دنیا

’ہم دیکھیں گے‘ ہندو مخالف ہے یا نہیں، تفتیش کیلئے بھارت میں کمیٹی قائم

پاکستان کے شہرہ آفاق شاعر فیض احمد فیض کی نظم بھارت میں ہونے والے مظاہروں میں مزاحمت کے طور پر پڑھی جا رہی ہے۔

پاکستان کے شہرہ آفاق شاعر فیض احمد فیض کی مشہور نظم ’ہم دیکھیں گے‘ پر بھارت میں تنازع کھڑا ہوگیا اور ایک تعلیمی ادارے نے اس نظم کے ہندو مخالف ہونے یا نہ ہونے سے متعلق تفتیشی کمیٹی قائم کردی۔

فیض احمد فیض نے مذکورہ نظم 1970 کے بعد پاکستان میں فوجی حکمران ضیاء الحق کے دور میں لکھی تھی اور اس نظم کو اس وقت کی فوجی آمریت کے خلاف انوکھے احتجاج کے طور کافی شہرت بھی ملی

فیض احمد فیض کی یہی نظم بھارت کے متعدد طلبہ اور دیگر عام افراد بھی ان دنوں متازع شہریت کے قانون کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں پڑھتے دکھائی دیتے ہیں۔

فیض کی یہی نظم ریاست اترپردیش کے بڑے شہر کانپور میں موجود ٹیکنالوجی کے اہم ترین تعلیمی ادارے ’انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی‘ (آئی آئی ٹی) کے طلبہ نے بھی ایک مظاہرے کے دوران پڑھی تو تنگ نظر ہندوؤں کو غصہ آگیا اور انہوں نے نظم کو ہندو مخالف قرار دے دیا۔

آئی آئی ٹی کے کانپور کے علاوہ دیگر بھارتی شہروں میں بھی کیمپس ہیں—فوٹو: فیس بک

بھارتی اخبار ’اکنامک ٹائمز‘ کے مطابق فیض کی نظم ’ہم دیکھیں گے‘ کو آئی آئی ٹی یونیورسٹی کے طلبہ نے گزشتہ ماہ 17 دسمبر کو کیے جانے والے ایک مظاہرے کے دوران پڑھا تھا۔

مذکورہ مظاہرہ نئی دہلی کی جامعہ ملیہ یونیورسٹی کے طلبہ پر پولیس تشدد کے خلاف اظہار یکجہتی کے طور پر منعقد کیا گیا تھا اور اس میں نہ صرف مسلمان بلکہ ہندو طلبہ نے بھی شرکت کی تھی۔

مظاہرے میں شریک طلبہ کی جانب سے فیض کی مشہور نظم ’ہم دیکھیں گے‘ پڑھی گئی جو آئی آئی ٹی کے کچھ طلبہ اور اساتذہ کو ناگوار گزری اور انہوں نے یونیورسٹی انتظامیہ سے شکایت کی اور الزام عائد کیا کہ نظم سے ہندوؤں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔

فیض نے ہم دیکھیں گے ضیاء کی آمریت کے خلاف لکھی تھی—فائل فوٹو: فیس بک

یونیورسٹی کے اعلیٰ انتظامی عہدیداروں کو یونیورسٹی کے ڈائریکٹر ابھے کرندیکر نے شکایت کی تھی جس کے بعد اعلیٰ انتظامیہ نے ایک تفتیشی کمیٹی قائم کرکے اسے نظم کی تفتیش کا حکم دیا۔

کمیٹی کو ہدایت کی گئی کہ وہ تفتیش کرکے رپورٹ دے کہ فیض احمد فیض کی نظم ’ہم دیکھیں گے‘ ہندو مخالف ہے یا نہیں۔

یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے ’ہم دیکھیں گے‘ کی تفتیش کے لیے کمیٹی بنائے جانے پر متعدد بھارتی ادیبوں، دانشوروں اور شاعروں نے حیرانی کا اظہار کیا اور ایسی سوچ کو مضحکہ خیز قرار دیا کہ فیض کی نظم ہندو مخالف ہے۔

دیگر بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق کانپور کے چند طلبہ اور ڈائریکٹر نے فیض احمد فیض کی مذکورہ نظم کے 2 مصرعوں پر اعتراض کرتے ہوئے اسے ہندو مخالف قرار دیا۔

طلبہ اور ڈائریکٹر نے فیض کی نظم کی مصرع ’جب ارض خدا کے کعبے سے، سب بت اٹھوائے جائیں گے’ اور ’بس نام رہے گا اللہ کا، جو غائب بھی ہے حاضر بھی، جو منظر بھی ہے ناظر بھی‘ پر اعتراض کیا اور ان مصرع کو ہندو مخالف اور اسلام کی ترویج قرار دیا.

’ہندوستان ٹائمز‘ کے مطابق اردو کے معروف شاعر، لکھاری اور فلم ساز جاوید اختر نے بھی آئی آئی ٹی کی جانب سے فیض احمد فیض کی نظم کو ’ہندو مخالف‘ قرار دیے جانے پر حیرانی کا اظہار کیا۔

متنازع شہریت قانون کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں ہندو بھی بڑی تعداد میں شریک ہو رہے ہیں—فوٹو: انڈیا ٹوڈے

جاوید اختر کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے فیض احمد فیض کی مشہور مزاحمتی نظم کو ہندو مخالف سمجھنا یا قرار دینا مضحکہ خیز بات ہے اور اس سے بڑی اور کوئی بے وقوفی نہیں ہوسکتی۔

جاوید اختر نے نظم کی تاریخ ہندوستانی عوام کو بتاتے ہوئے واضح کیا کہ ’ہم دیکھیں گے‘ کو فیض احمد فیض نے مذکورہ نظم پاکستان کے سابق فوجی حکمران جنرل ضیاء الحق کے دور میں ان کی حکومتی پالیسیوں کی مخالفت میں لکھی تھی۔

جاوید اختر نے ’ہم دیکھیں گے‘ کو شاندار مزاحمتی شاعری قرار دیا اور کہا کہ مذکورہ نظم کی لائن ’گونجے گا ان الحق کا نعرہ‘ کو ہندو مخالف نہیں ہے اور نہ ہی یہ لائن اسلامی پوائنٹ آف ویو کے طور پر نظم میں شامل کی گئی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ آئی آئی ٹی کی جانب سے فیض احمد فیض کی نظم کے خلاف تفتیشی کمیٹی قائم کیے جانے کے بعد مذکورہ نظم بھارتی مظاہرین میں مزید مقبول ہوگئی اور نوجوان مظاہرین اس نظم کو احتجاج کے طور پر گنگناتے دکھائی دیتے ہیں۔

جاوید اختر کے مطابق فیض کی نظم کو ہندو مخالف سمجھنا یا کہنا بے وقوفی ہے —فوٹو: امر اجالا

یہ نظم اور مظاہرے گزشتہ ماہ دسمبر میں بھارت کی جانب سے بنائے گئے متنازع شہریت قانون کے خلاف ہیں جس کے تحت مسلمانوں کے علاوہ 6 مذاہب یعنی ہندو، عیسائی، پارسی، سکھ، بدھ مت اور جین مذاہب کے پیروکاروں کو بھارتی شہریت دینا ہے۔

مذکورہ قانون کے تحت 6 مذاہب سے تعلق رکھنے والے پاکستان، افغانستان یا بنگلہ دیش سے 31 دسمبر 2014 سے قبل بھارت منتقل ہونے والے تمام افراد کو بھارتی شہریت دی جائے گی۔

مذکورہ قانون میں مسلمانوں کے علاوہ دیگر مذاہب کے افراد کو شہریت دینے اور مسلمانوں کو نظر انداز کیے جانے کے خلاف نہ صرف بھارت کے 22 کروڑ مسلمان بلکہ ہندو، عیسائی اور سکھ بھی احتجاج پذیر ہیں۔

خیال رہے کہ فیض احمد فیض کی مذکورہ نظم کو پاکستان کی مشہور گلوکارہ اقبال بانو نے 1985 میں لاہور کے ایک اسٹیڈیم میں کالے رنگ کی ساڑی پہن کر گایا تھا اور اس تقریب میں تقریبا 50,000 افراد شامل ہوئے تھے۔

اقبال بانو نے خاص طور پر ساڑھی اس لیے پہنی تھی کیوں کہ اس وقت جنرل ضیاء الحق نے اس لباس کے پہننے پر پابندی لگا رکھی تھی۔

ہم دیکھیں گے

لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے

وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے

جو لوح ازل میں لکھا ہے

جب ظلم و ستم کے کوہ گراں

روئی کی طرح اڑ جائیں گے

ہم محکوموں کے پاؤں تلے

جب دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی

اور اہل حکم کے سر اوپر

جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی

جب ارض خدا کے کعبے سے

سب بت اٹھوائے جائیں گے

ہم اہل صفا مردود حرم

مسند پہ بٹھائے جائیں گے

سب تاج اچھالے جائیں گے

سب تخت گرائے جائیں گے

بس نام رہے گا اللہ کا

جو غائب بھی ہے حاضر بھی

جو منظر بھی ہے ناظر بھی

اٹھے گا انا الحق کا نعرہ

جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو

اور راج کرے گی خلق خدا

جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو