عراقی ملیشیاز گروپ کے فیس بک پر امریکی حملے سے تباہ ہونے والی گاڑی کی تصویر پوسٹ کی گئی—فراہم کردہ: اے ایف پی
پینٹاگون سے جاری بیان میں دعویٰ کیا گیا کہ ’قاسم سلیمانی عراق اور مشرق وسطیٰ میں امریکیوں کو نشانہ بنانے کے لیے منصوبہ سازی میں متحرک تھے‘۔
برطانوی خبررساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق پینٹاگون سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ’صدر کی ہدایات پر امریکی فوج نے قاسم سلیمانی کو ہلاک کرکے بیرونِ ملک موجود امریکیوں کو محفوظ رکھنے کے لیے فیصلہ کن کارروائی کی‘۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ ’اس حملے کا مقصد مستقبل میں ایرانی حملوں کی منصوبہ بندی کو روکنا تھا اور امریکا اپنے شہریوں اور دنیا بھر میں اپنے مفادات کی حفاظت کے لیے ناگزیر اقدامات کرتا رہے گا‘ـ
یہ بھی پڑھیں: عراق: پیرا ملٹری دستوں کی مظاہرین سے امریکی سفارتخانے سے نکلنے کی درخواست
پینٹاگون نے اپنے بیان میں کہا کہ قاسم سلیمانی گزشتہ کئی ماہ سے عراق میں اتحادی بیسز پر حملوں کی ’منصوبہ بندی‘ کررہے تھے اور انہوں نے رواں ہفتے کے آغاز میں بغداد میں امریکی سفارتخانے پر ’حملوں‘ کی منظوری بھی دی۔
قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کچھ لکھے بغیر امریکی جھنڈے کی تصویر پوسٹ کی۔
اس ضمن میں ایک عہدیدار نے شناخت خفیہ رکھنے کی شرط پر بتایا کہ قاسم سلیمان بغداد میں ہونے والے ایک ڈرون حملے میں مارے گئے۔
ایک اور امریکی عہدیدار کے مطابق خیال کیا جارہا ہے کہ عراقی ملیشیا کمانڈر ابو مہدی المہندس بھی حملے میں ہلاک ہوئے تاہم وہ بنیادی ہدف نہیں تھے۔
مزید پڑھیں: امریکی سفارتخانے پر حملے کے بعد ٹرمپ کی ایران کو دھمکی
حکام کا مزید کہنا تھا کہ ایران کا ممکنہ ردِ عمل جانتے ہیں اور امریکی فوجی حکام اپنا دفاع کرنے کے لیے تیار ہیں، انہوں نے خطے میں موجود امریکی فوجی اثاثوں اور اہلکاروں میں اضافہ کرنے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا۔
دوسری جانب ایران کی پاسدارانِ انقلاب نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے قاسم سلیمانی کی ہلاکت کی تصدیق کردی۔
ایران کی حمایت یافتہ ملیشیاز کے گروہی اتحاد، عراق کی پاپولر موبلائزیشن فورسز (پی ایم ایف) کے ترجمان احمد الاسدی نے کہا کہ ’امریکی اور اسرائیلی دشمن مجاہدین ابو مہدی المہندس اور قاسم سلیمانی کو مارنے کے ذمہ دار ہیں‘۔
ایک امریکی عہدیدار نے رائٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا تھا کہ بغداد میں ایران سے تعلق رکھنے والے 2 اہداف پر حملہ کیا گیا۔
ادھر عراق کے پیرا ملٹری گروپس نے اپنے بیان میں کہا کہ بغداد انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر 3 راکٹ مارے گئے جس کے نتیجے میں عراقی پیرا ملٹری گروپس کے 5 اراکین اور 2 ’مہمان‘ ہلاک ہوگئے۔
یہ بھی پڑھیں: عراق: فضائی حملوں کے بعد مظاہرین کا امریکی سفارتخانے پر حملہ
انہوں نے بتایا کہ ’راکٹس ایئر کارگو ٹرمینل کے قریب جا کر لگے جس سے 2 گاڑیاں جل گئیں اور متعدد افراد زخمی اور ہلاک ہوئے۔
علاوہ ازیں مقامی ملیشیا کے کمانڈر ابو منتطہر الحسینی نے رائٹرز کو بتایا کہ ’حج سلیمانی اور ابو مہدی المہندس ایک گاڑی میں سوار تھے جو بغداد ایئرپورٹ کے آرائیول (آمد) ہال سے ایئرپورٹ سے باہر جانے والی سڑک پر گامزن تھی کہ جب ایک امریکی ہیلی کاپٹر سے فائر کیے گئے 2 گائیڈڈ میزائل نے یکے بعد دیگرے اسے نشانہ بنایا'۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ دوسری گاڑی میں پی ایم ایف کے باڈی گارڈز سوار تھے اور اسے بھی راکٹ نے نشانہ بنایا، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’امریکی مجرمان کو قافلے کی حرکات و سکنات کے بارے میں مکمل معلومات تھی‘۔
واضح رہے کہ انتہائی اہم افراد کی ہلاکت طویل عرصے سے امریکا کے ساتھ تنازع میں گھرے ایران کے لیے بڑا دھچکا ہے جبکہ اس تنازع میں گزشتہ ہفتے ایران کی حمایت یافتہ عراقی میلیشیا پر امریکی فضائی حملے اور اس کے جواب میں امریکی سفارتخانے پر ملیشیا اہلکاروں کے دھاوے کے بعد یک دم اضافہ ہوگیا تھا۔
قاسم سلیمانی کون تھے؟
خیال رہے کہ عراق اور شام میں جاری لڑائی میں اہم کردار ادا کرنے والے قاسم سلیمانی پاسدارانِ انقلاب کی بیرونِ ملک موجود شاخ کی سربراہی کرتے تھے اور ملک میں اور بیرون ملک ایک اہم شخصیت (سیلبرٹی) سمجھے جاتے تھے۔
اس کے علاوہ وہ مشرق وسطیٰ میں ایرانی اثر رسوخ کی ترویج میں بھی خاصے فعال تھے جس پر امریکا اور ایرانی کے علاقائی حریف سعودی عرب اور اسرائیل نظر رکھنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔
مزید پڑھیں: عراق: مظاہرین نے آئل فیلڈ سے تیل کی ترسیل روک دی
قاسم سلیمانی گزشتہ 2 دہائیوں میں مغرب، اسرائیل اور عرب ایجنسیوں کی جانب سے ہونے والے متعدد حملوں سے بچنے میں کامیاب رہے تھے۔
ان کی قدس فورس کے پاس ایران کی سرحد سے باہر آپریشنز کرنے کی ذمہ داری تھی جس نے 2011 سے شام میں جاری خانہ جنگی میں صدر بشارالاسد کی اس وقت حمایت کی جب وہ ناکامی کے قریب تھے اور عراق میں داعش کو شکست دینے کے لیے بھی ملیشیاز کی مدد کی تھی۔
دوسری جانب حملے میں ہلاک ہونے والے ابو مہدی المہندس الحشد الشعبی کے نائب سربراہ تھے لیکن اپنے گروہ میں احکامات دینے والے سمجھے جاتے تھے۔
ان دونوں افراد پر امریکا کی جانب سے پابندی عائد تھی۔
قاسم سلیمانی 1998 میں قدس فورس کے سربراہ بنے تھے اور اس پوزیشن پر کئی برس غیر معروف انداز میں کام کرتے رہے اور اسی دوران لبنان میں حزب اللہ، شام کے صدر بشارالاسد کی حکومت اور عراقی ملیشیاز کے ساتھ ایران کے تعلقات مضبوط ہوئے تھے۔