مایو کلینک کی تحقیق میں بتایا گیا کہ ورزش صرف جسم کے لیے ہی نہیں بلکہ دماغ کو بھی صحت مند رکھنے کے لیے فائدہ مند ثابت ہوتی ہے۔
اس تحقیق کے دوران سائنسدانوں نے جرمنی سے تعلق رکھنے والے 2 ہزار سے زائد افراد کا جائزہ لینے کے بعد دریافت کیا کہ جو لوگ ورزش کرنے کے عادی ہوتے ہیں، ان کا دماغی حجم بڑا اور ان میں گرے میٹر (مرکزی اعصابی نظام کا مرکزی جز) زیادہ ہوتے ہیں۔
محققین کا کہنا تھا کہ دل کے لیے فائدہ مند جسمانی سرگرمیاں جیسے تیز چہل قدمی، دوڑنا اور سائیکل چلانا وغیرہ دماغی افعال میں تنزلی کا باعث بننے والی تبدیلیوں کا عمل سست کردیتا ہے۔
جریدے مایو کلینک پروسیڈنگز میں شائع تحقیق میں دل اور تنفس کے نظام سے متعلق فٹنس اور دماغی صحت کے درمیان تعلق کو دریافت کیا گیا۔
گرے میٹر خلیات اور فلامنت سے بنتا ہے اور اس کے حجم کا تعلق دماغی اہلیت سے ہوتا ہے۔
جرمن سینٹر فار Neurodegenerative ڈیزیز کے محققین نے 1997 سے 2012 تک 2013 بالغ افراد کا جائزہ لیا، ان کے دل اور تنفس کے نظام کی صحت کی پیمائش رضاکاروں کی جانب سے سائیکل کی ورزش کے دوران آکسیجن کی مقدار کے استعمال سے کے ذریعے کی گئی جبکہ ان کے دماغوں کا ایم آر آئی اسکینز کا بھی تجزیہ کیا گیا۔
نتائج سے معلوم ہوا کہ ورزش سے دماغی صحت بہتر ہوتی ہے جبکہ گرے میٹر کم ہونے کی رفتار سست ہوجاتی ہے۔
تحقیق میں شامل مایو کلینک کے نیورولوجسٹ رونالڈ پیٹرسن نے بتایا کہ تحقیق کا سب سے اہم پہلو ورزش کے دماغی قوت والے اسٹرکچرز پر مرتب اثرات کا سامنے آنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس سے بلاواسطہ شواہد ملتے ہیں کہ ایروبک ورزشیں جسم کے ساتھ ساتھ دماغی افعال پر مثبت اثرات مرتب کرتی ہیں، اور تحقیق کا ایک اہم پہلو یہ بھی تھا کہ درمیانی عمر کے افراد پر بھی ان نتائج کا اطلاق ہوسکتا ہے اور اس سے درمیانی عمر میں ورزش کی اہمیت کا بھی علم ہوتا ہے۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ ورزش سے دماغ کے ان حصوں میں گرے میٹر کی تعداد بڑھتی ہے جن کا تعلق بڑھاپے بشمول الزائمر امراض سے جوڑا جاتا ہے۔
سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ جسمانی سرگرمیاں اور جسمانی فٹنس عمر کے ساتھ آنے والی دماغی تنزلی سے بھی تحفظ فراہم کرنے والے عوامل ہیں۔
انہوں نے مشورہ دیا کہ ہفتہ بھر میں 150 منٹ تک ورزش کی جانی چاہیے جبکہ صحت بخش غذا کو معمول بنانے کے ساتھ تمباکو نوشی سے گریز، جسمانی وزن میں کمی اور صحت مند بلڈپریشر کو برقرار رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔