جنگل میں صرف ’منگل‘ ہی کیوں؟ بدھ، جمعرات یا جمعہ کیوں نہیں؟

’جنگل میں منگل‘ عام محاورہ ہے، لیکن منگل ہی کیوں؟ بدھ، جمعرات یا جمعہ کیوں نہیں؟ بلکہ ہونا تو اتوار چاہیے کہ ہم مغرب کی تقلید میں اتوار کی چھٹی کرتے ہیں اور جہاں تک ممکن ہو تفریح کرتے ہیں خواہ 6 دن کام کرنے والے پورا دن سوکر گزار دیں۔
ہندوؤں میں تو لوگوں کا نام بھی منگل ہوتا ہے جیسے ’منگل پانڈے‘۔ مسلمانوں میں دنوں پر نام رکھنے کے لیے جمعہ کو ترجیح دی جاتی ہے مثلاً ’جمعہ خان‘۔ کوئی جمعرات کو پیدا ہوجائے تو اس کا نام ’جمعراتی‘ رکھ دیتے ہیں، باقی دنوں کو نظر انداز کردیتے ہیں۔
جنگل میں منگل کی وجہ جاننے کے لیے لغت سے رجوع کیا تو اس میں صرف اتنا ہے ’ویرانے میں رونق ہونا، ویرانے میں عیش و عشرت کا سامان مہیا ہونا‘۔ اس تعریف سے واضح نہیں کہ منگل کا جنگل سے کیا تعلق ہے۔ نوراللغات نے اس حوالے سے صبا کا شعر دے دیا
آیا اپنے پاس وہ ماہِ دو ہفتہ شہر سے
اے جنوں لے دن پھرے، جنگل میں منگل ہوگیا
شاعر صاحب کے تو دن پھر گئے لیکن معلوم نہیں ہوسکا کہ ماہِ دو ہفتہ (چودھویں کا چاند) کو کیا پریشانی تھی کہ شہر چھوڑ کر جنگل میں آگیا۔ منگل دراصل سنسکرت کا لفظ اور مذکر ہے۔ اس کا مطلب ہے خوشی، خوشی کے گیت، رونق، چہل پہل۔ اب بات واضح ہوئی کہ جنگل میں منگل کیا ہے۔ ویسے منگل ستارہ مریخ کو بھی کہتے ہیں۔ آج بھی جہاں جنگل قریب ہوں استطاعت رکھنے والے وہاں جاکر پکنک مناتے اور جنگل میں منگل کرتے ہیں۔
پنجاب کے کچھ جنگلات سیاسی سرگرمیوں کے لیے بھی مشہور ہیں، مثلاً چھانگا مانگا کا جنگل۔ محاورے کے بارے میں ڈاکٹر عشرت جہاں ہاشمی نے بھی روشنی ڈالی ہے کہ ’ہندوستان اب سے کچھ پہلے تک جنگلوں سے بھرا پڑا تھا۔ یہ جنگل طرح طرح کے تھے اور جنگل پر محاورے بھی کئی ہیں۔ جنگل کا تصور ویرانی کا تصور بھی ہے۔ اس لیے جب میلے ٹھیلے لگتے تھے اور طرح طرح کی دکانیں اور کھیل تماشہ (تماشے) جنگل میں ہوتے تھے تو اس کو جنگل میں منگل ہونا کہتے تھے۔ خانہ بدوش قبائل جنگلوں میں کچھ دن کے لیے آباد ہوجاتے تھے، تو بھی جنگل میں منگل ہوجاتا تھا‘۔ موصوفہ نے ’منگل‘ کی وضاحت نہیں کی۔
قدیم ہندوستان میں راجے، مہاراجے کسی سے ناراض ہوکر بھی بطور سزا جنگل بھجوا دیتے تھے۔ اسے بن باس کہا جاتا تھا جو عموماً 12 برس کا ہوتا تھا۔ اس کی بڑی مثال ہندوؤں کی مقدس شخصیت رام چندرجی ہیں جنہوں نے اپنی اہلیہ اور بھائی کے ساتھ بن باس کاٹا۔
یہ مضمون ابتدائی طور پر فرائیڈے اسپیشل میں شائع ہوا اور بہ اجازت یہاں شائع کیا گیا ہے۔
اطہر ہاشمی روزنامہ جسارت کے مدیرِ اعلیٰ ہیں۔ گزشتہ چار دہائیوں سے شعبۂ صحافت سے منسلک ہیں اور زبان و بیان پر گہری گرفت رکھتے ہیں۔