اسلام آباد ہائی کورٹ نے صدارتی اختیار کے دائرہ کار پر سوالات اٹھادیے
اسلام آباد ہائی کورٹ نے آئین کی دفعہ 89 کے تحت صدر کو دیے گئے اختیارات کی وسعت اور وفاقی حکومت کے معمول کے افعال چلانے کے لیے صدر ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے جاری کردہ آرڈیننس کے مستقبل پر سوالات کھڑے کردیے۔
عدالت نے سینئر وکیل بابر اعوان، عابد حسن منٹو، رضا ربانی اور مخدوم علی خان کو عدالتی معاون تعینات کرنے کے ساتھ ساتھ اٹارنی جنرل کو بھی اس معاملے میں تعاون کرنے کی ہدایت کی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے آرڈیننس کی قانونی حیثیت کا تعین کرنے کے لیے متعدد سوالات کھڑے کردیے۔
عدالت آئین کی دفعہ 89 کے تحت دیے گئے اختیارات کا دائرہ کار اور یہ جاننا چاہتی تھی کہ کیا دفعہ 70 اور 80 میں بتائے گئے قانون سازی کے عمل کو ایک طرف رکھ کر ان اختیارات کا معمول کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: آرڈیننس کے خلاف درخواست: اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کو نوٹس جاری
عدالت نے یہ بھی پوچھا کہ ’کیا صدر کا منظور کردہ آرڈیننس اس نوعیت کا ہے کہ اس ضمن میں مقرر کردہ تقاضوں کو پورا کرے‘۔
اس کے علاوہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے آئین کی دفعہ 89 کے تحت بتائی گئی شرائط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جاری کیے گئے آرڈیننس کے مستقبل کے حوالے سے بھی قانونی رائے طلب کی۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سیکریٹری قانون و انصاف کو 15 روز کے اندر تحریری جواب جمع کروانے کی بھی ہدایت کی۔
خیال رہے کہ یہ درخوات پاکستان مسلم لیگ (ن) کے وکیل بیرسٹر محسن شاہنواز رانجھا نے دائر کی تھی اور عدالت سے استدعا کی تھی کہ موجودہ حکومت کی جانب سے جاری کردہ آرڈیننسز کو ’غیر قانونی، پاکستان کے آئین کی دفعہ 89 کے تحت تفویض کیے گئے اختیار کی خلاف ورزی پر غیر آئینی اور بدنیتی پر مبنی قرار دیا جائے‘۔
مزید پڑھیں: 7 نومبر کو نافذ کیے گئے آرڈیننس اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج
درخواست گزار کے وکیل ایڈووکیٹ عمر گیلانی نے عدالت کو آگاہ کیا کہ صدارتی آرڈیننس ’ہنگامی صورتحال‘ میں جاری کیے جاتے ہیں جبکہ انہیں وفاقی حکومت کے ’معمول کے امور‘ چلانے کے لیے نافذ کیا جارہا ہے۔
صدر پر اپنے اختیارات کا ’منصفانہ' استعمال نہ کرنے کا الزام لگاتے ہوئے درخواست گزار کا کہنا تھا کہ عدالت پہلے ہی کہہ چکی ہے کہ ڈاکٹر عارف علوی نے آئین کی خلاف ورزی کی اور ان کے مواخذے کا مطالبہ کیا۔
درخواست کے مطابق آرڈیننس عارضی قانون سازی کی ایک صورت ہے اور آئین ان 2 صورتوں میں آرڈیننس جاری کرنے کی اجازت دیتا ہے: (1) جب قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس نہ ہو رہے ہوں، (2) اگر صورتحال ایسی ہو کہ جس میں فوری کارروائی کی ضرورت ہو۔
درخواست کے مطابق چونکہ صدر وفاقی حکومت کی تجویز پر کام کرتا ہے لہٰذا آرڈیننس کے اجرا کی تمام تر ذمہ داری وفاقی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سینیٹ میں ’آرڈیننس کے ذریعے حکمرانی‘ پر تنازع شدت اختیار کرگیا
پارلیمان کے ایوانِ زیریں کی سرکاری ویب سائٹ کے مطابق صدر عارف علوی 24 ستمبر 2018 سے کم از کم 20 آرڈیننسز جاری کرچکے ہیں جس سے بظاہر یہ لگتا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے پارلیمانی قانون سازی کو جس حد تک ممکن ہوسکے نظر انداز کرنے کے لیے ’آرڈیننس کو قانون سازی کے معمول کے طریقہ کار کی حیثیت سے اختیار‘ کر لیا ہے۔
30 اکتوبر 2019 کو صدر عارف علوی نے 8 آرڈیننس جاری کیے تھے جن میں ’لیٹر آف ایڈمنسٹریشن اینڈ سکسیشن سرٹیفکیٹ آرڈیننس 2019، انفورسمنٹ آف ویمن پراپرٹی رائٹس آرڈیننس 2019، بے نامی ٹرانزیکشن(روک تھام) ترمیمی آرڈیننس 2019، سپیریئر کورٹس (کورٹ ڈریس اینڈ موڈ آف ایڈریس) آرڈر (ریپیل) آرڈیننس 2019، نیشنل اکاؤنٹبلیٹی (ترمیمی) آرڈیننس 2019، لیگل ایڈ اینڈ جسٹس اتھارٹی آرڈیننس 2019 اور وہسل بلوور ایکٹ‘ شامل ہیں۔
عدالت نے مذکورہ بالا ہدایت جاری کرتے ہوئے درخواست کی مزید سماعت 21 جنوری تک ملتوی کردی۔