حکومت کے آرمی ایکٹ ترمیمی بل کی حمایت نہیں کریں گے، سراج الحق
جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق نے بھی آرمی ایکٹ ترمیمی بل پر حکومت کی حمایت نہ کرنے کا اعلان کردیا۔
اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ 'حکومت قانون سازی کے لیے ایوان میں ایک بل لارہی ہے، قانون سازی کے لیے مشاورت اور بحث کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ جتنا بڑا فیصلہ کرنا ہو اتنی ہی مشاورت ہونی چاہیے اور ہر قانون میں اپنی ذات اور مفادات کے بجائے عوام اور ملک کے مفادات کو ترجیح دینی چاہیے۔'
انہوں نے کہا کہ 'قانون سازی میں جلد بازی کرنا اور پراسرار انداز میں اس کو منظور کرانا کبھی بھی ملک و قوم کے مفاد میں نہیں رہا، اس وقت ہم نے یہ طے کیا ہے کہ ہم وفاقی حکومت کے اس بل کی حمایت نہیں کریں گے، ہمیں پاک فوج سے محبت ہے، پاک فوج پاکستان کا سرمایہ اور افتخار ہے اور ہم ان کی قدر و منزلت کو خوب سمجھتے ہیں۔'
ان کا کہنا تھا کہ 'ہم نے ملک کے آئین کے تحفظ کا حلف اٹھایا ہے اور پاکستان کے ہر ذمہ دار شخص جس نے حلف اٹھایا ہو اس کے ایمان کا تقاضہ ہے کہ وہ اس کے تقاضوں کو پورا کرے، ہم آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے پر حکومت کا اس لیے ساتھ نہیں دے رہے ہیں کہ ہم اصولوں کا ساتھ دینا چاہتے ہیں، حکومتیں تبدیل ہوتی رہتی ہیں اور مدت ملازمت میں توسیع سے ادارے کمزور ہو جائیں گے۔'
سراج الحق نے کہا کہ 'ہم نے دیکھا کہ جب سابق چیف جسٹس کے پاس ایک معاملہ پہنچا تو انہوں نے خود اس کا بوجھ اٹھانے کے بجائے اسے ایوان کی طرف بھیجا، آج ایوان کی صلاحیت کا امتحان ہے، کاش حکومت یہ مسئلہ خراب نہ کرتی، حکومت نے تین بار اس حوالے سے نوٹی فکیشن جاری کیا لیکن اس کے پاس ایک ایسا شخص نہیں ہے جو نوٹی فکیشن کو درست طور پر لکھ کر اس مسئلے کو حل کرتا۔'
یہ بھی پڑھیں: آرمی ایکٹ میں ترامیم کیلئے حکومت کے اپوزیشن سے رابطے
انہوں نے کہا کہ 'حکومت اگر یہ قانون سازی 15 نومبر سے قبل کرتی تو ہم سمجھتے کہ یہ قانون سازی ادارے کے لیے ہے لیکن آج یہ قانون سازی ادارے، اصولوں اور قانون کے بجائے ایک خاص تناظر میں کی جارہی ہے جبکہ ہم اگر دو نظام بنائیں گے تو اس سے ملک کو فائدہ نہیں ہوگا۔'
ان کا کہنا تھا کہ 'حکومت نے آرمی چیف کی مدت میں توسیع کے لیے علاقائی سلامتی کے مسئلے کو جو بنیاد بنایا، اگر ایسا ہے تو یہ کسی فرد واحد کا نہیں پوری قوم، ادارے اور حکومت کا مسئلہ ہے، کسی بھی چیلنج کا مقابلہ ایک فرد نہیں کرتا بلکہ بحیثیت ادارہ مقابلہ کیا جاتا ہے، لہٰذا اس بنیاد پر کم از کم ہم اس بل کا حصہ نہیں بنیں گے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم پاکستان کے مفادات کے خلاف ہیں، ہم سے زیادہ قربانیاں کسی نے نہیں دیں جس پر فخر کے بجائے ہم اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔'
قبل ازیں جمعیت علمائے اسلام (ف) نے آرمی ایکٹ ترمیمی بل کی پارلیمنٹ میں مخالفت اور بھرپور مزاحمت کا اعلان کیا تھا۔
اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ 'پارلیمنٹ میں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے ترمیمی بل لایا جا رہا ہے لیکن یہ مسئلہ اہم نوعیت کا ہے جس میں عوام کا مینڈیٹ چوری کرکے بنائی گئی اسمبلی کو اس حوالے سے قانون سازی کا حق نہیں دے سکتے۔'
ان کا کہنا تھا کہ 'جے یو آئی (ف) اس طرح کی اسمبلی میں انتہائی اہمیت کے حامل قانونی بل کی بھرپور مزاحمت کرے گی اور اپنا موقف واضح طور پر رکھے گی کہ ہم اس جعلی اسمبلی کو ایسا قانون منظور کرنے کا حق نہیں دے سکتے۔'
واضح رہے کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کی مشترکہ قائمہ کمیٹی برائے دفاع نے آرمی ایکٹ، نیوی ایکٹ اور ایئرفورس ایکٹ میں ترامیم سے متعلق تینوں ترامیمی بل منظور کر لیے ہیں۔
قومی اسمبلی (ایوانِ زیریں) میں پاک آرمی ایکٹ 1952، پاک فضائیہ ایکٹ 1953 اور پاک بحریہ ایکٹ 1961 میں ترامیم کے لیے علیحدہ علیحدہ بل وزیر دفاع پرویز خٹک نے پیش کیے تھے۔
یہ تینوں بل پاکستان آرمی (ترمیمی) ایکٹ 2020، پاکستان ایئرفورس (ترمیمی) ایکٹ اور پاکستان بحریہ (ترمیمی) ایکٹ 2020 کے نام سے اسمبلی میں پیش کیے گئے۔
مزید پڑھیں: وفاقی کابینہ کا ہنگامی اجلاس، آرمی ایکٹ میں ترامیم منظور
ترامیمی بلز کو پیش کرنے کا مقصد سپریم کورٹ کی جانب سے 28 نومبر کو دیے گئے فیصلے کی روشنی میں آرمی ایکٹ کے احکامات میں ترامیم کرنا ہے تاکہ صدر مملکت کو بااختیار بنایا جائے کہ وہ وزیراعظم کے مشورے پر تینوں مسلح افواج کے سربراہان اور چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی کی مدت ملازمت اور اس حوالے سے قیود و شرائط کی صراحت کرسکیں۔
آرمی، نیوی اور ایئر فورس ایکٹ کے ترمیمی بلز پیش کرنے کے لیے قومی اسمبلی کا اہم اجلاس اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی سربراہی میں انتہائی مختصر وقت کے لیے ہوا۔
بعد ازاں ان تینوں ترامیمی بلز کو غور کے لیے قائمہ کمیٹیوں میں بھجوایا گیا جہاں قومی اسمبلی اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کا مشترکہ اجلاس ہوا۔