پاکستان

پاکستان نے بھارت کے نئے آرمی چیف کا ایل او سی پار حملوں کا بیان مسترد کردیا

پاکستان کے عزم اور تیاری کے بارے میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے، بھارت بالاکوٹ مس ایڈونچر کا جواب یاد رکھے، دفتر خارجہ
| |

پاکستان نے بھارت کے نئے آرمی چیف لیفٹیننٹ جنرل منوج مکند ناراوین کے آزاد جموں و کشمیر میں لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کے پار 'پیشگی حملوں' کے 'غیر ذمہ دارانہ بیان' کو مسترد کردیا۔

دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ 'پاکستان کے عزم اور تیاری کے بارے میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے، کسی بھی جارحانہ اقدام پر سخت جواب دیا جائے گا، کسی کو بھی بالاکوٹ میں بھارتی مس ایڈوینچر کے نتیجے میں پاکستان کے موثر ردعمل کو یاد رکھنا چاہیے'۔

بیان میں کہا گیا کہ 'بھارت کی اشتعال انگیزیوں کے باوجود پاکستان خطے میں امن اور سلامتی کے لیے اپنا کردار ادا کرتا رہے گا'۔

خیال رہے کہ 2 روز قبل بھارت کے 28ویں آرمی چیف تعینات ہونے والے جنرل منوج مکند ناراوین کا کہنا تھا کہ 'نئی دہلی لائن آف کنٹرول کے پار حملوں کا اختیار رکھتا ہے'۔

فرسٹ پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق پریس ٹرسٹ آف انڈیا کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے بھارتی آرمی چیف نے اپنا عہدہ سنبھالنے کے چند گھنٹوں بعد ہی کہا تھا کہ 'اگر پاکستان دہشت گردی کی معاونت کو ختم نہیں کرتا تو دہشت گردی کے خطرے کے پیش نظر بھارت کو پاکستان پر حملے کا اختیار حاصل ہے اور ہماری اس نیت کا مظاہرہ بالاکوٹ آپریشن اور سرجیکل اسٹرائکس کی صورت میں سامنے آچکا ہے'۔

علاوہ ازیں ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق ان کا کہنا تھا کہ 'سرحد پار دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی تیار کرلی گئی ہے'۔

رپورٹ کے مطابق جنرل منوج مکند ناراوین اپنی تعیناتی سے قبل بھارت کے نائب آرمی چیف کے عہدے پر بھی تعینات رہے ہیں اور انہیں یہ عہدہ سابق آرمی چیف بپن روات کی ریٹائرمنٹ سے ایک روز قبل بھارت کے پہلے چیف آف ڈیفس اسٹاف تعینات ہونے کے بعد ملا تھا۔

واضح رہے کہ گزشتہ ماہ بپن روات نے کہا تھا کہ لائن آف کنٹرول پر صورتحال کبھی بھی کشیدہ ہوسکتی ہے جس کے رد عمل میں انٹر سروسز پبلک ریلیشن (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور نے ان کے بیان کو 'دنیا کی بھارت کے متنازع شہریت ترمیمی قانون پر بڑے پیمانے پر ہونے والے مظاہروں سے توجہ ہٹانے کی کوشش قرار دیا تھا۔

مقبوضہ کشمیر میں کریک ڈاؤن کے 150 روز

ادھر بھارتی آرمی چیف کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے دفتر خارجہ کی ترجمان کا کہنا تھا کہ پاکستان کشمیریوں کی اخلاقی سیاسی اور سفارتی حمایت جاری رکھے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ کشمیر میں غیر انسانی لاک ڈاؤن کو 150 دن ہوچکے ہیں، پاکستان بین الاقوامی سطح پر کشمیریوں کے حق میں اپنی آواز بلند کرتا رہے گا'۔

انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں صورتحال معمول پر لانے کے دعووں میں کوئی حقیقت نہیں، حکام اقوام متحدہ کی قومی سلامتی کی قراردادوں کے مطابق معاملہ حل کریں۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ 'سینئر کشمیری قیادت خاص طور پر چھوٹے بچوں کو رہا کیا جائے، 9 لاکھ سیکیورٹی اہلکاروں کو فوری طور پر مقبوضہ کشمیر سے نکالا جائے'۔

انہوں نے کہا کہ 'بھارت جھوٹے آپریشن کی بجائے اپنے اندرون مسائل پر قابو پائے اور اندرونی حالات اور قوم پرست دہشتگردی کی روک تھام پر توجہ دے'۔

پاکستانی کی سفارتی کوششوں نے ہندوتوا کے ایجنڈے کو بے نقاب کردیا

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ہفتہ وار پریس بریفنگ سے خطاب کرتے ہوئے ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گیوتیرس اور سلامتی کونسل کی صدر کیلی کرافٹ کو لکھے خطوط میں جس میں انہیں بھارتی فوج کی جانب سے لائن آف کنٹرول (ایل او سی ) کی خلاف ورزیوں میں اضافے کی وجہ سے پاکستان کو درپیش خطرات سے ’ تفصیلی طور پر‘ آگاہ کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’ ہم نے عالمی تنظیموں اور اپنے شراکت داروں کے ساتھ بھی اپنے خدشات اور تشویش سے آگاہ کیا ہے‘۔

عائشہ فاروقی نے کہا کہ پاکستان کی سفارتی کوششوں نے مذہبی اقلیتوں کے نام پر بھارتی حکومت کے ہندوتوا کو فروغ دینے سے متعلق ایجنڈے کو بے نقاب کردیا۔

ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ عالمی برداری اب بھارتی حکومت کی ہندوتوا پالیسیوں سے خطے کے امن اور سیکیورٹی کو درپیش خطرات سے آگاہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس حوالے او آئی سی کے وزرائے خارجہ کے خصوصی اجلاس سے متعلق بھی سوچا ہے جس کے لیے کام جاری ہے۔