چین کے اثرو رسوخ کو روکنے کیلئے تائیوان نے متنازع بل منظور کرلیا
تائیوان نے اپنی ریاست میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے خلاف متنازع بل منظور کرلیا۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق تائیوان کی جانب سے یہ اقدام ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب نئے صدر کے انتخاب میں محض دو ہفتوں سے بھی کم کا وقت ہے۔
تائیوان کے صدر سائی اِنگ وین کی حکمراں جماعت، کی جانب سے پیش کیا گیا 'انسداد دراندازی بل' اپوزیشن جماعت کومِنٹانگ (کے ایم ٹی) کی شدید مخالفت کے باوجود قانون کی حیثیت اختیار کر گیا۔
مذکورہ قانون کی بدولت غیر ملکی 'دشمن' پر مہم، لابنگ، سیاسی چندہ جمع کرنے، معاشرتی نظام میں خلل ڈالنے یا انتخابات سے متعلق جعلی خبریں پھیلانے جیسی سرگرمیوں پر مکمل پابندی عائد ہوگی۔
مزید پڑھیں: چین کا امریکا سے تائیوان کو ہتھیاروں کی فروخت بند کرنے کا مطالبہ
قانون کے مطابق خلاف ورزی کرنے والے کو زیادہ سے زیادہ 5 برس قید اور 3 لاکھ 32 ڈالر تک کا جرمانے کی سزا ہوسکتی ہے۔
تائیوان کی اپوزیشن جماعت کے ایم ٹی نے بل پر رائے دہی سے گریز کیا اور پارلیمنٹ میں دھرنے کے دوران 'شیطانی قانون کی مذمت' پر مبنی پلے کارڈ اٹھائے۔
انہوں نے رائے دہندگان پر زور دیا کہ وہ 11 جنوری کو ہونے والے انتخابات میں سائی کی ڈیموکریٹک پروگریسو پارٹی (ڈی پی پی) کو شکست دیں۔
پارلیمنٹ کے باہر چین کے حامی کارکنوں کے درجنوں کارکنوں نے تائیوان کے صدر اور ان کی پارٹی ڈی پی پی کے خلاف دہشت گردی پر مبنی عنوانات سے متعلق بینرز لہرائے۔
یہ بھی پڑھیں: امریکا چین تجارتی جنگ، ‘بیجنگ میں مذاکرات کا پہلا دور مثبت رہا‘
تائیوان کے صدر نے ووٹ کو اپنے ملک کی آزادی اور جمہوریت کی جنگ قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ یہ بل 'تائیوان کے معاشرے میں چین کی طرف سے ہر طرح کی دراندازی کے خدشات' کے جواب میں ہے۔
ڈی پی پی کے قانون ساز وانگ ٹنگ یو نے بل کی منظوری کے بعد کہا کہ 'ہم نے چین کو روکنے کے لیے یہ بل منظور کیا جو تائیوان کا واحد خطرہ ہے'۔
انہوں نے کہا کہ (مذکورہ قانون) چین کو اپنی طاقت کے ذریعے تائیوان کی جمہوری سرگرمیوں میں آلودگی پھیلانے، ہیر پھیر کرنے یا تخریب کاری سے روکتا ہے۔
واضح رہے کہ رواں برس جولائی میں چین نے امریکا سے تائیوان کو 2 ارب 20 کروڑ ڈالر مالیت کے ہتھیاروں کی فروخت فوری طور پر منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
مزید پڑھیں: ہتھیاروں کی مجوزہ فروخت سے تائیوان کے جنگی ٹینکوں کی تعداد میں اضافہ
چینی وزارت خارجہ کے ترجمان گینگ شوانگ نے پریس بریفنگ کے دوران کہا تھا کہ چین نے سفارتی چینلز کے ذریعے باقاعدہ شکایات درج کی ہیں جن میں امریکی اقدام پر عدم اطمینان اور مخالفت کا اظہار کیا۔
خیال رہے کہ 1949 میں خانہ جنگی کے خاتمے کے بعد تائیوان میں چین سے علیحدہ حکومت قائم ہوئی لیکن بیجنگ اسے اپنا علاقہ تصور کرتا ہے، جسے اگر ضروری ہوا تو طاقت کے ذریعے واپس حاصل کیا جائے گا۔
چین نے 2016 میں تائیوان کی صدر سائی انگ وین کے انتخاب کے بعد تائپے پر سفارتی اور فوجی دباؤ میں اضافہ کیا، صدر کا تعلق ڈیموکریٹک پروگریسو پارٹی سے ہے جو تائیوان کو ’ایک چین‘ کا حصہ ماننے سے انکار کرتی ہے۔