پاکستان

سال 2019 کے پولیو کیسز کی تعداد 123 تک جاپہنچی

وائرس متحرک ہونے میں 3 ہفتے لگتے ہیں، ممکن ہے کہ آئندہ کچھ ہفتوں تک ہم 2019 کے مزید پولیو کیسز کی تصدیق کریں، حکام
| |

اسلام آباد: گزشتہ برس اپریل میں انسداد پولیو مہم میں آنے والے تعطل کے باعث پولیو کا پھیلاؤ صحت حکام کے لیے ایک بہت بڑا دھچکا ثابت ہوا اور سال 2019 میں سامنے آنے والے پولیو کا شکار بچوں کی تعداد ایک سو 23 تک جاپہنچی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق قومی ادارہ صحت کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ ’سال 2020 کا آغاز ہونے کے باوجود مزید ایک ماہ تک سامنے آنے والے کیسز 2019 کی فہرست میں شامل کیے جاسکتے ہیں کیوں کہ کسی سال میں پولیو کیس کا اندراج وائرس کی تصدیق ہونے کی تاریخ کے بجائے ٹیسٹ کے لیے نمونے لینے کے تاریخ سے ہوتا ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ پولیو وائرس کے متحرک ہونے کے لیے کم از کم 3 ہفتوں کا وقت درکار ہوتا ہے لہٰذا نمونے لینے کے 3 ہفتوں بعد پولیو کیس کی تصدیق ہوتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ’یہ عین ممکن ہے کہ آئندہ کچھ ہفتوں تک ہم 2019 کے مزید پولیو کیسز کی تصدیق کریں‘۔

دوسری جانب نئے سال کے دوسرے ہی روز خیبر پختونخوا اور سندھ سے پولیو کے 6 نئے کیسز سامنے آگئے۔

پولیو کے لیے نیشنل ایمرجنسی آپریشن سینٹر (ای او سی) کے مطابق خیبرپختونخوا سے 5 اور سندھ سے پولیو کا ایک کیس سامنے آیا۔

مزیدپڑھیں: سندھ اور خیبرپختونخوا میں پولیو کے مزید 4 کیسز سامنے آگئے

ای او سی کے مطابق خیبر پختونخوا میں سامنے آنے والے کیسز میں سے 2 ٹانک، ایک بنوں، ایک ڈیرہ اسمٰعیل خان اور ایک مہمند سے ہے۔

قومی ادارہ برائے صحت کے عہدیدار کے مطابق ٹانک میں پولیو سے متاثرہ بچوں میں ڈھائی سال کی بچی اور اس کا 5 ماہ کا بھائی شامل ہے اور یہ دونوں کیسز پولیو ویکسین پلانے سے انکار کے ہیں۔

اسی طرح ڈی آئی خان میں دو سال کی بچی، بنوں میں 26 ماہ کا بچہ اور مہمند میں 6 ماہ کا بچہ پولیو وائرس سے متاثر ہوئے۔

سندھ میں پولیو کا نیا کیس ضلع دادو میں رپورٹ ہوا۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ 2018 میں پولیو کے صرف 12 کیس رپورٹ ہوئے تھے جبکہ 2017 میں 8 پولیو کیسز منظر عام پر آئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: ملک میں پولیو وائرس کی معدوم قسم کے 7 کیسز کی تشخیص

ای او سی کوآرڈینیٹر ڈاکٹر رانا صفدر نے ڈان کو بتایا تھا کہ متعدد عوامل کی وجہ سے 2019 میں پولیو کیسز منظر عام پر آئے۔

انہوں نے بتایا تھا کہ ’دسمبر میں کامیاب ملک گیر انسداد پولیو مہم کے ذریعے پولیو کے خلاف جنگ کا نیا آغاز کیا جو جنوری سے اب تک پہلی کامیاب مہم ہے کیونکہ پشاور میں پیش آنے والے واقعے کی وجہ سے اپریل کی مہم متاثر ہوئی تھی جس میں کچھ لوگوں نے منفی پراپیگنڈہ کیا تھا کہ پولیو ویکسین سے اسکول کے بچے متاثر ہور ہے ہیں‘۔

ڈاکٹر رانا صفدر نے کہا تھا کہ ’فروری اور اپریل 2020 میں معمول کے ٹیکوں کی کوریج کو بہتر بنانے کی کوششوں کے ساتھ ملک گیر مہمات کی منصوبہ بندی کی گئی جو پولیو وائرس میں اضافے کی لہر کا رخ بدل سکتے ہیں‘۔

انہوں نے کہا تھا کہ ’موجودہ خطرات کو زیرِ غور رکھتے ہوئے نیشنل ایمرجنسی آپریشن سینٹر تمام والدین کو اپنے بچوں کو قریبی صحت مرکز سے مفت پولیو ویکسین سمیت تمام حفاظتی ٹیکے لگوانے پر اصرار کرتا ہے‘۔

علاوہ ازیں 30 دسمبر کو وزارت قومی صحت کے انسداد پولیو پروگرام نے دعویٰ کیا تھا کہ پولیو پروگرام گزشتہ 6 ماہ میں کئی تنازعات کا سامنا کرنے کے بعد آخر کار اپنی 'درست سمت پر گامزن' ہے۔

مزیدپڑھیں: ملک بھر میں پولیو کے کیسز کی تعداد 100 سے تجاوز کرگئی

انسداد پولیو پروگرام نے دعویٰ کیا تھا کہ دسمبر میں انسداد پولیو مہم کے دوران 100 فیصد سے زائد بچوں کو ویکسین پلائی گئی اور ملک بھر میں 3 کروڑ 96 لاکھ بچوں کے ہدف کے مقابلے میں 4 کروڑ 39 بچوں کو ویکسین پلائی گئی۔