا تھا۔

جس معاشرے میں سچ پر خوف طاری ہو، حقائق بیان کرتے صحافی پر سنگ باری ہو اور صاف گو دانشور پر وار کاری ہو، اس سماج میں سچائی جاننے کے لیے ساری انحصاری مستقبل کے مؤرخ پر ہوتی ہے۔

یہی حال ہمارا ہے۔ ہم جن 2 حضرات کی آمد کی آس لگائے بیٹھے ہیں ان میں ایک تو ہے 'کوئی مسیحا' اور دوسرا ہے 'مستقبل کا مؤرخ'۔

ہمیں مستقبل کے مؤرخ پر بڑا ترس آتا ہے، کیونکہ اس بے چارے سے لوگوں نے بڑی امیدیں باندھ لی ہیں، ہمیں ڈر ہے کہ وہ ان بندھی امیدوں کو دیکھ کر کہیں آتے ہی جانے کے لیے بستر نہ باندھ لے۔

اتنا ہی نہیں، لوگ تو یہ بھی طے کرچکے ہیں کہ مستقبل کا مؤرخ کیا لکھے گا۔

سوال یہ ہے کہ سب کچھ مستقبل کا مؤرخ ہی کیوں لکھے؟ آخر حال کا مؤرخ کیا کر رہا ہے؟ ہماری خواہش تو یہ ہے کہ کوئی مؤرخ حال بلکہ اس قوم کے حال کی تاریخ لکھے اور ہم کہہ اٹھیں 'مؤرخ' مرحبا۔

ہمارے ہی اس سوال کا جواب ہمارے ہی خیال میں یہ ہے کہ حال کا مؤرخ حالاتِ حاضرہ ختم ہونے کا انتظار کر رہا ہے۔ وہ خوفزدہ ہے کہ اگر حال میں رہتے ہوئے حال پر لکھا تو حال سے بے حال کردیا جائے گا، اور تاریخ لکھنے کے کچھ دنوں بعد ہی اس کے چالیسویں کی تاریخ کا اعلان ہورہا ہوگا یا پھر اس کے لاپتا ہونے کے مقدمے میں تاریخ پر تاریخ دی جارہی ہوگی۔

رہا مستقبل کا مؤرخ تو اس سے امید رکھنے والوں کے ہاتھ مایوسی کے سوا کچھ نہیں آئے گا۔ بات یہ نہیں کہ مؤرخ تاریخ لکھنے کی کوشش نہیں کرے گا، کرے گا اور پوری نیک نیتی اور دل جمعی سے کرے گا، لیکن کامیاب نہیں ہوپائے گا۔

ہوگا یوں کہ وہ بے چارہ تحریری مواد کھنگالنے کے لیے کسی کُتب خانے میں بیٹھا ہوگا کہ اس کے اسمارٹ فون پر پیغام آئے گا، 'کہاں ہیں؟' ماضی کے اوراق میں گُم مؤرخ دھیان نہیں دے گا، کچھ دیر بعد دوسرا پیغام آئے گا، 'جواب تو دیں'، وہ فون کی طرف دیکھے گا بھی نہیں، پھر تواتر سے آنے والے پیغامات میں شوہر کی بے گانگی، بے حسی، بے پروائی، سنگدلی کی تاریخ درج ہوگی، جس کے آخری باب کا عنوان ہوگا، 'ضرور کسی 'اور' کے ساتھ ہیں'۔

پھر واٹس ایپ پر کال آئے گی اور مؤرخ کا سارا استغراق یہ تقریر سُن کر درہم برہم کرجائے گا کہ 'آج مہینے کی 10 تاریخ ہوگئی ہے لیکن آپ نے میرے ہاتھ پر کچھ نہیں رکھا، اب تک مُنے کی فیس نہیں گئی ہے، ٹماٹر خریدنے کے لیے کمیٹی ڈالی تھی اس کی قسط نہیں بھر پائی ہوں، بانو آپا سے 2 چلغوزے ادھار لیے تھے، وہ واپسی کا تقاضا کر رہی ہیں، یہاں حال خراب ہے اور آپ کو تاریخ کی پڑی ہے'۔

یہ سب سُن کر مستقبل کا مؤرخ ماضی کی دستاویزات ایک طرف پٹخے گا اور یہ کہتے ہوئے گھر کی راہ لے گا، 'چھڈو جی، دفع کرو، کوئی ہور کَم کریے'۔

کچھ دنوں بعد وہ ڈرائی کلینر کی دکان کھولے رسیدوں پر دھلے ہوئے کپڑوں کی واپسی کی تاریخ ڈال رہا ہوگا یا ہومیوپیتھ بن کر کسی مریض کے مرض کی ہسٹری جان رہا ہوگا۔

ایک امکان اور بھی ہے اور وہ یہ کہ کل کا مؤرخ کسی صنعت کار، جاگیردار یا سیاست میں سرمایہ کاری کرکے صنعتیں لگانے اور سیاسی جماعت کے نام پر اپنی جاگیر بنانے والے سیاستدان کے گھر جنم لے، یعنی وہ منہ میں سونے کا چمچا لے کر پیدا ہو اور چمچے میں چلغوزے رکھے ہوں۔ اس صورت میں وہ بچوں کی فیس، کمیٹی اور مکان کے کرائے جیسی فکروں سے آزاد ہوگا، لیکن پھر اس کے مسائل دوسرے ہوں گے۔

وہ سوچے گا کہ تاریخ کی تحقیق میں کئی سال لگانے میں کہیں میں خود تاریخ کا حصہ نہ بن جاؤں، چنانچہ فوری نام وری کے لیے کسی اخبار میں کالم لکھنے لگے گا، ٹی وی چینلوں کے ٹاک شوز میں ماہرِ تاریخ کی حیثیت سے جائے گا۔ اس سب سے جو وقت بچے گا اس میں مستقبل کا مؤرخ فیس بک اور ٹوئٹر پر اپنے افکار عالیہ پوسٹ اور ٹوئٹ کرنے کے بعد اتنا تھک چکا ہوگا کہ تاریخی واقعات کی تحقیق، جائزے اور تجزیے کے بجائے تاریخ بگاڑ کر بنائی جانے والی کوئی بھارتی فلم جیسے 'پدماوت' دیکھے گا اور گانا 'نینوں والے نے چھیڑا من کا پیالہ' سُن کر خراٹے چھلکاتا ہوا سوجائے گا۔

چلیے مستقبل کے مؤرخ نے اگر ساری مصروفیات تج اور مجبوریوں سے بے نیاز ہوکر تاریخ لکھنے کی ٹھان ہی لی ہے تو خدشہ ہے کہ وہ سیاسی نعروں، سرکاری بیانات اور میڈیا کے رجحانات سے کنفیوز ہوکر خود بھی الجھے گا اور تاریخ کو بھی الجھا دے گا۔

مثال کے طور پر وہ 'شیر شاہ سوری ثانی' کی کارکردگی دیکھ کر یہی سمجھے اور لکھے گا کہ اصل شیر شاہ سوری کسی بادشاہ کا نامزد کردہ ہندوستان کا وزیراعلیٰ تھا، جو بس بادشاہ سے تبادلہ خیال اور افسران کے تبادلے کرتا تھا۔ اور یہ بھی اس کا خیال ہوتا تھا کہ وہ بادشاہ سے تبادلہ خیال کررہا ہے۔ اس تبادلے میں ایک طرف حکم ہوتا تھا اور دوسری طرف سرِ تسلیم خم۔ اسی طرح 'وسیم اکرم پلس' کے خطاب سے اسے مغالطہ ہوسکتا ہے کہ اصلی وسیم اکرم کو کوچ گود میں اٹھا کر پچ پر لاتا ہوگا، اور وسیم اکرم کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر گھماتا اور باؤلنگ کرواتا ہوگا۔ پھر چھکا لگنے پر وسیم اکرم کی کمر ٹھونک کر کہتا ہوگا 'یہ وسیم اکرم کی بول کا کمال تھا کہ صرف چھکا لگا، ورنہ تو اَٹّھا یا دَسّا لگتا'۔

مستقبل کے مؤرخ کو یہ پریشانی بھی لاحق رہے گی کہ 'کیوں نکالا' کا شکوہ (ن) لیگ والوں نے نوازشریف کے اقتدار سے ہٹائے جانے پر کیا تھا یا میاں صاحب کے جیل سے لندن جانے پر تحریک انصاف والوں نے؟ آخر اکتا کر یہ طے کرلے گا کہ 'کیوں نکالا' کے معاملے پر دونوں جماعتیں ایک پیج پر تھیں۔

جماعت اسلامی نے جس طرح جنرل ضیاالحق کی حمایت کی، ممکن ہے مؤرخ سراج الحق کی طرح ضیاالحق کو بھی امیر جماعت اسلامی سمجھ بیٹھے۔

اور پھر اس الجھن میں تو مؤرخ تاعمر مبتلا رہے گا کہ پُرانا پاکستان ختم کہاں اور نیا شروع کہاں سے ہوتا ہے۔ آخر جھنجھلا کر یوں تاریخ رقم کرے گا، 'پرانے اور نئے پاکستان کو ملاکر ڈیجیٹل پاکستان بنالیا گیا تھا، جو گوگل، فیس بک اور ٹوئٹر پر قائم ہوا تھا'۔

عثمان جامعی

عثمان جامعی شاعر، قلم کار، مزاح نگار، بلاگر، صحافی ہیں۔ آپ کی تین کتابیں شائع ہوچکی ہیں، جن میں فکاہیہ مضامین کا مجموعہ ’کہے بغیر‘، شعری مجموعہ ’میں بس ایک دیوار‘ اور کراچی کے حوالے سے ناول ’سرسید، سینتالیس، سیکٹرانچارج‘ شامل ہیں۔ آپ اس وقت ایک اخبار میں بطور ’سنڈے میگزین‘ انچارج ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔