پاکستان

سال 2019: پاکستان ریلوے کے لیے بدترین ثابت، 100 سے زائد حادثات

پاکستان ریلویز نے اب تک مہلک و غیر مہلک حادثات کی تعداد جاری نہیں کی تاہم حکام کے مطابق یہ تعداد 100 سے زائد ہے، رپورٹ

لاہور: پاکستان ریلویز اور اس کے مسافروں کی بڑی تعداد کے لیے سال 2019 نہایت مشکل ترین گزرا اور پورے سال میں بڑی تعداد میں حادثات رونما ہوئے جن میں اکتوبر میں تیزگام ٹرین میں ہولناک آتشزدگی کا سانحہ بھی شامل ہے۔

ان واقعات سے محکمے کے کاموں سے نمٹنے کے لیے انتظامیہ کی مبینہ غلط فیصلہ سازی اور نااہلی سامنے آگئی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سرکاری ذرائع نے ریلوے کے آپریشنل امور کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ '2019 میں ہونے والے بڑے واقعات کو سامنے رکھا جائے تو ریلوے کے بدترین نظام کا اندازہ ہوجائے گا جس میں کئی مسافر بشمول ریلوے ملازمین جاں بحق، زخمی یا معذور ہوئے، جہاں مہلک یا غیر مہلک حادثات اور آپریشنل امور کے معاملے میں یہ سال افسوس ناک رہا وہیں پاکستان ریلویز کی اعلیٰ انتظامیہ محکمے کی کارکردگی بہتر ہونے کے بلند و بانگ دعوے کرتی رہی'۔

مزید پڑھیں: میٹر گیج ریلوے سسٹم: تاریخ، اہمیت، اور تباہی

تاہم پاکستان ریلویز نے اب تک مہلک و غیر مہلک حادثات اور ٹرین کے پٹڑیوں سے اترنے وغیرہ کے واقعات کی کُل تعداد کے حوالے سے سرکاری ڈیٹا جاری نہیں کیا تاہم ذرائع نے دعویٰ کیا کہ یہ تعداد 100 سے زائد ہے۔

اس کے علاوہ ایک اور سرکاری ذرائع نے دعویٰ کیا کہ '2019 میں 100 سے زائد ٹرین سے متعلق حادثات ہوئے جن میں چند مہلک تھے، اس کے علاوہ سال کے پہلے 5 ماہ میں ہی راستے میں انجن ناکارہ ہونے کے 111 واقعات پیش آئے'۔

واضح رہے کہ چھوٹے اور بڑے نوعیت کے 100 واقعات سمیت اہم حادثات درج ذیل ہیں:

یہ بھی پڑھیں: محکمہ ریلوے میں قرعہ اندازی سے کی گئیں 845 تعیناتیاں معطل

ذرائع کا کہنا تھا کہ تیز گام آتشزدگی سانحے میں ہی صرف 73 مسافر جاں بحق اور 100 سے زائد زخمی ہوئے تھے، اسی طرح اکبر ایکسپریس واقعے میں 21 افراد جاں بحق اور 85 زخمی ہوئے تھے۔

اس کے علاوہ حیدر آباد میں جناح ایکسپریس کے ساتھ پیش آنے والے حادثے میں 3 ڈرائیورز جاں بحق جبکہ چند مسافر زخمی بھی ہوئے تھے، علاوہ ازیں سرگودھا ایکسپریس کا ڈرائیور ٹرین کی ڈمپر ٹرک سے ٹکر کے بعد جاں بحق ہوگیا تھا اور ان کے علاوہ بھی متعدد حادثات میں مسفاروں کے جاں بحق ہونے کی اطلاعات آئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ بڑھتے ہوئے حادثات کی وجہ سے صرف پاکستان ریلوے کے آپریشنز ہی بری طرح متاثر نہیں ہوئے بلکہ مسافروں کی بڑی تعداد نے بھی اس کے استعمال کو ترک کردیا ہے۔

’شیخ رشید کی ملکی سیاست پر زیادہ توجہ‘

حکام نے اصل مسائل کو حل کرنے میں عدم دلچسپی کی نشاندہی کی اور کہا کہ 'سیاسی مفادات اور دکھاوے' کی پالیسیاں ٹرینوں کے پٹڑیوں سے اترنے اور دیگر حادثات کی وجہ بنیں جبکہ ٹرانسپورٹیشن کے اس 'سستے' ذریعے کو استعمال کرنے والے اس کی وجہ سے پریشانیوں کا سامنا کررہے ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ اپنی ترجیحات پر نظر ثانی کرنے کے باوجود وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے پاکستان ریلوے کی مسافر ٹرینوں کے آپریشنز کو گلی سڑی، پرانی برانچ لائنز پر چلانے کی مخالفت کرنے والے افسران کی نہیں سنی جبکہ نئی کوچز اور ویگنز کی خریداری میں تاخیر اور خراب سگنلز/ انٹر لاکنگ نظام کو ٹھیک بھی نہیں کیا گیا ہے۔

حکام کا کہنا تھا کہ 'شیخ رشید زیادہ تر زمینی حقائق کو نظر انداز کرتے ہیں اور اپنی نیوز کانفرنسز میں نئی ٹرینیں چلانے اور ریونیو بڑھانے کے بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں جبکہ وہ پریس کانفرنسز میں ملک کی سیاست پر زیادہ توجہ دیتے ہیں'۔

خراب کارکردگی کا تاثر مسترد

ڈان سے بات کرتے ہوئے پاکستان ریلویز کے چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) اعجاز بریرو نے گزشتہ سال خراب گزرنے کے تاثر کو مسترد کیا اور دعویٰ کیا کہ محکمے نے 2019 میں مسافروں اور مال بردار ٹرینوں کے آپریشن کو پھیلاتے ہوئے ریونیو اور مسافروں میں اضافے کی شکل میں بہت کچھ حاصل کیا ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ 'تیزگام حادثے سمیت چند مہلک حادثات کے علاوہ پاکستان ریلویز کے آپریشن پورے سال معمول کے مطابق رہے جبکہ ٹرین کا پٹڑی سے اتر جانا معمول کی بات ہے'۔

مزید پڑھیں: وزیر ریلوے نے تیز گام حادثے پر غلطی کا اعتراف کرلیا

اعجاز بریرو کا کہنا تھا کہ پاکستان ریلویز کے ٹرین آپریشن کو پھیلانا وقت کی ضرورت تھی کیونکہ محکمہ ملازمین، پینشنرز اور دیگر اخراجات کے بڑھنے کی وجہ سے ریونیو میں اضافے کا منتظر تھا۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ 'اپنے آپریشن میں اضافہ کرکے ہم نے 2019 میں 58 ارب روپے کا ریونیو ہدف عبور کرلیا ہے'۔

ساتھ ہی سی ای او ریلوے نے پرانے ریلوے ٹریک کے علاوہ انسانی غلطی کو بھی حادثات اور ٹرین کے پٹڑیوں سے اترنے کی وجہ قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ 'نیب انکوائریوں کے خوف سے افسران کام نہیں کر رہے تھے جس کی وجہ سے نئی کوچز اور ویگنز کے حاصل کرنے میں تاخیر ہوئی اور یہ معاملہ اب بھی تاخیر کا شکار ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ان کے علاوہ ہم نے اپنے زیادہ تر پرانی کوچز کی مرمت کی اور انہیں نئی ٹرینیں چلانے کے لیے استعمال کیا'۔

علاوہ ازیں وزیر ریلوے شیخ رشید کے بیرون ملک ہونے کی وجہ سے وہ اپنی رائے دینے کے لیے دستیاب نہیں تھے۔