سال 2019: بچوں کو سہیل ایاز جیسے درندوں سے بچانے کیلئے عملی اقدامات کب ہوں گے؟
'میرا نام سہیل ایاز ہے ... اور میں پورنوگرافی مواد برآمد ہونے پر برطانیہ اور اٹلی میں سزا کاٹ چکا ہوں جس کے بعد انہوں نے مجھے پاکستان ڈی پورٹ کردیا تھا اور میں یہاں خیبرپختونخوا حکومت کے ساتھ مشیر کی حیثیت سے کام کررہا تھا '۔
یہ انکشافات صوبہ خیبر پختونخوا پر حکومت کرنے والی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے مشیر اور چارٹرڈ اکاؤٹنٹ سہیل ایاز کے ہیں جو انہوں نے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم کے ڈپارٹمنٹ کے حکام کے سامنے گرفتاری کے بعد تفتیش کے دوران کیے تھے۔
ملزم نے بتایا تھا کہ 'میرا نام سہیل ایاز ہے اور میں بحریہ ٹاؤن کے عوامی ولاز ٹو فیز ایٹ کا رہائشی ہوں، میں ہم جنس پرست ہوں، مجھے لڑکوں میں دلچسپی ہے جبکہ متعدد لڑکوں کے ساتھ سیکس کرچکا ہوں، اس کے علاوہ برطانیہ میں مجھے پورنوگرافی مواد برآمد ہونے پر مجرم قرار دیا گیا تھا'۔
اس تفتیش کی منظر عام پر آنے والی ویڈیو میں سنا جاسکتا ہے کہ ملزم کا مزید کہنا تھا کہ 'برطانیہ میں بھی سزا کاٹی ہے اس کے علاوہ اٹلی میں بھی سزا کاٹ چکا ہوں جس کے بعد مجھے پاکستان ڈی پورٹ کردیا گیا تھا'۔
تفتیش کے دوران ملزم سہیل ایاز نے ایف آئی اے حکام کے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ ‘برطانیہ میں مجھ سے چائلڈ پورنوگرافی کا مواد برآمد ہوا تھا جس کی وجہ سے مجھے 4 سال قید کی سزا ہوئی تاہم قانون کے مطابق مجھے 19 ماہ کی سزا مکمل کرنے کے بعد برطانوی حکام نے اطالوی پولیس کے حوالے کردیا تھا’۔
اٹلی میں کیس کے حوالے سے 46 سالہ سہیل ایاز نے بتایا تھا کہ ان کا کیس 8 ماہ تک ٹرائل میں ہی تھا جس کے بعد ملزم کو اٹلی سے پاکستان ڈی پورٹ کردیا گیا تھا۔
خیبر پختونخوا حکومت کے مشیر اور چارٹرڈ اکاؤٹنٹ سہیل ایاز کی جانب سے گرفتاری کے بعد کیے جانے والے مذکورہ انکشافات نے جہاں ایک جانب سائبر سیکیورٹی کے حوالے سے کام کرنے والے اداروں کو ہلا کر رکھ دیا وہیں ملک کی سول سوسائٹی اور عوام میں بھی تشویش کی لہر دوڑ گئی۔
بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات میں ملوث خیبرپختونخوا حکومت کے مشیر سہیل ایاز کے حوالے سے بات کرنے سے پہلے ہم آپ کو ماضی کے جھروکوں میں لیے چلتے ہیں جہاں 1999 میں بھی ایک ایسا کیس سامنے آیا تھا جس کی وجہ سے پاکستانیوں اور خاص طور پر والدین کو شدید ذہنی اذیت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
وائس آف امریکا کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ صدی کی آخری دہائی کے اختتام پر سال 1999 میں لاہور میں ایک پولیس عہدیدار کے دفتر میں جاوید اقبال نامی ایک شخص نے آکر بتایا تھا کہ وہ متعدد بچوں کو زیادتی کے بعد قتل کرچکا ہے، اس موقع پر پولیس حکام کو اس معاملے کو سنجیدگی کے ساتھ تفتیش کرنا چاہیے تھی لیکن ہوا اس کے برعکس! اور پولیس نے ہوشربا انکشافات کرنے والے شخص کو ذہنی مریض قرار دیتے ہوئے دفتر سے جانے کو کہا۔
بعد ازاں مذکورہ شخص نے روزنامہ جنگ لاہور کو طویل خط بھیجا جس کے ساتھ اس نے بچوں کے زیادتی کے بعد قتل کا اعتراف کرتے ہوئے 74 بچوں کی تصاویر کو بھی اس کا حصہ بنایا۔
لاہور جنگ کے ایڈیٹر نے وہ تحریر کرائم رپورٹرز کے حوالے کر کے کہا کہ اس آدمی کا پتہ لگائیں اور سچائی جاننے کی کوشش کریں جس پر رپورٹرز پولیس کو آگاہ کیے بغیر ہی خود سے تحقیقات کرنے کے لیے خط میں درج متعلقہ پتے پر پہنچے، جس مکان کا پتہ بتایا گیا تھا اس کے دروازے پر تالا لگا دیکھ کر انہوں نے دیوار پھلانگی اور مکان میں پہنچ گئے۔
مکان میں پہنچنے کے بعد ان کے سامنے وہ سب تھا جس سے خط میں تحریر کیے گئے انکشافات پر یقین کیا جاسکتا تھا، یعنی بچوں کی تصاویر، کپڑے اور جوتے جبکہ تیزاب کا ڈرم بھی موجود تھا۔
اس کے علاوہ دیوار پر خون کے چھینٹے تھے اور وہ زنجیریں تھیں جن سے وہ بچوں کا گلا دبا کر انہیں قتل کردیا کرتا تھا، جس کے بعد نومبر 1999 کے آخری ہفتے میں 100 بچوں کے قاتل جاوید اقبال مغل کی لرزہ خیز داستان اخبار میں چھپی تو پورے ملک میں تہلکہ مچ گیا۔
مذکورہ خبر میڈیا میں شہ سرخیوں کی زینت بننے کے بعد پولیس ملزم جاوید اقبال کی تلاش سرگرم ہوگئی، اسی دوران لاپتہ بچوں کے والدین راوی روڈ تھانے آتے تھے اور اپنے بچوں کی تصویر پہنچاتے جبکہ اخبارات روزانہ شہ سرخیاں لگاتے، جس نے حکومت اور پولیس پر ملزم کی گرفتاری کے لیے دباؤ بڑھا دیا۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ واقعے کے ایک ماہ بعد 30 دسمبر کو ملزم جاوید اقبال جنگ کے کرائم رپورٹر رئیس انصاری سے ملنے خود ان کے دفتر میں پہنچ گیا، جہاں رپورٹر نے ملزم کا طویل انٹرویو کیا اور ساتھ ہی پولیس کو جاوید اقبال کی موجودگی کا بتایا گیا جنہوں نے وہاں پہنچ کر اسے گرفتار کرلیا۔
ملزم جاوید اقبال نے جنگ کو انٹرویو کے دوران بچوں کو جنسی زیادتی کے بعد قتل کرنے کا اعتراف کرتے ہوئے بتایا تھا کہ وہ درباروں اور ایسے ہی دیگر مقامات پر گھر سے بھاگے ہوئے بچوں سے دوستی کرتا تھا، انہیں بہلا پھسلا کر اپنے مکان میں لاتا اور ان کے ساتھ زیادتی کے بعد گلا گھونٹ کر قتل کردیتا تھا، بعد ازاں ثبوت مٹانے کے لیے وہ بچوں کے اعضا کاٹ کر انہیں تیزاب کے ڈرم میں ڈال کر گلا دیتا تھا۔
ملزم نے یہ اعتراف بھی کیا تھا کہ زیادتی کے بعد قتل کیے جانے والے بچوں کی عمریں 6 سے 16 سال کے درمیان تھیں۔
جس وقت پولیس نے ملزم کو گرفتار کیا تھا اس موقع پر اس کی تلاشی بھی لی گئی تھی اور اس کے پاس سے زہر ملا جو اس نے خودکشی کے لیے اپنے پاس رکھا ہوا تھا۔
پولیس نے ملزم جاوید اقبال کو عدالت میں پیش کیا اور فروری 2000 میں سماعت شروع ہوئی، اور اس دوران جاوید اقبال نے متعدد مرتبہ اپنے بیانات تبدیل کیے، کبھی کہا کہ تمام بچے زندہ ہیں، کبھی کہا کہ اس نے اپنے ساتھ ناانصافیوں کا بدلہ لیا، بعد ازاں ملزم پر فرد جرم عائد ہوئی تو اس نے الزامات کا اعتراف کرلیا اور آخر کار 16 مارچ 2000 کو عدالت نے اسے 100 مرتبہ سزائے موت کا حکم سنایا۔
ٹرائل کورٹ سے سزا ہونے کے بعد جاوید اقبال نے اس کے خلاف اپیل دائر کی لیکن فیصلے کی نوبت نہیں آئی اور گرفتاری کے دو سال بعد 9 اکتوبر 2001 کو جاوید اقبال لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں مردہ پایا گیا، پولیس کے مطابق مجرم نے خودکشی کی تھی۔
بعد ازاں رواں سال اپریل میں یہ رپورٹ سامنے آئی تھی کہ اداکار شمعون عباسی اس وقت ایک ویب سیریز پر کام کررہے ہیں جو سلسلہ وار قاتل جاوید اقبال مغل کی کہانی سے متاثر ہوکر بنائی گئی ہے، اس ویب سیریز کا نام ’جاوید اقبال اینڈ دی ہنڈریڈ اسمائلز‘ (javed iqbal and the hundred smiles) رکھا گیا۔
مجرم جاوید اقبال کی جیل میں پراسرار موت کے طویل عرصے بعد پنجاب کے علاقے قصور میں اس سے ملتا جلتا ایسا ہی ایک اور واقعہ سامنے آیا۔
2015 میں یہ رپورٹس منظر عام پر آئیں تھیں کہ قصور سے پانچ کلو میٹر دور قائم حسین خان والا گاؤں کے 280 بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا جبکہ اس گھناؤنے جرم کے دوران ان کی ویڈیو بھی بنائی گئی جبکہ ان بچوں کی عمریں 14 سال سے کم بتائی گئی تھیں۔
رپورٹس کے مطابق ان بچوں کے خاندانوں کو ویڈیو دکھا کر بلیک میل بھی کیا جاتا تھا اور ان کے بچوں کی ویڈیو منظر عام پر نہ لانے کیلئے لاکھوں روپے بھتہ طلب کیا جاتا تھا۔
بعد ازاں پولیس کی جانب سے گرفتار کیے جانے والے ایک ملزم نے بتایا تھا کہ یہ جرائم اکیڈمی کے کلاس روم میں اس کی موجودگی میں ہوئے تھے۔
واضح رہے کہ قصور میں بچوں کے ساتھ ہونے والی بد فعلی، جنسی زیادتی اور اس کی فلم بندی کے واقعات کے منظر عام پر آنے کے بعد سات متاثرہ بچوں کے عزیزوں کی جانب سے ایف آئی آر درج کروائی گئی تھی۔
قصور اسکینڈل کے حوالے سے 19 مقدمات انسداد دہشت گردی کی عدالت میں منتقل کیے گئے تھے جن میں 4 مقدمات کو انسداد دہشت گردی کی عدالت سے دیگر عدالتوں میں منتقل کردیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ 18 اپریل 2016 کو انسداد دہشت گردی کی عدالت نے قصور میں بچوں کے ساتھ بدفعلی اور زیادتی میں ملوث دو ملزمان کو عمر قید کی سزا سنائی تھی، عدالت نے مجرم حسیم عامر اور فیضان مجید کو 25، 25 سال قید کی سزا سنائی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ انہیں 3 لاکھ روپے فی کس جرمانے کی بھی سزا سنائی گئی تھی۔
بعدِازاں 13 فروری 2018 کو انسداد دہشت گردی عدالت نے قصور ویڈیو اسکینڈل کیس میں تین مجرموں کو عمر قید اور تین تین لاکھ روپے جرمانے کی سزائیں سنائی تھی۔
24 فروری 2018 کو لاہور کی انسدادِ دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) نے قصور ویڈیو اسکینڈل کے 12 ملزمان کو بری کرنے کا حکم دیا تھا جبکہ 15 مارچ 2018 کو لاہور کی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے قصور ویڈیو اسکینڈل کے ایک اور کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے مجرم حسیم عامر کو عمر قید کی سزا سنادی تھی۔
اسی طرح لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے قصور ویڈیو اسکینڈل کے ایک اور کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے 3 ملزمان کو بری کرنے کا حکم دیا تھا۔
23 جولائی 2017 کو ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ پنجاب میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات میں اچانک ایک مرتبہ پھر اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور گذشتہ 6 ماہ کے دوران صرف قصور شہر میں 5 سے 10 سال کی عمر کے 10 کم سن بچوں کو ریپ کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کیا گیا تھا۔
قصور کی رہائشی 6 سالہ زینب 4 جنوری 2018 کو لاپتہ ہوئی تھی اور 9 جنوری کو ایک کچرا کنڈی سے ان کی لاش ملی جس کے بعد ملک بھر میں شدید احتجاج اور غم و غصے کا اظہار کیا گیا تھا۔
اس وقت کے چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے واقعے کا ازخود نوٹس لیا تھا، اس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے بھی واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے پولیس کو ملزم کی فوری گرفتاری کی ہدایات جاری کی تھیں۔
پولیس نے 13 جنوری کو ڈی این اے کے ذریعے ملزم کی نشاندہی کی اور ملزم کو گرفتار کیا جس کے بعد 23 جنوری کو وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے لاہور میں زینب کے والد محمد امین کی موجودگی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ملزم عمران علی کی گرفتاری کا باقاعدہ اعلان کیا تھا۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ زینب زیادتی اور قتل کے واقعے کے بعد ملک کے معروف صحافی ڈاکٹر شاہد مسعود نے ایک پروگرام میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ ملزم عمران کا تعلق ایک ایسے گروہ کے ساتھ ہے جو بچوں کے ساتھ زیادتی کے علاوہ چائلڈ پورنو گرافی کے حوالے سے کام کررہا ہے تاہم وہ عدالت میں طلب کیے جانے پر اس کے ثبوت فراہم کرنے سے قاصر تھے۔ (اس کی مزید تفصیلات رپورٹ میں نیچے فراہم کردی گئی ہیں)
6 فروری 2019 کو قصور میں ریپ کے بعد قتل کی جانے والی زینب کے کیس میں پولیس نے اہم پیش رفت کرتے ہوئے مرکزی ملزم عمران کو مزید 7 بچیوں کے ریپ اور قتل کیسز میں نامزد کیا تھا۔
بعد ازاں 9 فروری کو عدالت نے گرفتار ملزم عمران علی کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل منتقل کردیا تھا۔
ٹرائل کے دوران ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نے عدالت کو بتایا تھا کہ ملزم عمران کو زینب قتل کیس میں ڈی این اے میچ ہونے کے بعد گرفتار کیا گیا جس کے بعد ملزم عمران کا جسمانی ریمانڈ دیا گیا تھا۔
6 سالہ بچی زینب کے کیس میں لاہور کی انسدادِ دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) نے 17 فروری 2018 کو عمران علی پر جرم ثابت ہونے پر انہیں 4 مرتبہ سزائے موت، تاحیات اور 7 سالہ قید کے علاوہ 41 لاکھ روپے جرمانے کا فیصلہ سنایا تھا۔
زینب سمیت دیگر بچیوں کے قاتل عمران علی کو مجموعی طور پر 21 مرتبہ سزائے موت، عمر قید اور جرمانے کی سزائیں سنائی گئی تھیں۔
عدالت نے دوسرے مقدمے کائنات بتول کیس میں مجرم کو 3 بار عمر قید اور 23 سال قید کی سزا سنائی تھی، ساتھ ہی عدالت نے مجرم کو 25 لاکھ جرمانہ اور 20 لاکھ 55 ہزار دیت ادا کرنے کا بھی حکم دیا تھا۔
اس سے قبل عدالت نے 5 سالہ تہمینہ، 6 سالہ ایمان فاطمہ، 6 سالہ عاصمہ، عائشہ آصف، لائبہ اور 7 سالہ نور فاطمہ کے ساتھ زیادتی اور قتل کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے مجرم کو 5 مقدمات میں 21 مرتبہ سزائے موت کا فیصلہ سنایا تھا۔
مجرم عمران علی نے انسداد دہشت گردی عدالت کی جانب سے دی گئی سزا کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی تھی لیکن لاہور ہائی کورٹ نے مجرم عمران کے خلاف انسداد دہشت گردی عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھا تھا۔
بعد ازاں مجرم عمران نے ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا اور عدالت عظمیٰ سے بھی مجرم عمران علی کے خلاف انسداد دہشت گردی عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھا گیا اور 17 اکتوبر 2018 کو اس سزا پر عمل درآمد کر دیا گیا۔
لاہور میں مجرم عمران علی کو تختہ دار پر لٹکائے جانے کے بعد زینب کے والد محمد امین انصاری نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ آج انصاف کے تقاضے پورے ہوئے تاہم سرعام پھانسی دی جاتی تو مجرم عمران عبرت کا نشان بن جاتا۔
تاہم جاوید اقبال، قصور ویڈیو اسکینڈل اور زینب زیادتی اور قتل کیس جیسے واقعات سے بھی ہمارے مقتدر حلقوں نے کچھ نہ سیکھا اور نہ ہی ان واقعات کے بعد حکومت بچوں کو ایسے جنسی درندوں سے بچانے کے لیے کوئی سنجیدہ نوعیت کے اقدامات اٹھاسکی۔
ایسے میں بچوں سے زیادتی اور ان کے قتل کا ایک اور افسوس ناک واقعہ رونما ہوا اور قصور ہی کے علاقے چونیاں سے 3 بچوں کی لاشیں برآمد ہوئیں۔
17 ستمبر 2019 کو صوبہ پنجاب کے شہر قصور سے لاپتہ ہونے والے 3 بچوں کی لاشیں تحصیل چونیاں کے انڈسٹریل اسٹیٹ کے علاقے سے برآمد ہوئی تھیں، جس پر وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے نوٹس لیتے ہوئے آئی جی پنجاب سے رپورٹ طلب کی تھی۔
ابتدائی طور پر مقتول بچوں کے حوالے سے بتایا گیا تھا کہ دو بچوں کی باقیات اور ایک بچے کی لاش چونیاں انڈسٹریل اسٹیٹ کے علاقے سے ملی اور ساتھ ہی خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ بچوں کو مبینہ طور پر زیادتی کے بعد قتل کر کے ان کی لاشیں پھینکی گئیں۔
پولیس نے لاشیں تحویل میں لے کر شواہد اکٹھے کیے تھے اور واقعے کی تحقیقات شروع کردی تھی۔
پولیس نے واقعے کے حوالے سے بتایا تھا کہ دو بچے بالترتیب 2 اگست اور 8 اگست کو غائب ہوئے تھے اور ان کی ایف آئی آر درج کر کے معاملے کی تفتیش شروع کی گئی تھی جبکہ ایک بچہ 16 ستمبر کو لاپتہ ہوا تھا جس کی لاش بعد ازاں 17 ستمبر کو ملی۔
واقعے کے دوسرے ہی روز قصور میں 3 بچوں کے قتل پر شہریوں نے متعلقہ پولیس اسٹیشن کے سامنے احتجاج کیا تھا اور ملزمان کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کیا گیا تھا، 20 ستمبر 2019 کو یہ رپورٹ سامنے آئی تھی کہ واقعے کی تحقیقات کے لیے پولیس نے قصور شہر کے تمام افراد کا ڈی این اے ٹیسٹ کرانے کا فیصلہ کیا۔
21 ستمبر کو متاثرہ بچوں کے اہلخانہ سے تعزیت کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے قصور کی تحصیل چونیاں میں 3 بچوں کے قاتل کے سر کی قیمت 50 لاکھ مقرر کی تھی۔
یکم اکتوبر 2019 کو وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ سانحہ چونیاں میں بچوں کے ساتھ درندگی کرنے والے ملزم کی شناخت سہیل شہزاد کے نام سے ہوئی جسے گرفتار کر لیا۔
ان کا کہنا تھا کہ سانحہ چونیاں میں بچوں کے ساتھ زیادتی اور قتل کرنے والے ملزم سہیل شہزاد کا ڈی این اے بچوں کے کپڑوں سے ملنے والے ڈی این اے سے میچ کر گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ 'واقعے کی تحقیقات میں ایک ہزار 649 ریکارڈ یافتہ ملزمان کی جیوفینسنگ کی گئی اور ایک ہزار 543 افراد کے ڈی این اے ٹیسٹ کیے گئے جس سے معلوم ہوا کہ بچوں کے ساتھ زیادتی اور انہیں قتل کرنے والا سیریل کلر یہی ہے'۔
وزیراعلیٰ نے مزید بتایا تھا کہ '27 سالہ ملزم رانا ٹاؤن کا رہائشی اور لاہور میں تندور پر روٹیاں لگاتا تھا، جون، اگست اور ستمبر میں بچوں کے ساتھ زیادتی ہوئی اور انہیں قتل کیا گیا جبکہ ملزم کو رحیم یار خان سے گرفتار کیا گیا'۔
دوسرے ہی روز لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے پنجاب کے علاقے چونیاں میں 4 بچوں کے قتل کے ملزم کو تفتیش کے لیے 15 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا تھا۔
بعد ازاں 2 دسمبر 2019 کو بچوں کو زیادتی کے بعد قتل کے واقعات پر مقدمات کی سماعت لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں شروع ہوئی تھی جبکہ ملزم سہیل شہزاد پر فرد جرم عائد کیے جانے سے متعلق بتایا گیا تھا کہ 9 دسمبر کو عائد کردی جائے گی۔
17 دسمبر 2019 کو لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے چونیاں میں بچوں سے زیادتی کے بعد انہیں قتل کرنے کے الزام میں گرفتار ملزم سہیل شہزاد کے خلاف فیصلہ سناتے ہوئے تین دفعہ سزائے موت دینے کا حکم دیا تھا۔
یہ وہ بڑے واقعات ہیں جو منظر عام پر آئے اور انہوں نے شہریوں اور سوسائٹی کی نا صرف تشویش میں اضافہ کیا بلکہ معاشرے میں ہونے والے گھناؤنے جرم سے بھی پردہ ہٹایا، ان کیسز کے سامنے آنے کے بعد جہاں حکومت سے ملوث ملزمان کے خلاف سخت سے سخت کارروائی عمل میں لانے کا مطالبہ کیا جاتا رہا وہیں حکومت کے نمائندوں کی جانب سے شہریوں کو یہ باور کرایا جاتا رہا کہ اسے واقعات کی روک تھام کے لیے سخت سے سخت قانون سازی کی جائے گی لیکن ان سب کے باوجود سال 2019 میں ایک نیا واقعہ سامنے آیا۔
یہ واقعہ تھا خیبرپختونخوا کے مشیر سہیل ایاز کی گرفتاری کا، رپورٹ کے ابتدا میں ملزم کا مختصر ذکر کیا گیا ہے تاہم آپ کو اس حوالے سے مزید تفصیلات سے آگاہ کررہے ہیں کہ نا صرف ملزم خود بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں ملوث رہا بلکہ وہ ان سے زیادتی کے دوران بنائی گئی تصاویر اور ویڈیوز انٹرنیٹ کے ایک ایسے مقام پر جہاں ہر کسی کو رسائی حاصل کرنا آسان نہیں یعنی 'ڈارک ویب' تک پہنچاتا تھا۔
سہیل ایاز کی گرفتاری کیسے ہوئی؟
12 نومبر 2019 کو راولپنڈی پولیس نے بچوں سے بدفعلی کر کے ان کی ویڈیو بنانے کے الزام میں سہیل ایاز نامی شخص کو گرفتار کیا تھا، اس حوالے سے پولیس افسر فیصل رانا نے ڈان کو بتایا تھا کہ روات پولیس اسٹیشن میں ایک 13 سالہ لڑکے کی ماں کی شکایت پر مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
سی پی او کے مطابق شکایت کنندہ کا کہنا تھا کہ ان کا بیٹا قہوہ فروخت کرتا ہے جسے ملزم زبردستی اپنی گاڑی میں بحریہ ٹاؤن راولپنڈی میں موجود ایک مکان میں لے گیا اور اسے منشیات دے کر 4 روز تک ریپ کرتا رہا۔
درج کیے گئے مقدمے کے مطابق ملزم نے لڑکے کے ریپ کی ویڈیو بھی بنائی اور اس واقعے کے بارے میں کسی کو بتانے کی صورت میں ویڈیو جاری کرنے کی دھمکی بھی دی۔
ملزم کے خلاف درج مقدمے میں اغوا، زہر دینے، کسی کو نقصان پہنچانے، غلام بنانے اور غیر فطری عمل کی دفعات لگائی گئیں۔
اس حوالے سے رانا فیصل کا مزید کہنا تھا کہ مذکورہ ملزم انٹرنیشنل ڈارک ویب کا سرغنہ ہے اور اس نے پاکستان میں 30 بچوں کو ریپ کرنے کا اعتراف کیا ہے، پولیس افسر کا مزید کہنا تھا کہ ملزم سہیل ایاز بچوں کو بدفعلی کا نشانہ بنانے کے جرم میں برطانیہ میں جیل کی سزا بھگت چکا ہے جہاں سے اسے ڈی پورٹ کردیا گیا تھا جبکہ ملزم کے خلاف اٹلی میں بھی بچوں سے بدفعلی کا مقدمہ چلایا گیا تھا جس کے بعد اسے وہاں سے بھی ڈی پورٹ کردیا گیا تھا۔
بعد ازاں سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) صدر رائے مظہر نے بتایا کہ ملزم سہیل ایاز اسلام آباد کے علاقے نیلور کا رہائشی ہے جس کی 9 سال قبل شادی ختم ہوگئی تھی اور اس کے اہلخانہ بھی اس سے اظہار لاتعلقی کر چکے ہیں، انہوں نے مزید بتایا تھا کہ ملزم چارٹرڈ اکاؤٹننٹ ہے اور انتہائی ذہین اور ڈارک ویب کو استعمال کرنے کا ماہر ہے۔
مزید پڑھیں: اگر ’سہیل ایاز‘ کل اسکول کھول لے تو؟
ان کا کہنا تھا کہ ملزم خیبرپختونخوا کے سول سیکرٹریٹ پلاننگ ڈیپارٹمنٹ کو کنسلٹینسی دے رہا تھا اور سرکار سے ماہانہ 3 لاکھ روپے تنخواہ بھی لے رہا ہے اس کے علاوہ ملزم برطانیہ میں بین الاقوامی شہرت کے حامل فلاحی ادارے میں بھی ملازمت کرچکا ہے۔
دوسرے ہی روز راولپنڈی پولیس نے بچوں سے بدفعلی کر کے ان کی ویڈیو بنانے والے ملزم سہیل ایاز کو عدالت میں پیش کرکے ملزم کا جسمانی ریمانڈ حاصل کرلیا تھا۔
اعترافی بیان دباؤ کے تحت دلوایا گیا، والد ملزم
ملزم سہیل ایاز کے والد ایاز نے بتایا تھا کہ پولیس نے ان کے بیٹے پر بے بنیاد الزامات لگائے ہیں جبکہ ملزم کے اہلخانہ کا اس سے اظہار لاتعلقی کے پولیس کے دعوے کی نفی کرتے ہوئے ملزم کے والد کا کہنا تھا کہ 'میں نے اپنے بیٹے کو عاق نہیں کیا ہے، جو ایف آئی آر دی گئی وہ جھوٹی ہے'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'سہیل ایاز نے اعترافی بیان دباؤ کے تحت دیا ہے، اس کے علاوہ بیرون ملک جو کیسز سہیل ایاز پر بنے وہ معمولی نوعیت کے تھے'۔
ملازمت سے فارغ
اسی روز خیبرپختونخوا حکومت نے ملزم سہیل ایاز کو سیکریٹریٹ پلاننگ ڈپارٹمنٹ میں بطور کنسلٹنسی کے عہدے سے برطرف کردیا تھا۔
یہاں یہ بات واضح رہے کہ سہیل ایاز 2017 سے کے پی حکومت کے ساتھ عالمی بینک کے ترقیاتی منصوبے میں بطور کنسلٹنٹ خدمات انجام دے رہا تھے۔
ملزم کی نشاندہی پر ایک اور بچہ برآمد
15 نومبر 2019 کو راولپنڈی پولیس نے انٹرنیشنل ڈارک ویب کے ملزم سہیل ایاز کی نشاندہی پر 12 سالہ بچے کو برآمد کیا تھا، پولیس افسر فیصل رانا نے تصدیق کی تھی کہ سہیل ایاز کے ہاتھوں اغوا ہونے والے 12 سالہ عدیل خان کو برآمد جبکہ ایک ملزم خرم کالا کو گرفتار کرلیا گیا۔
پولیس افسر کے مطابق انٹرنیشنل ڈارک ویب کے ملزم سہیل ایاز نے بچے کو ’آئس‘ پلا کر بدفعلی کی، ان کا کہنا تھا کہ ابتدائی تفتیش کے مطابق سہیل ایاز نے بچے کو 2 ماہ تک اپنے پاس رکھا تھا۔
بیرون ملک سزائیں
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی اردو کی رپورٹ کے مطابق سہیل ایاز کو 2009 میں ایک برطانوی عدالت نے ایک 14 سالہ بچے کے ریپ کے اعتراف کے بعد چار سال قید کی سزا سنائی تھی، اس کے علاوہ ملزم نے عدالت میں اس بچے کی تصاویر تقسیم کرنے اور 397 دیگر غیر اخلاقی تصاویر اپنے پاس موجود ہونے کا بھی اعتراف کیا تھا۔
یاد رہے کہ وہ بچوں کی فلاح کے لیے کام کرنے والی برطانوی تنظیم ’سیو دی چلڈرن‘ کے سابق ملازم بھی ہیں جبکہ سہیل ایاز کے تعلقات رومانیہ کے ایک ایسے گروہ سے بھی ہیں جو بچوں سے زیادتی میں ملوث پائے گئے تھے۔
سنہ 2008 میں برطانیہ میں ورک ویزا کے ذریعے داخل ہونے والے سہیل ایاز کو فروری 2009 میں اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب اٹلی کے شہر روم کی پولیس نے ایک بچوں سے زیادتی کرنے والے ایک اطالوی شخص کے خلاف تحقیقات شروع کی تھیں۔
پولیس کو معلوم ہوا تھا کہ سہیل ایاز نے اطالوی ملزم کو 15 رومانیئن بچوں کی تفصیلات فراہم کی تھیں، سہیل مبینہ طور پر بچوں سے زیادتی کرنے والے ایک سوئیڈش شخص کے مڈل مین تھے جن کا کہنا تھا کہ وہ زیادتی کرنے کے لیے رومانیئن بچے فراہم کر سکتے ہیں۔
اطالوی پولیس نے برطانوی پولیس کو خبردار کیا تھا جس کے بعد ان کے خلاف برطانیہ میں تحقیقات شروع ہوئیں، جس کے بعد برطانوی پولیس نے کارروائی کی اور سہیل ایاز کے فلیٹ سے 2000 سے زائد غیر اخلاقی تصاویر اور ویڈیوز برآمد کی گئیں، جن میں نہایت کم عمر بچوں اور زیادتی کا نشانہ بنائے گئے بچوں کی تصاویر بھی شامل تھیں۔
جس کے بعد پولیس حکام کے مطابق برطانوی حکومت نے سہیل ایاز کو جولائی 2009 میں اٹلی کی حکومت کے حوالے کیا تھا۔
تھانہ روات کے ایس ایچ او کاشف محمود نے بتایا تھا کہ ملزم سہیل ایاز نے دوران تفتیش پولیس کو بتایا کہ وہ اب تک پاکستان میں 30 بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنا چکا ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ اس امکان کو مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ ملزم کے ساتھ دیگر افراد بھی کام کر رہے تھے اور اس گینگ میں شامل دیگر افراد کی گرفتاری سے متعلق فیصلہ تفتیش کے دوران ہونے والی پیش رفت کے بعد کیا جائے گا۔
سہیل ایاز کی گرفتاری سے قبل 2017 میں ایک ایسا ملزم گرفتار ہوا تھا کہ جس کے انکشافات نے تعلمی اداروں میں اپنے بچوں کو حصول تعلیم کے لیے بھیجنے والے والدین کو اس اقدام سے قبل کئی مرتبہ سوچنے پر مجبور کردیا تھا۔
ڈان اخبار میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق 12 اپریل 2017 کو وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم ونگ نے سرگودھا سے بچوں کی نازیبا ویڈیوز بنا کر فروخت کرنے والے شخص کو گرفتار کرکے اس کا لیپ ٹاپ اور کمپیوٹر قبضے میں لے لیا تھا۔
گرفتار ہونے والے 45 سالہ ملزم سعادت امین نے تفتیش کاروں کے سامنے اعتراف کیا تھا کہ کمپیوٹر کی تعلیم کے نام پر اس نے 25 بچوں کو جھانسہ دے کر اس گھناؤنے کام میں استعمال کیا تھا۔
سائبر کرائم ونگ کے ہیڈ ڈپٹی ڈائریکٹر شاہد حسن کا کہنا تھا کہ ایجنسی کی جانب سے ملک میں پکڑا جانے والا یہ اسکینڈل اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا۔
تفتیش کے دوران سعادت امین نے انکشاف کیا تھا کہ وہ گزشتہ چند سالوں سے بچوں کی غیر اخلاقی ویڈیوز انٹرنیٹ پر فروخت کررہا ہے، امین بچوں کو کمپیوٹر کی تعلیم دینے کا جھانسہ دے کر اس کام میں استعمال کرتا تھا۔
تفتیش کار اسسٹنٹ ڈائریکٹر آصف اقبال نے ڈان سے گفتگو میں بتایا تھا کہ ملزم نے متاثرہ بچوں کے والدین کو یہ کہہ کر 3 ہزار سے 5 ہزار روپے بھی ادا کیے کہ وہ اپنے ایک کمرے کے گھر میں انہیں کمپیوٹر سافٹ ویئر اور ہارڈ ویئر سکھائے گا۔
واضح رہے کہ ملزم کی گرفتاری ناروے کے سفارت خانے کی جانب سے ایک خط کے ذریعے موصول ہونے والی اطلاع کے بعد عمل میں آئی تھی جس کے بعد ایف آئی اے نے معاملے کی تحقیقات کا سلسلہ شروع کیا تھا۔
واضح رہے کہ اس خط میں سائبر کرائم ونگ کو آگاہ کیا گیا تھا ناروے کی پولیس نے بچوں کی غیر اخلاقی ویڈیوز بنانے کے معاملے پر ایک شخص کو حراست میں لیا ہے جبکہ سعادت امین بھی اس شخص کے ساتھیوں میں سے ایک ہے۔
یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی (یو ای ٹی) کے ٹیکسلا کیمپس سے گریجویشن کرنے والا سعادت امین منڈی بہاؤالدین کے علاقے ملکوال کا رہائشی ہے، بعد ازاں سعادت ملکوال سے سرگودھا روانہ ہوا، جہاں اس نے اس گھناؤنے کام کا آغاز کیا۔
تفتیش کے دوران ملزم کا مزید کہنا تھا کہ ناروے سے تعلق رکھنے والے جیمز نامی شخص سے اس کا پہلا رابطہ انٹرنیٹ کے ذریعے ہوا اور اسی شخص نے اسے ’چائلڈ پورن انڈسٹری‘ سے متعلق آگاہ کیا تھا۔
سعادت امین نے کہا کہ ’جیمز نوجوان لڑکوں کی ویڈیوز کے عوض 100 سے 400 ڈالر ادا کیا کرتا تھا جبکہ وہ نہ صرف اپنی بنائی ہوئی ویڈیوز بلکہ روسی اور بنگلادیشی پورن ویب سائٹس کے سرورز سے چرائی گئی ویڈیوز بھی ناروے اور سویڈن کے خریداروں کو فروخت کیا کرتا تھا‘۔
تفتیش کار آصف اقبال کا کہنا تھا کہ اب تک ایف آئی اے ملزم کی تحویل سے 65 ہزار نازیبا ویڈیوز برآمد کرچکا ہے جو اس نے غیر ملکی ویب سائٹس سے ہیک کی تھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ملزم ہیکنگ کے عمل سے اچھی طرح واقف ہے جبکہ اپنے مجرمانہ ریکارڈ کو خفیہ رکھنے کے لیے اس نے سرگودھا کے پولیس اہلکاروں سے بھی تعلقات قائم کر رکھے تھے‘۔
علاوہ ازیں دوران تفتیش بنائی گئی ملزم کی ایک ویڈیو میں ملزم کو یہ کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے کہ وہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی ویڈیوز بنا کر یورپی ممالک میں اپنے کلائنٹ کو فروخت کرتا تھا جس کے عوض اسے 100 سے 200 یورو (10 ہزار سے 20 ہزار پاکستانی روپے) ادا کیے جاتے تھے۔
30 نومبر 2019 کو فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی آے) کے سائبر کرائم سرکل نے خیبرپختونخوا کے علاقے ایبٹ آباد میں کارروائی کرتے ہوئے بچوں کی غیراخلاقی ویڈیوز بنانے والے بین الاقوامی گروپ کے رکن کو گرفتار کیا تھا۔
ایف آئی اے حکام کے مطابق ملزم وقار احمد کے واٹس ایپ نمبر کی معلومات انٹرپول اسپین نے فراہم کی تھیں، مزید بتایا گیا تھا کہ تربیلا میں ملزم وقار احمد کے گھر پر چھاپہ مار کر اسے گرفتار کیا گیا تھا۔
ایف آئی اے حکام نے دعویٰ کیا کہ ملزم غیر اخلاقی ویڈیوز بنانے والے بین الاقوامی گروپ سے رابطے میں تھا اور وہ ملزم بچوں کی غیر اخلاقی ویڈیوز کو سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرتا تھا۔
حکام کے مطابق گرفتاری کے وقت ملزم سے موبائل فون اور دیگر ڈیجیٹل آلات برآمد کیے گئے اور موبائل فون اور دیگر آلات سے غیر اخلاقی ویڈیوز بھی برآمد کی گئی تھیں۔
کراچی سے ملزم گرفتار
اسی روز ایف آئی اے نے دعویٰ کیا تھا کہ کراچی کے علاقے میٹروول سے ایک نوجوان کو مبینہ طور پر بچوں کی غیر اخلاقی ویڈیوز بنانے کے گھناونے عمل میں ملوث ہونے پر گرفتار کیا گیا، ایف آئی اے سائبر کرائم کے ڈپٹی ڈائریکٹر عبدالغفار کے مطابق ایجنسی کو ایک شہری کی جانب سے 27 نومبر کو شکایت موصول ہوئی تھی جس کے بعد کارروائی عمل میں لائی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ گرفتاری کے بعد ان کے قبضے سے مختلف تصاویر اور بچوں کی غیر اخلاقی چند ویڈیوز بھی برآمد کی گئی تھیں جبکہ ملزم سے ابتدائی تفتیش کے دوران یہ بات سامنے آئی تھی کہ مشتبہ نوجوان نے 10 اور 13 سال کے عمر کے بچوں کی غیر اخلاقی تصاویر اور ویڈیوز بناتا تھا۔
ڈپٹی ڈائریکٹر عبدالغفار نے کہا کہ انہوں نے فیس بک اور انسٹا گرام کے کئی جعلی اکاؤنٹس بنا رکھے تھے اور وٹس ایپ پر بھی گروپ بنائے تھے جہاں وہ کم سن لڑکوں کو شامل کرتا تھا، ملزم کم سن لڑکوں کی فحش ویڈیوز بنانے کے بعد انہیں بلیک میل کرنے اور ان کے خاندان کو پیسے جمع کرنے کے لیے استعمال کرتا تھا۔
13 نومبر 2019 کو گوجرانوالہ میں احمد نگر تھانے کے علاقے دلاور چیمہ میں سی آئی اے پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے بچوں کے ریپ اور اس کی ویڈیوز بنانے والے ملزم کو گرفتار کیا تھا۔
پولیس کے مطابق ملزم ندیم درجنوں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور دیگر جرائم میں پولیس کو مطلوب تھا، انہوں نے بتایا کہ چھاپے کے دوران پولیس نے ملزم کے قبضے سے لیپ ٹاپ اور بد فعلی کی ویڈیوز برآمد کرکے قبضے میں لے لیں تھی۔
وائس آف امریکا کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ صدی کی آخری دہائی کے اختتام پر سال 1999 میں لاہور میں ایک پولیس عہدیدار کے دفتر میں جاوید اقبال نامی ایک شخص نے آکر بتایا تھا کہ وہ متعدد بچوں کو زیادتی کے بعد قتل کرچکا ہے، اس موقع پر پولیس حکام کو اس معاملے کو سنجیدگی کے ساتھ تفتیش کرنا چاہیے تھی لیکن ہوا اس کے برعکس! اور پولیس نے ہوشربا انکشافات کرنے والے شخص کو ذہنی مریض قرار دیتے ہوئے دفتر سے جانے کو کہا۔
بعد ازاں مذکورہ شخص نے روزنامہ جنگ لاہور کو طویل خط بھیجا جس کے ساتھ اس نے بچوں کے زیادتی کے بعد قتل کا اعتراف کرتے ہوئے 74 بچوں کی تصاویر کو بھی اس کا حصہ بنایا۔
لاہور جنگ کے ایڈیٹر نے وہ تحریر کرائم رپورٹرز کے حوالے کر کے کہا کہ اس آدمی کا پتہ لگائیں اور سچائی جاننے کی کوشش کریں جس پر رپورٹرز پولیس کو آگاہ کیے بغیر ہی خود سے تحقیقات کرنے کے لیے خط میں درج متعلقہ پتے پر پہنچے، جس مکان کا پتہ بتایا گیا تھا اس کے دروازے پر تالا لگا دیکھ کر انہوں نے دیوار پھلانگی اور مکان میں پہنچ گئے۔
مکان میں پہنچنے کے بعد ان کے سامنے وہ سب تھا جس سے خط میں تحریر کیے گئے انکشافات پر یقین کیا جاسکتا تھا، یعنی بچوں کی تصاویر، کپڑے اور جوتے جبکہ تیزاب کا ڈرم بھی موجود تھا۔
اس کے علاوہ دیوار پر خون کے چھینٹے تھے اور وہ زنجیریں تھیں جن سے وہ بچوں کا گلا دبا کر انہیں قتل کردیا کرتا تھا، جس کے بعد نومبر 1999 کے آخری ہفتے میں 100 بچوں کے قاتل جاوید اقبال مغل کی لرزہ خیز داستان اخبار میں چھپی تو پورے ملک میں تہلکہ مچ گیا۔
مذکورہ خبر میڈیا میں شہ سرخیوں کی زینت بننے کے بعد پولیس ملزم جاوید اقبال کی تلاش سرگرم ہوگئی، اسی دوران لاپتہ بچوں کے والدین راوی روڈ تھانے آتے تھے اور اپنے بچوں کی تصویر پہنچاتے جبکہ اخبارات روزانہ شہ سرخیاں لگاتے، جس نے حکومت اور پولیس پر ملزم کی گرفتاری کے لیے دباؤ بڑھا دیا۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ واقعے کے ایک ماہ بعد 30 دسمبر کو ملزم جاوید اقبال جنگ کے کرائم رپورٹر رئیس انصاری سے ملنے خود ان کے دفتر میں پہنچ گیا، جہاں رپورٹر نے ملزم کا طویل انٹرویو کیا اور ساتھ ہی پولیس کو جاوید اقبال کی موجودگی کا بتایا گیا جنہوں نے وہاں پہنچ کر اسے گرفتار کرلیا۔
ملزم جاوید اقبال نے جنگ کو انٹرویو کے دوران بچوں کو جنسی زیادتی کے بعد قتل کرنے کا اعتراف کرتے ہوئے بتایا تھا کہ وہ درباروں اور ایسے ہی دیگر مقامات پر گھر سے بھاگے ہوئے بچوں سے دوستی کرتا تھا، انہیں بہلا پھسلا کر اپنے مکان میں لاتا اور ان کے ساتھ زیادتی کے بعد گلا گھونٹ کر قتل کردیتا تھا، بعد ازاں ثبوت مٹانے کے لیے وہ بچوں کے اعضا کاٹ کر انہیں تیزاب کے ڈرم میں ڈال کر گلا دیتا تھا۔
ملزم نے یہ اعتراف بھی کیا تھا کہ زیادتی کے بعد قتل کیے جانے والے بچوں کی عمریں 6 سے 16 سال کے درمیان تھیں۔
جس وقت پولیس نے ملزم کو گرفتار کیا تھا اس موقع پر اس کی تلاشی بھی لی گئی تھی اور اس کے پاس سے زہر ملا جو اس نے خودکشی کے لیے اپنے پاس رکھا ہوا تھا۔
پولیس نے ملزم جاوید اقبال کو عدالت میں پیش کیا اور فروری 2000 میں سماعت شروع ہوئی، اور اس دوران جاوید اقبال نے متعدد مرتبہ اپنے بیانات تبدیل کیے، کبھی کہا کہ تمام بچے زندہ ہیں، کبھی کہا کہ اس نے اپنے ساتھ ناانصافیوں کا بدلہ لیا، بعد ازاں ملزم پر فرد جرم عائد ہوئی تو اس نے الزامات کا اعتراف کرلیا اور آخر کار 16 مارچ 2000 کو عدالت نے اسے 100 مرتبہ سزائے موت کا حکم سنایا۔
ٹرائل کورٹ سے سزا ہونے کے بعد جاوید اقبال نے اس کے خلاف اپیل دائر کی لیکن فیصلے کی نوبت نہیں آئی اور گرفتاری کے دو سال بعد 9 اکتوبر 2001 کو جاوید اقبال لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں مردہ پایا گیا، پولیس کے مطابق مجرم نے خودکشی کی تھی۔
بعد ازاں رواں سال اپریل میں یہ رپورٹ سامنے آئی تھی کہ اداکار شمعون عباسی اس وقت ایک ویب سیریز پر کام کررہے ہیں جو سلسلہ وار قاتل جاوید اقبال مغل کی کہانی سے متاثر ہوکر بنائی گئی ہے، اس ویب سیریز کا نام ’جاوید اقبال اینڈ دی ہنڈریڈ اسمائلز‘ (javed iqbal and the hundred smiles) رکھا گیا۔
مجرم جاوید اقبال کی جیل میں پراسرار موت کے طویل عرصے بعد پنجاب کے علاقے قصور میں اس سے ملتا جلتا ایسا ہی ایک اور واقعہ سامنے آیا۔
2015 میں یہ رپورٹس منظر عام پر آئیں تھیں کہ قصور سے پانچ کلو میٹر دور قائم حسین خان والا گاؤں کے 280 بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا جبکہ اس گھناؤنے جرم کے دوران ان کی ویڈیو بھی بنائی گئی جبکہ ان بچوں کی عمریں 14 سال سے کم بتائی گئی تھیں۔
رپورٹس کے مطابق ان بچوں کے خاندانوں کو ویڈیو دکھا کر بلیک میل بھی کیا جاتا تھا اور ان کے بچوں کی ویڈیو منظر عام پر نہ لانے کیلئے لاکھوں روپے بھتہ طلب کیا جاتا تھا۔
بعد ازاں پولیس کی جانب سے گرفتار کیے جانے والے ایک ملزم نے بتایا تھا کہ یہ جرائم اکیڈمی کے کلاس روم میں اس کی موجودگی میں ہوئے تھے۔
واضح رہے کہ قصور میں بچوں کے ساتھ ہونے والی بد فعلی، جنسی زیادتی اور اس کی فلم بندی کے واقعات کے منظر عام پر آنے کے بعد سات متاثرہ بچوں کے عزیزوں کی جانب سے ایف آئی آر درج کروائی گئی تھی۔
قصور اسکینڈل کے حوالے سے 19 مقدمات انسداد دہشت گردی کی عدالت میں منتقل کیے گئے تھے جن میں 4 مقدمات کو انسداد دہشت گردی کی عدالت سے دیگر عدالتوں میں منتقل کردیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ 18 اپریل 2016 کو انسداد دہشت گردی کی عدالت نے قصور میں بچوں کے ساتھ بدفعلی اور زیادتی میں ملوث دو ملزمان کو عمر قید کی سزا سنائی تھی، عدالت نے مجرم حسیم عامر اور فیضان مجید کو 25، 25 سال قید کی سزا سنائی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ انہیں 3 لاکھ روپے فی کس جرمانے کی بھی سزا سنائی گئی تھی۔
بعدِازاں 13 فروری 2018 کو انسداد دہشت گردی عدالت نے قصور ویڈیو اسکینڈل کیس میں تین مجرموں کو عمر قید اور تین تین لاکھ روپے جرمانے کی سزائیں سنائی تھی۔
24 فروری 2018 کو لاہور کی انسدادِ دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) نے قصور ویڈیو اسکینڈل کے 12 ملزمان کو بری کرنے کا حکم دیا تھا جبکہ 15 مارچ 2018 کو لاہور کی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے قصور ویڈیو اسکینڈل کے ایک اور کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے مجرم حسیم عامر کو عمر قید کی سزا سنادی تھی۔
اسی طرح لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے قصور ویڈیو اسکینڈل کے ایک اور کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے 3 ملزمان کو بری کرنے کا حکم دیا تھا۔
23 جولائی 2017 کو ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ پنجاب میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات میں اچانک ایک مرتبہ پھر اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور گذشتہ 6 ماہ کے دوران صرف قصور شہر میں 5 سے 10 سال کی عمر کے 10 کم سن بچوں کو ریپ کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کیا گیا تھا۔
قصور کی رہائشی 6 سالہ زینب 4 جنوری 2018 کو لاپتہ ہوئی تھی اور 9 جنوری کو ایک کچرا کنڈی سے ان کی لاش ملی جس کے بعد ملک بھر میں شدید احتجاج اور غم و غصے کا اظہار کیا گیا تھا۔
اس وقت کے چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے واقعے کا ازخود نوٹس لیا تھا، اس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے بھی واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے پولیس کو ملزم کی فوری گرفتاری کی ہدایات جاری کی تھیں۔
پولیس نے 13 جنوری کو ڈی این اے کے ذریعے ملزم کی نشاندہی کی اور ملزم کو گرفتار کیا جس کے بعد 23 جنوری کو وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے لاہور میں زینب کے والد محمد امین کی موجودگی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ملزم عمران علی کی گرفتاری کا باقاعدہ اعلان کیا تھا۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ زینب زیادتی اور قتل کے واقعے کے بعد ملک کے معروف صحافی ڈاکٹر شاہد مسعود نے ایک پروگرام میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ ملزم عمران کا تعلق ایک ایسے گروہ کے ساتھ ہے جو بچوں کے ساتھ زیادتی کے علاوہ چائلڈ پورنو گرافی کے حوالے سے کام کررہا ہے تاہم وہ عدالت میں طلب کیے جانے پر اس کے ثبوت فراہم کرنے سے قاصر تھے۔ (اس کی مزید تفصیلات رپورٹ میں نیچے فراہم کردی گئی ہیں)
6 فروری 2019 کو قصور میں ریپ کے بعد قتل کی جانے والی زینب کے کیس میں پولیس نے اہم پیش رفت کرتے ہوئے مرکزی ملزم عمران کو مزید 7 بچیوں کے ریپ اور قتل کیسز میں نامزد کیا تھا۔
بعد ازاں 9 فروری کو عدالت نے گرفتار ملزم عمران علی کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل منتقل کردیا تھا۔
ٹرائل کے دوران ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نے عدالت کو بتایا تھا کہ ملزم عمران کو زینب قتل کیس میں ڈی این اے میچ ہونے کے بعد گرفتار کیا گیا جس کے بعد ملزم عمران کا جسمانی ریمانڈ دیا گیا تھا۔
6 سالہ بچی زینب کے کیس میں لاہور کی انسدادِ دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) نے 17 فروری 2018 کو عمران علی پر جرم ثابت ہونے پر انہیں 4 مرتبہ سزائے موت، تاحیات اور 7 سالہ قید کے علاوہ 41 لاکھ روپے جرمانے کا فیصلہ سنایا تھا۔
زینب سمیت دیگر بچیوں کے قاتل عمران علی کو مجموعی طور پر 21 مرتبہ سزائے موت، عمر قید اور جرمانے کی سزائیں سنائی گئی تھیں۔
عدالت نے دوسرے مقدمے کائنات بتول کیس میں مجرم کو 3 بار عمر قید اور 23 سال قید کی سزا سنائی تھی، ساتھ ہی عدالت نے مجرم کو 25 لاکھ جرمانہ اور 20 لاکھ 55 ہزار دیت ادا کرنے کا بھی حکم دیا تھا۔
اس سے قبل عدالت نے 5 سالہ تہمینہ، 6 سالہ ایمان فاطمہ، 6 سالہ عاصمہ، عائشہ آصف، لائبہ اور 7 سالہ نور فاطمہ کے ساتھ زیادتی اور قتل کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے مجرم کو 5 مقدمات میں 21 مرتبہ سزائے موت کا فیصلہ سنایا تھا۔
مجرم عمران علی نے انسداد دہشت گردی عدالت کی جانب سے دی گئی سزا کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی تھی لیکن لاہور ہائی کورٹ نے مجرم عمران کے خلاف انسداد دہشت گردی عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھا تھا۔
بعد ازاں مجرم عمران نے ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا اور عدالت عظمیٰ سے بھی مجرم عمران علی کے خلاف انسداد دہشت گردی عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھا گیا اور 17 اکتوبر 2018 کو اس سزا پر عمل درآمد کر دیا گیا۔
لاہور میں مجرم عمران علی کو تختہ دار پر لٹکائے جانے کے بعد زینب کے والد محمد امین انصاری نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ آج انصاف کے تقاضے پورے ہوئے تاہم سرعام پھانسی دی جاتی تو مجرم عمران عبرت کا نشان بن جاتا۔
تاہم جاوید اقبال، قصور ویڈیو اسکینڈل اور زینب زیادتی اور قتل کیس جیسے واقعات سے بھی ہمارے مقتدر حلقوں نے کچھ نہ سیکھا اور نہ ہی ان واقعات کے بعد حکومت بچوں کو ایسے جنسی درندوں سے بچانے کے لیے کوئی سنجیدہ نوعیت کے اقدامات اٹھاسکی۔
ایسے میں بچوں سے زیادتی اور ان کے قتل کا ایک اور افسوس ناک واقعہ رونما ہوا اور قصور ہی کے علاقے چونیاں سے 3 بچوں کی لاشیں برآمد ہوئیں۔
17 ستمبر 2019 کو صوبہ پنجاب کے شہر قصور سے لاپتہ ہونے والے 3 بچوں کی لاشیں تحصیل چونیاں کے انڈسٹریل اسٹیٹ کے علاقے سے برآمد ہوئی تھیں، جس پر وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے نوٹس لیتے ہوئے آئی جی پنجاب سے رپورٹ طلب کی تھی۔
ابتدائی طور پر مقتول بچوں کے حوالے سے بتایا گیا تھا کہ دو بچوں کی باقیات اور ایک بچے کی لاش چونیاں انڈسٹریل اسٹیٹ کے علاقے سے ملی اور ساتھ ہی خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ بچوں کو مبینہ طور پر زیادتی کے بعد قتل کر کے ان کی لاشیں پھینکی گئیں۔
پولیس نے لاشیں تحویل میں لے کر شواہد اکٹھے کیے تھے اور واقعے کی تحقیقات شروع کردی تھی۔
پولیس نے واقعے کے حوالے سے بتایا تھا کہ دو بچے بالترتیب 2 اگست اور 8 اگست کو غائب ہوئے تھے اور ان کی ایف آئی آر درج کر کے معاملے کی تفتیش شروع کی گئی تھی جبکہ ایک بچہ 16 ستمبر کو لاپتہ ہوا تھا جس کی لاش بعد ازاں 17 ستمبر کو ملی۔
واقعے کے دوسرے ہی روز قصور میں 3 بچوں کے قتل پر شہریوں نے متعلقہ پولیس اسٹیشن کے سامنے احتجاج کیا تھا اور ملزمان کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کیا گیا تھا، 20 ستمبر 2019 کو یہ رپورٹ سامنے آئی تھی کہ واقعے کی تحقیقات کے لیے پولیس نے قصور شہر کے تمام افراد کا ڈی این اے ٹیسٹ کرانے کا فیصلہ کیا۔
21 ستمبر کو متاثرہ بچوں کے اہلخانہ سے تعزیت کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے قصور کی تحصیل چونیاں میں 3 بچوں کے قاتل کے سر کی قیمت 50 لاکھ مقرر کی تھی۔
یکم اکتوبر 2019 کو وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ سانحہ چونیاں میں بچوں کے ساتھ درندگی کرنے والے ملزم کی شناخت سہیل شہزاد کے نام سے ہوئی جسے گرفتار کر لیا۔
ان کا کہنا تھا کہ سانحہ چونیاں میں بچوں کے ساتھ زیادتی اور قتل کرنے والے ملزم سہیل شہزاد کا ڈی این اے بچوں کے کپڑوں سے ملنے والے ڈی این اے سے میچ کر گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ 'واقعے کی تحقیقات میں ایک ہزار 649 ریکارڈ یافتہ ملزمان کی جیوفینسنگ کی گئی اور ایک ہزار 543 افراد کے ڈی این اے ٹیسٹ کیے گئے جس سے معلوم ہوا کہ بچوں کے ساتھ زیادتی اور انہیں قتل کرنے والا سیریل کلر یہی ہے'۔
وزیراعلیٰ نے مزید بتایا تھا کہ '27 سالہ ملزم رانا ٹاؤن کا رہائشی اور لاہور میں تندور پر روٹیاں لگاتا تھا، جون، اگست اور ستمبر میں بچوں کے ساتھ زیادتی ہوئی اور انہیں قتل کیا گیا جبکہ ملزم کو رحیم یار خان سے گرفتار کیا گیا'۔
دوسرے ہی روز لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے پنجاب کے علاقے چونیاں میں 4 بچوں کے قتل کے ملزم کو تفتیش کے لیے 15 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا تھا۔
بعد ازاں 2 دسمبر 2019 کو بچوں کو زیادتی کے بعد قتل کے واقعات پر مقدمات کی سماعت لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں شروع ہوئی تھی جبکہ ملزم سہیل شہزاد پر فرد جرم عائد کیے جانے سے متعلق بتایا گیا تھا کہ 9 دسمبر کو عائد کردی جائے گی۔
17 دسمبر 2019 کو لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے چونیاں میں بچوں سے زیادتی کے بعد انہیں قتل کرنے کے الزام میں گرفتار ملزم سہیل شہزاد کے خلاف فیصلہ سناتے ہوئے تین دفعہ سزائے موت دینے کا حکم دیا تھا۔
یہ وہ بڑے واقعات ہیں جو منظر عام پر آئے اور انہوں نے شہریوں اور سوسائٹی کی نا صرف تشویش میں اضافہ کیا بلکہ معاشرے میں ہونے والے گھناؤنے جرم سے بھی پردہ ہٹایا، ان کیسز کے سامنے آنے کے بعد جہاں حکومت سے ملوث ملزمان کے خلاف سخت سے سخت کارروائی عمل میں لانے کا مطالبہ کیا جاتا رہا وہیں حکومت کے نمائندوں کی جانب سے شہریوں کو یہ باور کرایا جاتا رہا کہ اسے واقعات کی روک تھام کے لیے سخت سے سخت قانون سازی کی جائے گی لیکن ان سب کے باوجود سال 2019 میں ایک نیا واقعہ سامنے آیا۔
یہ واقعہ تھا خیبرپختونخوا کے مشیر سہیل ایاز کی گرفتاری کا، رپورٹ کے ابتدا میں ملزم کا مختصر ذکر کیا گیا ہے تاہم آپ کو اس حوالے سے مزید تفصیلات سے آگاہ کررہے ہیں کہ نا صرف ملزم خود بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں ملوث رہا بلکہ وہ ان سے زیادتی کے دوران بنائی گئی تصاویر اور ویڈیوز انٹرنیٹ کے ایک ایسے مقام پر جہاں ہر کسی کو رسائی حاصل کرنا آسان نہیں یعنی 'ڈارک ویب' تک پہنچاتا تھا۔
سہیل ایاز کی گرفتاری کیسے ہوئی؟
12 نومبر 2019 کو راولپنڈی پولیس نے بچوں سے بدفعلی کر کے ان کی ویڈیو بنانے کے الزام میں سہیل ایاز نامی شخص کو گرفتار کیا تھا، اس حوالے سے پولیس افسر فیصل رانا نے ڈان کو بتایا تھا کہ روات پولیس اسٹیشن میں ایک 13 سالہ لڑکے کی ماں کی شکایت پر مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
سی پی او کے مطابق شکایت کنندہ کا کہنا تھا کہ ان کا بیٹا قہوہ فروخت کرتا ہے جسے ملزم زبردستی اپنی گاڑی میں بحریہ ٹاؤن راولپنڈی میں موجود ایک مکان میں لے گیا اور اسے منشیات دے کر 4 روز تک ریپ کرتا رہا۔
درج کیے گئے مقدمے کے مطابق ملزم نے لڑکے کے ریپ کی ویڈیو بھی بنائی اور اس واقعے کے بارے میں کسی کو بتانے کی صورت میں ویڈیو جاری کرنے کی دھمکی بھی دی۔
ملزم کے خلاف درج مقدمے میں اغوا، زہر دینے، کسی کو نقصان پہنچانے، غلام بنانے اور غیر فطری عمل کی دفعات لگائی گئیں۔
اس حوالے سے رانا فیصل کا مزید کہنا تھا کہ مذکورہ ملزم انٹرنیشنل ڈارک ویب کا سرغنہ ہے اور اس نے پاکستان میں 30 بچوں کو ریپ کرنے کا اعتراف کیا ہے، پولیس افسر کا مزید کہنا تھا کہ ملزم سہیل ایاز بچوں کو بدفعلی کا نشانہ بنانے کے جرم میں برطانیہ میں جیل کی سزا بھگت چکا ہے جہاں سے اسے ڈی پورٹ کردیا گیا تھا جبکہ ملزم کے خلاف اٹلی میں بھی بچوں سے بدفعلی کا مقدمہ چلایا گیا تھا جس کے بعد اسے وہاں سے بھی ڈی پورٹ کردیا گیا تھا۔
بعد ازاں سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) صدر رائے مظہر نے بتایا کہ ملزم سہیل ایاز اسلام آباد کے علاقے نیلور کا رہائشی ہے جس کی 9 سال قبل شادی ختم ہوگئی تھی اور اس کے اہلخانہ بھی اس سے اظہار لاتعلقی کر چکے ہیں، انہوں نے مزید بتایا تھا کہ ملزم چارٹرڈ اکاؤٹننٹ ہے اور انتہائی ذہین اور ڈارک ویب کو استعمال کرنے کا ماہر ہے۔
مزید پڑھیں: اگر ’سہیل ایاز‘ کل اسکول کھول لے تو؟
ان کا کہنا تھا کہ ملزم خیبرپختونخوا کے سول سیکرٹریٹ پلاننگ ڈیپارٹمنٹ کو کنسلٹینسی دے رہا تھا اور سرکار سے ماہانہ 3 لاکھ روپے تنخواہ بھی لے رہا ہے اس کے علاوہ ملزم برطانیہ میں بین الاقوامی شہرت کے حامل فلاحی ادارے میں بھی ملازمت کرچکا ہے۔
دوسرے ہی روز راولپنڈی پولیس نے بچوں سے بدفعلی کر کے ان کی ویڈیو بنانے والے ملزم سہیل ایاز کو عدالت میں پیش کرکے ملزم کا جسمانی ریمانڈ حاصل کرلیا تھا۔
اعترافی بیان دباؤ کے تحت دلوایا گیا، والد ملزم
ملزم سہیل ایاز کے والد ایاز نے بتایا تھا کہ پولیس نے ان کے بیٹے پر بے بنیاد الزامات لگائے ہیں جبکہ ملزم کے اہلخانہ کا اس سے اظہار لاتعلقی کے پولیس کے دعوے کی نفی کرتے ہوئے ملزم کے والد کا کہنا تھا کہ 'میں نے اپنے بیٹے کو عاق نہیں کیا ہے، جو ایف آئی آر دی گئی وہ جھوٹی ہے'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'سہیل ایاز نے اعترافی بیان دباؤ کے تحت دیا ہے، اس کے علاوہ بیرون ملک جو کیسز سہیل ایاز پر بنے وہ معمولی نوعیت کے تھے'۔
ملازمت سے فارغ
اسی روز خیبرپختونخوا حکومت نے ملزم سہیل ایاز کو سیکریٹریٹ پلاننگ ڈپارٹمنٹ میں بطور کنسلٹنسی کے عہدے سے برطرف کردیا تھا۔
یہاں یہ بات واضح رہے کہ سہیل ایاز 2017 سے کے پی حکومت کے ساتھ عالمی بینک کے ترقیاتی منصوبے میں بطور کنسلٹنٹ خدمات انجام دے رہا تھے۔
ملزم کی نشاندہی پر ایک اور بچہ برآمد
15 نومبر 2019 کو راولپنڈی پولیس نے انٹرنیشنل ڈارک ویب کے ملزم سہیل ایاز کی نشاندہی پر 12 سالہ بچے کو برآمد کیا تھا، پولیس افسر فیصل رانا نے تصدیق کی تھی کہ سہیل ایاز کے ہاتھوں اغوا ہونے والے 12 سالہ عدیل خان کو برآمد جبکہ ایک ملزم خرم کالا کو گرفتار کرلیا گیا۔
پولیس افسر کے مطابق انٹرنیشنل ڈارک ویب کے ملزم سہیل ایاز نے بچے کو ’آئس‘ پلا کر بدفعلی کی، ان کا کہنا تھا کہ ابتدائی تفتیش کے مطابق سہیل ایاز نے بچے کو 2 ماہ تک اپنے پاس رکھا تھا۔
بیرون ملک سزائیں
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی اردو کی رپورٹ کے مطابق سہیل ایاز کو 2009 میں ایک برطانوی عدالت نے ایک 14 سالہ بچے کے ریپ کے اعتراف کے بعد چار سال قید کی سزا سنائی تھی، اس کے علاوہ ملزم نے عدالت میں اس بچے کی تصاویر تقسیم کرنے اور 397 دیگر غیر اخلاقی تصاویر اپنے پاس موجود ہونے کا بھی اعتراف کیا تھا۔
یاد رہے کہ وہ بچوں کی فلاح کے لیے کام کرنے والی برطانوی تنظیم ’سیو دی چلڈرن‘ کے سابق ملازم بھی ہیں جبکہ سہیل ایاز کے تعلقات رومانیہ کے ایک ایسے گروہ سے بھی ہیں جو بچوں سے زیادتی میں ملوث پائے گئے تھے۔
سنہ 2008 میں برطانیہ میں ورک ویزا کے ذریعے داخل ہونے والے سہیل ایاز کو فروری 2009 میں اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب اٹلی کے شہر روم کی پولیس نے ایک بچوں سے زیادتی کرنے والے ایک اطالوی شخص کے خلاف تحقیقات شروع کی تھیں۔
پولیس کو معلوم ہوا تھا کہ سہیل ایاز نے اطالوی ملزم کو 15 رومانیئن بچوں کی تفصیلات فراہم کی تھیں، سہیل مبینہ طور پر بچوں سے زیادتی کرنے والے ایک سوئیڈش شخص کے مڈل مین تھے جن کا کہنا تھا کہ وہ زیادتی کرنے کے لیے رومانیئن بچے فراہم کر سکتے ہیں۔
اطالوی پولیس نے برطانوی پولیس کو خبردار کیا تھا جس کے بعد ان کے خلاف برطانیہ میں تحقیقات شروع ہوئیں، جس کے بعد برطانوی پولیس نے کارروائی کی اور سہیل ایاز کے فلیٹ سے 2000 سے زائد غیر اخلاقی تصاویر اور ویڈیوز برآمد کی گئیں، جن میں نہایت کم عمر بچوں اور زیادتی کا نشانہ بنائے گئے بچوں کی تصاویر بھی شامل تھیں۔
جس کے بعد پولیس حکام کے مطابق برطانوی حکومت نے سہیل ایاز کو جولائی 2009 میں اٹلی کی حکومت کے حوالے کیا تھا۔
تھانہ روات کے ایس ایچ او کاشف محمود نے بتایا تھا کہ ملزم سہیل ایاز نے دوران تفتیش پولیس کو بتایا کہ وہ اب تک پاکستان میں 30 بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنا چکا ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ اس امکان کو مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ ملزم کے ساتھ دیگر افراد بھی کام کر رہے تھے اور اس گینگ میں شامل دیگر افراد کی گرفتاری سے متعلق فیصلہ تفتیش کے دوران ہونے والی پیش رفت کے بعد کیا جائے گا۔
سہیل ایاز کی گرفتاری سے قبل 2017 میں ایک ایسا ملزم گرفتار ہوا تھا کہ جس کے انکشافات نے تعلمی اداروں میں اپنے بچوں کو حصول تعلیم کے لیے بھیجنے والے والدین کو اس اقدام سے قبل کئی مرتبہ سوچنے پر مجبور کردیا تھا۔
ڈان اخبار میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق 12 اپریل 2017 کو وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم ونگ نے سرگودھا سے بچوں کی نازیبا ویڈیوز بنا کر فروخت کرنے والے شخص کو گرفتار کرکے اس کا لیپ ٹاپ اور کمپیوٹر قبضے میں لے لیا تھا۔
گرفتار ہونے والے 45 سالہ ملزم سعادت امین نے تفتیش کاروں کے سامنے اعتراف کیا تھا کہ کمپیوٹر کی تعلیم کے نام پر اس نے 25 بچوں کو جھانسہ دے کر اس گھناؤنے کام میں استعمال کیا تھا۔
سائبر کرائم ونگ کے ہیڈ ڈپٹی ڈائریکٹر شاہد حسن کا کہنا تھا کہ ایجنسی کی جانب سے ملک میں پکڑا جانے والا یہ اسکینڈل اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا۔
تفتیش کے دوران سعادت امین نے انکشاف کیا تھا کہ وہ گزشتہ چند سالوں سے بچوں کی غیر اخلاقی ویڈیوز انٹرنیٹ پر فروخت کررہا ہے، امین بچوں کو کمپیوٹر کی تعلیم دینے کا جھانسہ دے کر اس کام میں استعمال کرتا تھا۔
تفتیش کار اسسٹنٹ ڈائریکٹر آصف اقبال نے ڈان سے گفتگو میں بتایا تھا کہ ملزم نے متاثرہ بچوں کے والدین کو یہ کہہ کر 3 ہزار سے 5 ہزار روپے بھی ادا کیے کہ وہ اپنے ایک کمرے کے گھر میں انہیں کمپیوٹر سافٹ ویئر اور ہارڈ ویئر سکھائے گا۔
واضح رہے کہ ملزم کی گرفتاری ناروے کے سفارت خانے کی جانب سے ایک خط کے ذریعے موصول ہونے والی اطلاع کے بعد عمل میں آئی تھی جس کے بعد ایف آئی اے نے معاملے کی تحقیقات کا سلسلہ شروع کیا تھا۔
واضح رہے کہ اس خط میں سائبر کرائم ونگ کو آگاہ کیا گیا تھا ناروے کی پولیس نے بچوں کی غیر اخلاقی ویڈیوز بنانے کے معاملے پر ایک شخص کو حراست میں لیا ہے جبکہ سعادت امین بھی اس شخص کے ساتھیوں میں سے ایک ہے۔
یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی (یو ای ٹی) کے ٹیکسلا کیمپس سے گریجویشن کرنے والا سعادت امین منڈی بہاؤالدین کے علاقے ملکوال کا رہائشی ہے، بعد ازاں سعادت ملکوال سے سرگودھا روانہ ہوا، جہاں اس نے اس گھناؤنے کام کا آغاز کیا۔
تفتیش کے دوران ملزم کا مزید کہنا تھا کہ ناروے سے تعلق رکھنے والے جیمز نامی شخص سے اس کا پہلا رابطہ انٹرنیٹ کے ذریعے ہوا اور اسی شخص نے اسے ’چائلڈ پورن انڈسٹری‘ سے متعلق آگاہ کیا تھا۔
سعادت امین نے کہا کہ ’جیمز نوجوان لڑکوں کی ویڈیوز کے عوض 100 سے 400 ڈالر ادا کیا کرتا تھا جبکہ وہ نہ صرف اپنی بنائی ہوئی ویڈیوز بلکہ روسی اور بنگلادیشی پورن ویب سائٹس کے سرورز سے چرائی گئی ویڈیوز بھی ناروے اور سویڈن کے خریداروں کو فروخت کیا کرتا تھا‘۔
تفتیش کار آصف اقبال کا کہنا تھا کہ اب تک ایف آئی اے ملزم کی تحویل سے 65 ہزار نازیبا ویڈیوز برآمد کرچکا ہے جو اس نے غیر ملکی ویب سائٹس سے ہیک کی تھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ملزم ہیکنگ کے عمل سے اچھی طرح واقف ہے جبکہ اپنے مجرمانہ ریکارڈ کو خفیہ رکھنے کے لیے اس نے سرگودھا کے پولیس اہلکاروں سے بھی تعلقات قائم کر رکھے تھے‘۔
علاوہ ازیں دوران تفتیش بنائی گئی ملزم کی ایک ویڈیو میں ملزم کو یہ کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے کہ وہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی ویڈیوز بنا کر یورپی ممالک میں اپنے کلائنٹ کو فروخت کرتا تھا جس کے عوض اسے 100 سے 200 یورو (10 ہزار سے 20 ہزار پاکستانی روپے) ادا کیے جاتے تھے۔
30 نومبر 2019 کو فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی آے) کے سائبر کرائم سرکل نے خیبرپختونخوا کے علاقے ایبٹ آباد میں کارروائی کرتے ہوئے بچوں کی غیراخلاقی ویڈیوز بنانے والے بین الاقوامی گروپ کے رکن کو گرفتار کیا تھا۔
ایف آئی اے حکام کے مطابق ملزم وقار احمد کے واٹس ایپ نمبر کی معلومات انٹرپول اسپین نے فراہم کی تھیں، مزید بتایا گیا تھا کہ تربیلا میں ملزم وقار احمد کے گھر پر چھاپہ مار کر اسے گرفتار کیا گیا تھا۔
ایف آئی اے حکام نے دعویٰ کیا کہ ملزم غیر اخلاقی ویڈیوز بنانے والے بین الاقوامی گروپ سے رابطے میں تھا اور وہ ملزم بچوں کی غیر اخلاقی ویڈیوز کو سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرتا تھا۔
حکام کے مطابق گرفتاری کے وقت ملزم سے موبائل فون اور دیگر ڈیجیٹل آلات برآمد کیے گئے اور موبائل فون اور دیگر آلات سے غیر اخلاقی ویڈیوز بھی برآمد کی گئی تھیں۔
کراچی سے ملزم گرفتار
اسی روز ایف آئی اے نے دعویٰ کیا تھا کہ کراچی کے علاقے میٹروول سے ایک نوجوان کو مبینہ طور پر بچوں کی غیر اخلاقی ویڈیوز بنانے کے گھناونے عمل میں ملوث ہونے پر گرفتار کیا گیا، ایف آئی اے سائبر کرائم کے ڈپٹی ڈائریکٹر عبدالغفار کے مطابق ایجنسی کو ایک شہری کی جانب سے 27 نومبر کو شکایت موصول ہوئی تھی جس کے بعد کارروائی عمل میں لائی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ گرفتاری کے بعد ان کے قبضے سے مختلف تصاویر اور بچوں کی غیر اخلاقی چند ویڈیوز بھی برآمد کی گئی تھیں جبکہ ملزم سے ابتدائی تفتیش کے دوران یہ بات سامنے آئی تھی کہ مشتبہ نوجوان نے 10 اور 13 سال کے عمر کے بچوں کی غیر اخلاقی تصاویر اور ویڈیوز بناتا تھا۔
ڈپٹی ڈائریکٹر عبدالغفار نے کہا کہ انہوں نے فیس بک اور انسٹا گرام کے کئی جعلی اکاؤنٹس بنا رکھے تھے اور وٹس ایپ پر بھی گروپ بنائے تھے جہاں وہ کم سن لڑکوں کو شامل کرتا تھا، ملزم کم سن لڑکوں کی فحش ویڈیوز بنانے کے بعد انہیں بلیک میل کرنے اور ان کے خاندان کو پیسے جمع کرنے کے لیے استعمال کرتا تھا۔
13 نومبر 2019 کو گوجرانوالہ میں احمد نگر تھانے کے علاقے دلاور چیمہ میں سی آئی اے پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے بچوں کے ریپ اور اس کی ویڈیوز بنانے والے ملزم کو گرفتار کیا تھا۔
پولیس کے مطابق ملزم ندیم درجنوں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور دیگر جرائم میں پولیس کو مطلوب تھا، انہوں نے بتایا کہ چھاپے کے دوران پولیس نے ملزم کے قبضے سے لیپ ٹاپ اور بد فعلی کی ویڈیوز برآمد کرکے قبضے میں لے لیں تھی۔
مجرم جاوید اقبال کی جیل میں پراسرار موت کے طویل عرصے بعد پنجاب کے علاقے قصور میں اس سے ملتا جلتا ایسا ہی ایک اور واقعہ سامنے آیا۔
2015 میں یہ رپورٹس منظر عام پر آئیں تھیں کہ قصور سے پانچ کلو میٹر دور قائم حسین خان والا گاؤں کے 280 بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا جبکہ اس گھناؤنے جرم کے دوران ان کی ویڈیو بھی بنائی گئی جبکہ ان بچوں کی عمریں 14 سال سے کم بتائی گئی تھیں۔
رپورٹس کے مطابق ان بچوں کے خاندانوں کو ویڈیو دکھا کر بلیک میل بھی کیا جاتا تھا اور ان کے بچوں کی ویڈیو منظر عام پر نہ لانے کیلئے لاکھوں روپے بھتہ طلب کیا جاتا تھا۔
بعد ازاں پولیس کی جانب سے گرفتار کیے جانے والے ایک ملزم نے بتایا تھا کہ یہ جرائم اکیڈمی کے کلاس روم میں اس کی موجودگی میں ہوئے تھے۔
واضح رہے کہ قصور میں بچوں کے ساتھ ہونے والی بد فعلی، جنسی زیادتی اور اس کی فلم بندی کے واقعات کے منظر عام پر آنے کے بعد سات متاثرہ بچوں کے عزیزوں کی جانب سے ایف آئی آر درج کروائی گئی تھی۔
قصور اسکینڈل کے حوالے سے 19 مقدمات انسداد دہشت گردی کی عدالت میں منتقل کیے گئے تھے جن میں 4 مقدمات کو انسداد دہشت گردی کی عدالت سے دیگر عدالتوں میں منتقل کردیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ 18 اپریل 2016 کو انسداد دہشت گردی کی عدالت نے قصور میں بچوں کے ساتھ بدفعلی اور زیادتی میں ملوث دو ملزمان کو عمر قید کی سزا سنائی تھی، عدالت نے مجرم حسیم عامر اور فیضان مجید کو 25، 25 سال قید کی سزا سنائی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ انہیں 3 لاکھ روپے فی کس جرمانے کی بھی سزا سنائی گئی تھی۔
بعدِازاں 13 فروری 2018 کو انسداد دہشت گردی عدالت نے قصور ویڈیو اسکینڈل کیس میں تین مجرموں کو عمر قید اور تین تین لاکھ روپے جرمانے کی سزائیں سنائی تھی۔
24 فروری 2018 کو لاہور کی انسدادِ دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) نے قصور ویڈیو اسکینڈل کے 12 ملزمان کو بری کرنے کا حکم دیا تھا جبکہ 15 مارچ 2018 کو لاہور کی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے قصور ویڈیو اسکینڈل کے ایک اور کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے مجرم حسیم عامر کو عمر قید کی سزا سنادی تھی۔
اسی طرح لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے قصور ویڈیو اسکینڈل کے ایک اور کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے 3 ملزمان کو بری کرنے کا حکم دیا تھا۔
23 جولائی 2017 کو ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ پنجاب میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات میں اچانک ایک مرتبہ پھر اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور گذشتہ 6 ماہ کے دوران صرف قصور شہر میں 5 سے 10 سال کی عمر کے 10 کم سن بچوں کو ریپ کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کیا گیا تھا۔
قصور کی رہائشی 6 سالہ زینب 4 جنوری 2018 کو لاپتہ ہوئی تھی اور 9 جنوری کو ایک کچرا کنڈی سے ان کی لاش ملی جس کے بعد ملک بھر میں شدید احتجاج اور غم و غصے کا اظہار کیا گیا تھا۔
اس وقت کے چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے واقعے کا ازخود نوٹس لیا تھا، اس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے بھی واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے پولیس کو ملزم کی فوری گرفتاری کی ہدایات جاری کی تھیں۔
پولیس نے 13 جنوری کو ڈی این اے کے ذریعے ملزم کی نشاندہی کی اور ملزم کو گرفتار کیا جس کے بعد 23 جنوری کو وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے لاہور میں زینب کے والد محمد امین کی موجودگی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ملزم عمران علی کی گرفتاری کا باقاعدہ اعلان کیا تھا۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ زینب زیادتی اور قتل کے واقعے کے بعد ملک کے معروف صحافی ڈاکٹر شاہد مسعود نے ایک پروگرام میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ ملزم عمران کا تعلق ایک ایسے گروہ کے ساتھ ہے جو بچوں کے ساتھ زیادتی کے علاوہ چائلڈ پورنو گرافی کے حوالے سے کام کررہا ہے تاہم وہ عدالت میں طلب کیے جانے پر اس کے ثبوت فراہم کرنے سے قاصر تھے۔ (اس کی مزید تفصیلات رپورٹ میں نیچے فراہم کردی گئی ہیں)
6 فروری 2019 کو قصور میں ریپ کے بعد قتل کی جانے والی زینب کے کیس میں پولیس نے اہم پیش رفت کرتے ہوئے مرکزی ملزم عمران کو مزید 7 بچیوں کے ریپ اور قتل کیسز میں نامزد کیا تھا۔
بعد ازاں 9 فروری کو عدالت نے گرفتار ملزم عمران علی کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل منتقل کردیا تھا۔
ٹرائل کے دوران ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نے عدالت کو بتایا تھا کہ ملزم عمران کو زینب قتل کیس میں ڈی این اے میچ ہونے کے بعد گرفتار کیا گیا جس کے بعد ملزم عمران کا جسمانی ریمانڈ دیا گیا تھا۔
6 سالہ بچی زینب کے کیس میں لاہور کی انسدادِ دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) نے 17 فروری 2018 کو عمران علی پر جرم ثابت ہونے پر انہیں 4 مرتبہ سزائے موت، تاحیات اور 7 سالہ قید کے علاوہ 41 لاکھ روپے جرمانے کا فیصلہ سنایا تھا۔
زینب سمیت دیگر بچیوں کے قاتل عمران علی کو مجموعی طور پر 21 مرتبہ سزائے موت، عمر قید اور جرمانے کی سزائیں سنائی گئی تھیں۔
عدالت نے دوسرے مقدمے کائنات بتول کیس میں مجرم کو 3 بار عمر قید اور 23 سال قید کی سزا سنائی تھی، ساتھ ہی عدالت نے مجرم کو 25 لاکھ جرمانہ اور 20 لاکھ 55 ہزار دیت ادا کرنے کا بھی حکم دیا تھا۔
اس سے قبل عدالت نے 5 سالہ تہمینہ، 6 سالہ ایمان فاطمہ، 6 سالہ عاصمہ، عائشہ آصف، لائبہ اور 7 سالہ نور فاطمہ کے ساتھ زیادتی اور قتل کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے مجرم کو 5 مقدمات میں 21 مرتبہ سزائے موت کا فیصلہ سنایا تھا۔
مجرم عمران علی نے انسداد دہشت گردی عدالت کی جانب سے دی گئی سزا کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی تھی لیکن لاہور ہائی کورٹ نے مجرم عمران کے خلاف انسداد دہشت گردی عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھا تھا۔
بعد ازاں مجرم عمران نے ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا اور عدالت عظمیٰ سے بھی مجرم عمران علی کے خلاف انسداد دہشت گردی عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھا گیا اور 17 اکتوبر 2018 کو اس سزا پر عمل درآمد کر دیا گیا۔
لاہور میں مجرم عمران علی کو تختہ دار پر لٹکائے جانے کے بعد زینب کے والد محمد امین انصاری نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ آج انصاف کے تقاضے پورے ہوئے تاہم سرعام پھانسی دی جاتی تو مجرم عمران عبرت کا نشان بن جاتا۔
تاہم جاوید اقبال، قصور ویڈیو اسکینڈل اور زینب زیادتی اور قتل کیس جیسے واقعات سے بھی ہمارے مقتدر حلقوں نے کچھ نہ سیکھا اور نہ ہی ان واقعات کے بعد حکومت بچوں کو ایسے جنسی درندوں سے بچانے کے لیے کوئی سنجیدہ نوعیت کے اقدامات اٹھاسکی۔
ایسے میں بچوں سے زیادتی اور ان کے قتل کا ایک اور افسوس ناک واقعہ رونما ہوا اور قصور ہی کے علاقے چونیاں سے 3 بچوں کی لاشیں برآمد ہوئیں۔
17 ستمبر 2019 کو صوبہ پنجاب کے شہر قصور سے لاپتہ ہونے والے 3 بچوں کی لاشیں تحصیل چونیاں کے انڈسٹریل اسٹیٹ کے علاقے سے برآمد ہوئی تھیں، جس پر وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے نوٹس لیتے ہوئے آئی جی پنجاب سے رپورٹ طلب کی تھی۔
ابتدائی طور پر مقتول بچوں کے حوالے سے بتایا گیا تھا کہ دو بچوں کی باقیات اور ایک بچے کی لاش چونیاں انڈسٹریل اسٹیٹ کے علاقے سے ملی اور ساتھ ہی خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ بچوں کو مبینہ طور پر زیادتی کے بعد قتل کر کے ان کی لاشیں پھینکی گئیں۔
پولیس نے لاشیں تحویل میں لے کر شواہد اکٹھے کیے تھے اور واقعے کی تحقیقات شروع کردی تھی۔
پولیس نے واقعے کے حوالے سے بتایا تھا کہ دو بچے بالترتیب 2 اگست اور 8 اگست کو غائب ہوئے تھے اور ان کی ایف آئی آر درج کر کے معاملے کی تفتیش شروع کی گئی تھی جبکہ ایک بچہ 16 ستمبر کو لاپتہ ہوا تھا جس کی لاش بعد ازاں 17 ستمبر کو ملی۔
واقعے کے دوسرے ہی روز قصور میں 3 بچوں کے قتل پر شہریوں نے متعلقہ پولیس اسٹیشن کے سامنے احتجاج کیا تھا اور ملزمان کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کیا گیا تھا، 20 ستمبر 2019 کو یہ رپورٹ سامنے آئی تھی کہ واقعے کی تحقیقات کے لیے پولیس نے قصور شہر کے تمام افراد کا ڈی این اے ٹیسٹ کرانے کا فیصلہ کیا۔
21 ستمبر کو متاثرہ بچوں کے اہلخانہ سے تعزیت کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے قصور کی تحصیل چونیاں میں 3 بچوں کے قاتل کے سر کی قیمت 50 لاکھ مقرر کی تھی۔
یکم اکتوبر 2019 کو وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ سانحہ چونیاں میں بچوں کے ساتھ درندگی کرنے والے ملزم کی شناخت سہیل شہزاد کے نام سے ہوئی جسے گرفتار کر لیا۔
ان کا کہنا تھا کہ سانحہ چونیاں میں بچوں کے ساتھ زیادتی اور قتل کرنے والے ملزم سہیل شہزاد کا ڈی این اے بچوں کے کپڑوں سے ملنے والے ڈی این اے سے میچ کر گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ 'واقعے کی تحقیقات میں ایک ہزار 649 ریکارڈ یافتہ ملزمان کی جیوفینسنگ کی گئی اور ایک ہزار 543 افراد کے ڈی این اے ٹیسٹ کیے گئے جس سے معلوم ہوا کہ بچوں کے ساتھ زیادتی اور انہیں قتل کرنے والا سیریل کلر یہی ہے'۔
وزیراعلیٰ نے مزید بتایا تھا کہ '27 سالہ ملزم رانا ٹاؤن کا رہائشی اور لاہور میں تندور پر روٹیاں لگاتا تھا، جون، اگست اور ستمبر میں بچوں کے ساتھ زیادتی ہوئی اور انہیں قتل کیا گیا جبکہ ملزم کو رحیم یار خان سے گرفتار کیا گیا'۔
دوسرے ہی روز لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے پنجاب کے علاقے چونیاں میں 4 بچوں کے قتل کے ملزم کو تفتیش کے لیے 15 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا تھا۔
بعد ازاں 2 دسمبر 2019 کو بچوں کو زیادتی کے بعد قتل کے واقعات پر مقدمات کی سماعت لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں شروع ہوئی تھی جبکہ ملزم سہیل شہزاد پر فرد جرم عائد کیے جانے سے متعلق بتایا گیا تھا کہ 9 دسمبر کو عائد کردی جائے گی۔
17 دسمبر 2019 کو لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے چونیاں میں بچوں سے زیادتی کے بعد انہیں قتل کرنے کے الزام میں گرفتار ملزم سہیل شہزاد کے خلاف فیصلہ سناتے ہوئے تین دفعہ سزائے موت دینے کا حکم دیا تھا۔
یہ وہ بڑے واقعات ہیں جو منظر عام پر آئے اور انہوں نے شہریوں اور سوسائٹی کی نا صرف تشویش میں اضافہ کیا بلکہ معاشرے میں ہونے والے گھناؤنے جرم سے بھی پردہ ہٹایا، ان کیسز کے سامنے آنے کے بعد جہاں حکومت سے ملوث ملزمان کے خلاف سخت سے سخت کارروائی عمل میں لانے کا مطالبہ کیا جاتا رہا وہیں حکومت کے نمائندوں کی جانب سے شہریوں کو یہ باور کرایا جاتا رہا کہ اسے واقعات کی روک تھام کے لیے سخت سے سخت قانون سازی کی جائے گی لیکن ان سب کے باوجود سال 2019 میں ایک نیا واقعہ سامنے آیا۔
یہ واقعہ تھا خیبرپختونخوا کے مشیر سہیل ایاز کی گرفتاری کا، رپورٹ کے ابتدا میں ملزم کا مختصر ذکر کیا گیا ہے تاہم آپ کو اس حوالے سے مزید تفصیلات سے آگاہ کررہے ہیں کہ نا صرف ملزم خود بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں ملوث رہا بلکہ وہ ان سے زیادتی کے دوران بنائی گئی تصاویر اور ویڈیوز انٹرنیٹ کے ایک ایسے مقام پر جہاں ہر کسی کو رسائی حاصل کرنا آسان نہیں یعنی 'ڈارک ویب' تک پہنچاتا تھا۔
سہیل ایاز کی گرفتاری کیسے ہوئی؟
12 نومبر 2019 کو راولپنڈی پولیس نے بچوں سے بدفعلی کر کے ان کی ویڈیو بنانے کے الزام میں سہیل ایاز نامی شخص کو گرفتار کیا تھا، اس حوالے سے پولیس افسر فیصل رانا نے ڈان کو بتایا تھا کہ روات پولیس اسٹیشن میں ایک 13 سالہ لڑکے کی ماں کی شکایت پر مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
سی پی او کے مطابق شکایت کنندہ کا کہنا تھا کہ ان کا بیٹا قہوہ فروخت کرتا ہے جسے ملزم زبردستی اپنی گاڑی میں بحریہ ٹاؤن راولپنڈی میں موجود ایک مکان میں لے گیا اور اسے منشیات دے کر 4 روز تک ریپ کرتا رہا۔
درج کیے گئے مقدمے کے مطابق ملزم نے لڑکے کے ریپ کی ویڈیو بھی بنائی اور اس واقعے کے بارے میں کسی کو بتانے کی صورت میں ویڈیو جاری کرنے کی دھمکی بھی دی۔
ملزم کے خلاف درج مقدمے میں اغوا، زہر دینے، کسی کو نقصان پہنچانے، غلام بنانے اور غیر فطری عمل کی دفعات لگائی گئیں۔
اس حوالے سے رانا فیصل کا مزید کہنا تھا کہ مذکورہ ملزم انٹرنیشنل ڈارک ویب کا سرغنہ ہے اور اس نے پاکستان میں 30 بچوں کو ریپ کرنے کا اعتراف کیا ہے، پولیس افسر کا مزید کہنا تھا کہ ملزم سہیل ایاز بچوں کو بدفعلی کا نشانہ بنانے کے جرم میں برطانیہ میں جیل کی سزا بھگت چکا ہے جہاں سے اسے ڈی پورٹ کردیا گیا تھا جبکہ ملزم کے خلاف اٹلی میں بھی بچوں سے بدفعلی کا مقدمہ چلایا گیا تھا جس کے بعد اسے وہاں سے بھی ڈی پورٹ کردیا گیا تھا۔
بعد ازاں سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) صدر رائے مظہر نے بتایا کہ ملزم سہیل ایاز اسلام آباد کے علاقے نیلور کا رہائشی ہے جس کی 9 سال قبل شادی ختم ہوگئی تھی اور اس کے اہلخانہ بھی اس سے اظہار لاتعلقی کر چکے ہیں، انہوں نے مزید بتایا تھا کہ ملزم چارٹرڈ اکاؤٹننٹ ہے اور انتہائی ذہین اور ڈارک ویب کو استعمال کرنے کا ماہر ہے۔
مزید پڑھیں: اگر ’سہیل ایاز‘ کل اسکول کھول لے تو؟
ان کا کہنا تھا کہ ملزم خیبرپختونخوا کے سول سیکرٹریٹ پلاننگ ڈیپارٹمنٹ کو کنسلٹینسی دے رہا تھا اور سرکار سے ماہانہ 3 لاکھ روپے تنخواہ بھی لے رہا ہے اس کے علاوہ ملزم برطانیہ میں بین الاقوامی شہرت کے حامل فلاحی ادارے میں بھی ملازمت کرچکا ہے۔
دوسرے ہی روز راولپنڈی پولیس نے بچوں سے بدفعلی کر کے ان کی ویڈیو بنانے والے ملزم سہیل ایاز کو عدالت میں پیش کرکے ملزم کا جسمانی ریمانڈ حاصل کرلیا تھا۔
اعترافی بیان دباؤ کے تحت دلوایا گیا، والد ملزم
ملزم سہیل ایاز کے والد ایاز نے بتایا تھا کہ پولیس نے ان کے بیٹے پر بے بنیاد الزامات لگائے ہیں جبکہ ملزم کے اہلخانہ کا اس سے اظہار لاتعلقی کے پولیس کے دعوے کی نفی کرتے ہوئے ملزم کے والد کا کہنا تھا کہ 'میں نے اپنے بیٹے کو عاق نہیں کیا ہے، جو ایف آئی آر دی گئی وہ جھوٹی ہے'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'سہیل ایاز نے اعترافی بیان دباؤ کے تحت دیا ہے، اس کے علاوہ بیرون ملک جو کیسز سہیل ایاز پر بنے وہ معمولی نوعیت کے تھے'۔
ملازمت سے فارغ
اسی روز خیبرپختونخوا حکومت نے ملزم سہیل ایاز کو سیکریٹریٹ پلاننگ ڈپارٹمنٹ میں بطور کنسلٹنسی کے عہدے سے برطرف کردیا تھا۔
یہاں یہ بات واضح رہے کہ سہیل ایاز 2017 سے کے پی حکومت کے ساتھ عالمی بینک کے ترقیاتی منصوبے میں بطور کنسلٹنٹ خدمات انجام دے رہا تھے۔
ملزم کی نشاندہی پر ایک اور بچہ برآمد
15 نومبر 2019 کو راولپنڈی پولیس نے انٹرنیشنل ڈارک ویب کے ملزم سہیل ایاز کی نشاندہی پر 12 سالہ بچے کو برآمد کیا تھا، پولیس افسر فیصل رانا نے تصدیق کی تھی کہ سہیل ایاز کے ہاتھوں اغوا ہونے والے 12 سالہ عدیل خان کو برآمد جبکہ ایک ملزم خرم کالا کو گرفتار کرلیا گیا۔
پولیس افسر کے مطابق انٹرنیشنل ڈارک ویب کے ملزم سہیل ایاز نے بچے کو ’آئس‘ پلا کر بدفعلی کی، ان کا کہنا تھا کہ ابتدائی تفتیش کے مطابق سہیل ایاز نے بچے کو 2 ماہ تک اپنے پاس رکھا تھا۔
بیرون ملک سزائیں
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی اردو کی رپورٹ کے مطابق سہیل ایاز کو 2009 میں ایک برطانوی عدالت نے ایک 14 سالہ بچے کے ریپ کے اعتراف کے بعد چار سال قید کی سزا سنائی تھی، اس کے علاوہ ملزم نے عدالت میں اس بچے کی تصاویر تقسیم کرنے اور 397 دیگر غیر اخلاقی تصاویر اپنے پاس موجود ہونے کا بھی اعتراف کیا تھا۔
یاد رہے کہ وہ بچوں کی فلاح کے لیے کام کرنے والی برطانوی تنظیم ’سیو دی چلڈرن‘ کے سابق ملازم بھی ہیں جبکہ سہیل ایاز کے تعلقات رومانیہ کے ایک ایسے گروہ سے بھی ہیں جو بچوں سے زیادتی میں ملوث پائے گئے تھے۔
سنہ 2008 میں برطانیہ میں ورک ویزا کے ذریعے داخل ہونے والے سہیل ایاز کو فروری 2009 میں اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب اٹلی کے شہر روم کی پولیس نے ایک بچوں سے زیادتی کرنے والے ایک اطالوی شخص کے خلاف تحقیقات شروع کی تھیں۔
پولیس کو معلوم ہوا تھا کہ سہیل ایاز نے اطالوی ملزم کو 15 رومانیئن بچوں کی تفصیلات فراہم کی تھیں، سہیل مبینہ طور پر بچوں سے زیادتی کرنے والے ایک سوئیڈش شخص کے مڈل مین تھے جن کا کہنا تھا کہ وہ زیادتی کرنے کے لیے رومانیئن بچے فراہم کر سکتے ہیں۔
اطالوی پولیس نے برطانوی پولیس کو خبردار کیا تھا جس کے بعد ان کے خلاف برطانیہ میں تحقیقات شروع ہوئیں، جس کے بعد برطانوی پولیس نے کارروائی کی اور سہیل ایاز کے فلیٹ سے 2000 سے زائد غیر اخلاقی تصاویر اور ویڈیوز برآمد کی گئیں، جن میں نہایت کم عمر بچوں اور زیادتی کا نشانہ بنائے گئے بچوں کی تصاویر بھی شامل تھیں۔
جس کے بعد پولیس حکام کے مطابق برطانوی حکومت نے سہیل ایاز کو جولائی 2009 میں اٹلی کی حکومت کے حوالے کیا تھا۔
تھانہ روات کے ایس ایچ او کاشف محمود نے بتایا تھا کہ ملزم سہیل ایاز نے دوران تفتیش پولیس کو بتایا کہ وہ اب تک پاکستان میں 30 بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنا چکا ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ اس امکان کو مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ ملزم کے ساتھ دیگر افراد بھی کام کر رہے تھے اور اس گینگ میں شامل دیگر افراد کی گرفتاری سے متعلق فیصلہ تفتیش کے دوران ہونے والی پیش رفت کے بعد کیا جائے گا۔
سہیل ایاز کی گرفتاری سے قبل 2017 میں ایک ایسا ملزم گرفتار ہوا تھا کہ جس کے انکشافات نے تعلمی اداروں میں اپنے بچوں کو حصول تعلیم کے لیے بھیجنے والے والدین کو اس اقدام سے قبل کئی مرتبہ سوچنے پر مجبور کردیا تھا۔
ڈان اخبار میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق 12 اپریل 2017 کو وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم ونگ نے سرگودھا سے بچوں کی نازیبا ویڈیوز بنا کر فروخت کرنے والے شخص کو گرفتار کرکے اس کا لیپ ٹاپ اور کمپیوٹر قبضے میں لے لیا تھا۔
گرفتار ہونے والے 45 سالہ ملزم سعادت امین نے تفتیش کاروں کے سامنے اعتراف کیا تھا کہ کمپیوٹر کی تعلیم کے نام پر اس نے 25 بچوں کو جھانسہ دے کر اس گھناؤنے کام میں استعمال کیا تھا۔
سائبر کرائم ونگ کے ہیڈ ڈپٹی ڈائریکٹر شاہد حسن کا کہنا تھا کہ ایجنسی کی جانب سے ملک میں پکڑا جانے والا یہ اسکینڈل اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا۔
تفتیش کے دوران سعادت امین نے انکشاف کیا تھا کہ وہ گزشتہ چند سالوں سے بچوں کی غیر اخلاقی ویڈیوز انٹرنیٹ پر فروخت کررہا ہے، امین بچوں کو کمپیوٹر کی تعلیم دینے کا جھانسہ دے کر اس کام میں استعمال کرتا تھا۔
تفتیش کار اسسٹنٹ ڈائریکٹر آصف اقبال نے ڈان سے گفتگو میں بتایا تھا کہ ملزم نے متاثرہ بچوں کے والدین کو یہ کہہ کر 3 ہزار سے 5 ہزار روپے بھی ادا کیے کہ وہ اپنے ایک کمرے کے گھر میں انہیں کمپیوٹر سافٹ ویئر اور ہارڈ ویئر سکھائے گا۔
واضح رہے کہ ملزم کی گرفتاری ناروے کے سفارت خانے کی جانب سے ایک خط کے ذریعے موصول ہونے والی اطلاع کے بعد عمل میں آئی تھی جس کے بعد ایف آئی اے نے معاملے کی تحقیقات کا سلسلہ شروع کیا تھا۔
واضح رہے کہ اس خط میں سائبر کرائم ونگ کو آگاہ کیا گیا تھا ناروے کی پولیس نے بچوں کی غیر اخلاقی ویڈیوز بنانے کے معاملے پر ایک شخص کو حراست میں لیا ہے جبکہ سعادت امین بھی اس شخص کے ساتھیوں میں سے ایک ہے۔
یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی (یو ای ٹی) کے ٹیکسلا کیمپس سے گریجویشن کرنے والا سعادت امین منڈی بہاؤالدین کے علاقے ملکوال کا رہائشی ہے، بعد ازاں سعادت ملکوال سے سرگودھا روانہ ہوا، جہاں اس نے اس گھناؤنے کام کا آغاز کیا۔
تفتیش کے دوران ملزم کا مزید کہنا تھا کہ ناروے سے تعلق رکھنے والے جیمز نامی شخص سے اس کا پہلا رابطہ انٹرنیٹ کے ذریعے ہوا اور اسی شخص نے اسے ’چائلڈ پورن انڈسٹری‘ سے متعلق آگاہ کیا تھا۔
سعادت امین نے کہا کہ ’جیمز نوجوان لڑکوں کی ویڈیوز کے عوض 100 سے 400 ڈالر ادا کیا کرتا تھا جبکہ وہ نہ صرف اپنی بنائی ہوئی ویڈیوز بلکہ روسی اور بنگلادیشی پورن ویب سائٹس کے سرورز سے چرائی گئی ویڈیوز بھی ناروے اور سویڈن کے خریداروں کو فروخت کیا کرتا تھا‘۔
تفتیش کار آصف اقبال کا کہنا تھا کہ اب تک ایف آئی اے ملزم کی تحویل سے 65 ہزار نازیبا ویڈیوز برآمد کرچکا ہے جو اس نے غیر ملکی ویب سائٹس سے ہیک کی تھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ملزم ہیکنگ کے عمل سے اچھی طرح واقف ہے جبکہ اپنے مجرمانہ ریکارڈ کو خفیہ رکھنے کے لیے اس نے سرگودھا کے پولیس اہلکاروں سے بھی تعلقات قائم کر رکھے تھے‘۔
علاوہ ازیں دوران تفتیش بنائی گئی ملزم کی ایک ویڈیو میں ملزم کو یہ کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے کہ وہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی ویڈیوز بنا کر یورپی ممالک میں اپنے کلائنٹ کو فروخت کرتا تھا جس کے عوض اسے 100 سے 200 یورو (10 ہزار سے 20 ہزار پاکستانی روپے) ادا کیے جاتے تھے۔
30 نومبر 2019 کو فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی آے) کے سائبر کرائم سرکل نے خیبرپختونخوا کے علاقے ایبٹ آباد میں کارروائی کرتے ہوئے بچوں کی غیراخلاقی ویڈیوز بنانے والے بین الاقوامی گروپ کے رکن کو گرفتار کیا تھا۔
ایف آئی اے حکام کے مطابق ملزم وقار احمد کے واٹس ایپ نمبر کی معلومات انٹرپول اسپین نے فراہم کی تھیں، مزید بتایا گیا تھا کہ تربیلا میں ملزم وقار احمد کے گھر پر چھاپہ مار کر اسے گرفتار کیا گیا تھا۔
ایف آئی اے حکام نے دعویٰ کیا کہ ملزم غیر اخلاقی ویڈیوز بنانے والے بین الاقوامی گروپ سے رابطے میں تھا اور وہ ملزم بچوں کی غیر اخلاقی ویڈیوز کو سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرتا تھا۔
حکام کے مطابق گرفتاری کے وقت ملزم سے موبائل فون اور دیگر ڈیجیٹل آلات برآمد کیے گئے اور موبائل فون اور دیگر آلات سے غیر اخلاقی ویڈیوز بھی برآمد کی گئی تھیں۔
کراچی سے ملزم گرفتار
اسی روز ایف آئی اے نے دعویٰ کیا تھا کہ کراچی کے علاقے میٹروول سے ایک نوجوان کو مبینہ طور پر بچوں کی غیر اخلاقی ویڈیوز بنانے کے گھناونے عمل میں ملوث ہونے پر گرفتار کیا گیا، ایف آئی اے سائبر کرائم کے ڈپٹی ڈائریکٹر عبدالغفار کے مطابق ایجنسی کو ایک شہری کی جانب سے 27 نومبر کو شکایت موصول ہوئی تھی جس کے بعد کارروائی عمل میں لائی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ گرفتاری کے بعد ان کے قبضے سے مختلف تصاویر اور بچوں کی غیر اخلاقی چند ویڈیوز بھی برآمد کی گئی تھیں جبکہ ملزم سے ابتدائی تفتیش کے دوران یہ بات سامنے آئی تھی کہ مشتبہ نوجوان نے 10 اور 13 سال کے عمر کے بچوں کی غیر اخلاقی تصاویر اور ویڈیوز بناتا تھا۔
ڈپٹی ڈائریکٹر عبدالغفار نے کہا کہ انہوں نے فیس بک اور انسٹا گرام کے کئی جعلی اکاؤنٹس بنا رکھے تھے اور وٹس ایپ پر بھی گروپ بنائے تھے جہاں وہ کم سن لڑکوں کو شامل کرتا تھا، ملزم کم سن لڑکوں کی فحش ویڈیوز بنانے کے بعد انہیں بلیک میل کرنے اور ان کے خاندان کو پیسے جمع کرنے کے لیے استعمال کرتا تھا۔
13 نومبر 2019 کو گوجرانوالہ میں احمد نگر تھانے کے علاقے دلاور چیمہ میں سی آئی اے پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے بچوں کے ریپ اور اس کی ویڈیوز بنانے والے ملزم کو گرفتار کیا تھا۔
پولیس کے مطابق ملزم ندیم درجنوں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور دیگر جرائم میں پولیس کو مطلوب تھا، انہوں نے بتایا کہ چھاپے کے دوران پولیس نے ملزم کے قبضے سے لیپ ٹاپ اور بد فعلی کی ویڈیوز برآمد کرکے قبضے میں لے لیں تھی۔
قصور کی رہائشی 6 سالہ زینب 4 جنوری 2018 کو لاپتہ ہوئی تھی اور 9 جنوری کو ایک کچرا کنڈی سے ان کی لاش ملی جس کے بعد ملک بھر میں شدید احتجاج اور غم و غصے کا اظہار کیا گیا تھا۔
اس وقت کے چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے واقعے کا ازخود نوٹس لیا تھا، اس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے بھی واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے پولیس کو ملزم کی فوری گرفتاری کی ہدایات جاری کی تھیں۔
پولیس نے 13 جنوری کو ڈی این اے کے ذریعے ملزم کی نشاندہی کی اور ملزم کو گرفتار کیا جس کے بعد 23 جنوری کو وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے لاہور میں زینب کے والد محمد امین کی موجودگی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ملزم عمران علی کی گرفتاری کا باقاعدہ اعلان کیا تھا۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ زینب زیادتی اور قتل کے واقعے کے بعد ملک کے معروف صحافی ڈاکٹر شاہد مسعود نے ایک پروگرام میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ ملزم عمران کا تعلق ایک ایسے گروہ کے ساتھ ہے جو بچوں کے ساتھ زیادتی کے علاوہ چائلڈ پورنو گرافی کے حوالے سے کام کررہا ہے تاہم وہ عدالت میں طلب کیے جانے پر اس کے ثبوت فراہم کرنے سے قاصر تھے۔ (اس کی مزید تفصیلات رپورٹ میں نیچے فراہم کردی گئی ہیں)
6 فروری 2019 کو قصور میں ریپ کے بعد قتل کی جانے والی زینب کے کیس میں پولیس نے اہم پیش رفت کرتے ہوئے مرکزی ملزم عمران کو مزید 7 بچیوں کے ریپ اور قتل کیسز میں نامزد کیا تھا۔
بعد ازاں 9 فروری کو عدالت نے گرفتار ملزم عمران علی کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل منتقل کردیا تھا۔
ٹرائل کے دوران ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نے عدالت کو بتایا تھا کہ ملزم عمران کو زینب قتل کیس میں ڈی این اے میچ ہونے کے بعد گرفتار کیا گیا جس کے بعد ملزم عمران کا جسمانی ریمانڈ دیا گیا تھا۔
6 سالہ بچی زینب کے کیس میں لاہور کی انسدادِ دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) نے 17 فروری 2018 کو عمران علی پر جرم ثابت ہونے پر انہیں 4 مرتبہ سزائے موت، تاحیات اور 7 سالہ قید کے علاوہ 41 لاکھ روپے جرمانے کا فیصلہ سنایا تھا۔
زینب سمیت دیگر بچیوں کے قاتل عمران علی کو مجموعی طور پر 21 مرتبہ سزائے موت، عمر قید اور جرمانے کی سزائیں سنائی گئی تھیں۔
عدالت نے دوسرے مقدمے کائنات بتول کیس میں مجرم کو 3 بار عمر قید اور 23 سال قید کی سزا سنائی تھی، ساتھ ہی عدالت نے مجرم کو 25 لاکھ جرمانہ اور 20 لاکھ 55 ہزار دیت ادا کرنے کا بھی حکم دیا تھا۔
اس سے قبل عدالت نے 5 سالہ تہمینہ، 6 سالہ ایمان فاطمہ، 6 سالہ عاصمہ، عائشہ آصف، لائبہ اور 7 سالہ نور فاطمہ کے ساتھ زیادتی اور قتل کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے مجرم کو 5 مقدمات میں 21 مرتبہ سزائے موت کا فیصلہ سنایا تھا۔
مجرم عمران علی نے انسداد دہشت گردی عدالت کی جانب سے دی گئی سزا کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی تھی لیکن لاہور ہائی کورٹ نے مجرم عمران کے خلاف انسداد دہشت گردی عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھا تھا۔
بعد ازاں مجرم عمران نے ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا اور عدالت عظمیٰ سے بھی مجرم عمران علی کے خلاف انسداد دہشت گردی عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھا گیا اور 17 اکتوبر 2018 کو اس سزا پر عمل درآمد کر دیا گیا۔
لاہور میں مجرم عمران علی کو تختہ دار پر لٹکائے جانے کے بعد زینب کے والد محمد امین انصاری نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ آج انصاف کے تقاضے پورے ہوئے تاہم سرعام پھانسی دی جاتی تو مجرم عمران عبرت کا نشان بن جاتا۔
تاہم جاوید اقبال، قصور ویڈیو اسکینڈل اور زینب زیادتی اور قتل کیس جیسے واقعات سے بھی ہمارے مقتدر حلقوں نے کچھ نہ سیکھا اور نہ ہی ان واقعات کے بعد حکومت بچوں کو ایسے جنسی درندوں سے بچانے کے لیے کوئی سنجیدہ نوعیت کے اقدامات اٹھاسکی۔
ایسے میں بچوں سے زیادتی اور ان کے قتل کا ایک اور افسوس ناک واقعہ رونما ہوا اور قصور ہی کے علاقے چونیاں سے 3 بچوں کی لاشیں برآمد ہوئیں۔
17 ستمبر 2019 کو صوبہ پنجاب کے شہر قصور سے لاپتہ ہونے والے 3 بچوں کی لاشیں تحصیل چونیاں کے انڈسٹریل اسٹیٹ کے علاقے سے برآمد ہوئی تھیں، جس پر وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے نوٹس لیتے ہوئے آئی جی پنجاب سے رپورٹ طلب کی تھی۔
ابتدائی طور پر مقتول بچوں کے حوالے سے بتایا گیا تھا کہ دو بچوں کی باقیات اور ایک بچے کی لاش چونیاں انڈسٹریل اسٹیٹ کے علاقے سے ملی اور ساتھ ہی خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ بچوں کو مبینہ طور پر زیادتی کے بعد قتل کر کے ان کی لاشیں پھینکی گئیں۔
پولیس نے لاشیں تحویل میں لے کر شواہد اکٹھے کیے تھے اور واقعے کی تحقیقات شروع کردی تھی۔
پولیس نے واقعے کے حوالے سے بتایا تھا کہ دو بچے بالترتیب 2 اگست اور 8 اگست کو غائب ہوئے تھے اور ان کی ایف آئی آر درج کر کے معاملے کی تفتیش شروع کی گئی تھی جبکہ ایک بچہ 16 ستمبر کو لاپتہ ہوا تھا جس کی لاش بعد ازاں 17 ستمبر کو ملی۔
واقعے کے دوسرے ہی روز قصور میں 3 بچوں کے قتل پر شہریوں نے متعلقہ پولیس اسٹیشن کے سامنے احتجاج کیا تھا اور ملزمان کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کیا گیا تھا، 20 ستمبر 2019 کو یہ رپورٹ سامنے آئی تھی کہ واقعے کی تحقیقات کے لیے پولیس نے قصور شہر کے تمام افراد کا ڈی این اے ٹیسٹ کرانے کا فیصلہ کیا۔
21 ستمبر کو متاثرہ بچوں کے اہلخانہ سے تعزیت کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے قصور کی تحصیل چونیاں میں 3 بچوں کے قاتل کے سر کی قیمت 50 لاکھ مقرر کی تھی۔
یکم اکتوبر 2019 کو وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ سانحہ چونیاں میں بچوں کے ساتھ درندگی کرنے والے ملزم کی شناخت سہیل شہزاد کے نام سے ہوئی جسے گرفتار کر لیا۔
ان کا کہنا تھا کہ سانحہ چونیاں میں بچوں کے ساتھ زیادتی اور قتل کرنے والے ملزم سہیل شہزاد کا ڈی این اے بچوں کے کپڑوں سے ملنے والے ڈی این اے سے میچ کر گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ 'واقعے کی تحقیقات میں ایک ہزار 649 ریکارڈ یافتہ ملزمان کی جیوفینسنگ کی گئی اور ایک ہزار 543 افراد کے ڈی این اے ٹیسٹ کیے گئے جس سے معلوم ہوا کہ بچوں کے ساتھ زیادتی اور انہیں قتل کرنے والا سیریل کلر یہی ہے'۔
وزیراعلیٰ نے مزید بتایا تھا کہ '27 سالہ ملزم رانا ٹاؤن کا رہائشی اور لاہور میں تندور پر روٹیاں لگاتا تھا، جون، اگست اور ستمبر میں بچوں کے ساتھ زیادتی ہوئی اور انہیں قتل کیا گیا جبکہ ملزم کو رحیم یار خان سے گرفتار کیا گیا'۔
دوسرے ہی روز لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے پنجاب کے علاقے چونیاں میں 4 بچوں کے قتل کے ملزم کو تفتیش کے لیے 15 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا تھا۔
بعد ازاں 2 دسمبر 2019 کو بچوں کو زیادتی کے بعد قتل کے واقعات پر مقدمات کی سماعت لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں شروع ہوئی تھی جبکہ ملزم سہیل شہزاد پر فرد جرم عائد کیے جانے سے متعلق بتایا گیا تھا کہ 9 دسمبر کو عائد کردی جائے گی۔
17 دسمبر 2019 کو لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے چونیاں میں بچوں سے زیادتی کے بعد انہیں قتل کرنے کے الزام میں گرفتار ملزم سہیل شہزاد کے خلاف فیصلہ سناتے ہوئے تین دفعہ سزائے موت دینے کا حکم دیا تھا۔
یہ وہ بڑے واقعات ہیں جو منظر عام پر آئے اور انہوں نے شہریوں اور سوسائٹی کی نا صرف تشویش میں اضافہ کیا بلکہ معاشرے میں ہونے والے گھناؤنے جرم سے بھی پردہ ہٹایا، ان کیسز کے سامنے آنے کے بعد جہاں حکومت سے ملوث ملزمان کے خلاف سخت سے سخت کارروائی عمل میں لانے کا مطالبہ کیا جاتا رہا وہیں حکومت کے نمائندوں کی جانب سے شہریوں کو یہ باور کرایا جاتا رہا کہ اسے واقعات کی روک تھام کے لیے سخت سے سخت قانون سازی کی جائے گی لیکن ان سب کے باوجود سال 2019 میں ایک نیا واقعہ سامنے آیا۔
یہ واقعہ تھا خیبرپختونخوا کے مشیر سہیل ایاز کی گرفتاری کا، رپورٹ کے ابتدا میں ملزم کا مختصر ذکر کیا گیا ہے تاہم آپ کو اس حوالے سے مزید تفصیلات سے آگاہ کررہے ہیں کہ نا صرف ملزم خود بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں ملوث رہا بلکہ وہ ان سے زیادتی کے دوران بنائی گئی تصاویر اور ویڈیوز انٹرنیٹ کے ایک ایسے مقام پر جہاں ہر کسی کو رسائی حاصل کرنا آسان نہیں یعنی 'ڈارک ویب' تک پہنچاتا تھا۔
سہیل ایاز کی گرفتاری کیسے ہوئی؟
12 نومبر 2019 کو راولپنڈی پولیس نے بچوں سے بدفعلی کر کے ان کی ویڈیو بنانے کے الزام میں سہیل ایاز نامی شخص کو گرفتار کیا تھا، اس حوالے سے پولیس افسر فیصل رانا نے ڈان کو بتایا تھا کہ روات پولیس اسٹیشن میں ایک 13 سالہ لڑکے کی ماں کی شکایت پر مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
سی پی او کے مطابق شکایت کنندہ کا کہنا تھا کہ ان کا بیٹا قہوہ فروخت کرتا ہے جسے ملزم زبردستی اپنی گاڑی میں بحریہ ٹاؤن راولپنڈی میں موجود ایک مکان میں لے گیا اور اسے منشیات دے کر 4 روز تک ریپ کرتا رہا۔
درج کیے گئے مقدمے کے مطابق ملزم نے لڑکے کے ریپ کی ویڈیو بھی بنائی اور اس واقعے کے بارے میں کسی کو بتانے کی صورت میں ویڈیو جاری کرنے کی دھمکی بھی دی۔
ملزم کے خلاف درج مقدمے میں اغوا، زہر دینے، کسی کو نقصان پہنچانے، غلام بنانے اور غیر فطری عمل کی دفعات لگائی گئیں۔
اس حوالے سے رانا فیصل کا مزید کہنا تھا کہ مذکورہ ملزم انٹرنیشنل ڈارک ویب کا سرغنہ ہے اور اس نے پاکستان میں 30 بچوں کو ریپ کرنے کا اعتراف کیا ہے، پولیس افسر کا مزید کہنا تھا کہ ملزم سہیل ایاز بچوں کو بدفعلی کا نشانہ بنانے کے جرم میں برطانیہ میں جیل کی سزا بھگت چکا ہے جہاں سے اسے ڈی پورٹ کردیا گیا تھا جبکہ ملزم کے خلاف اٹلی میں بھی بچوں سے بدفعلی کا مقدمہ چلایا گیا تھا جس کے بعد اسے وہاں سے بھی ڈی پورٹ کردیا گیا تھا۔
بعد ازاں سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) صدر رائے مظہر نے بتایا کہ ملزم سہیل ایاز اسلام آباد کے علاقے نیلور کا رہائشی ہے جس کی 9 سال قبل شادی ختم ہوگئی تھی اور اس کے اہلخانہ بھی اس سے اظہار لاتعلقی کر چکے ہیں، انہوں نے مزید بتایا تھا کہ ملزم چارٹرڈ اکاؤٹننٹ ہے اور انتہائی ذہین اور ڈارک ویب کو استعمال کرنے کا ماہر ہے۔
مزید پڑھیں: اگر ’سہیل ایاز‘ کل اسکول کھول لے تو؟
ان کا کہنا تھا کہ ملزم خیبرپختونخوا کے سول سیکرٹریٹ پلاننگ ڈیپارٹمنٹ کو کنسلٹینسی دے رہا تھا اور سرکار سے ماہانہ 3 لاکھ روپے تنخواہ بھی لے رہا ہے اس کے علاوہ ملزم برطانیہ میں بین الاقوامی شہرت کے حامل فلاحی ادارے میں بھی ملازمت کرچکا ہے۔
دوسرے ہی روز راولپنڈی پولیس نے بچوں سے بدفعلی کر کے ان کی ویڈیو بنانے والے ملزم سہیل ایاز کو عدالت میں پیش کرکے ملزم کا جسمانی ریمانڈ حاصل کرلیا تھا۔
اعترافی بیان دباؤ کے تحت دلوایا گیا، والد ملزم
ملزم سہیل ایاز کے والد ایاز نے بتایا تھا کہ پولیس نے ان کے بیٹے پر بے بنیاد الزامات لگائے ہیں جبکہ ملزم کے اہلخانہ کا اس سے اظہار لاتعلقی کے پولیس کے دعوے کی نفی کرتے ہوئے ملزم کے والد کا کہنا تھا کہ 'میں نے اپنے بیٹے کو عاق نہیں کیا ہے، جو ایف آئی آر دی گئی وہ جھوٹی ہے'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'سہیل ایاز نے اعترافی بیان دباؤ کے تحت دیا ہے، اس کے علاوہ بیرون ملک جو کیسز سہیل ایاز پر بنے وہ معمولی نوعیت کے تھے'۔
ملازمت سے فارغ
اسی روز خیبرپختونخوا حکومت نے ملزم سہیل ایاز کو سیکریٹریٹ پلاننگ ڈپارٹمنٹ میں بطور کنسلٹنسی کے عہدے سے برطرف کردیا تھا۔
یہاں یہ بات واضح رہے کہ سہیل ایاز 2017 سے کے پی حکومت کے ساتھ عالمی بینک کے ترقیاتی منصوبے میں بطور کنسلٹنٹ خدمات انجام دے رہا تھے۔
ملزم کی نشاندہی پر ایک اور بچہ برآمد
15 نومبر 2019 کو راولپنڈی پولیس نے انٹرنیشنل ڈارک ویب کے ملزم سہیل ایاز کی نشاندہی پر 12 سالہ بچے کو برآمد کیا تھا، پولیس افسر فیصل رانا نے تصدیق کی تھی کہ سہیل ایاز کے ہاتھوں اغوا ہونے والے 12 سالہ عدیل خان کو برآمد جبکہ ایک ملزم خرم کالا کو گرفتار کرلیا گیا۔
پولیس افسر کے مطابق انٹرنیشنل ڈارک ویب کے ملزم سہیل ایاز نے بچے کو ’آئس‘ پلا کر بدفعلی کی، ان کا کہنا تھا کہ ابتدائی تفتیش کے مطابق سہیل ایاز نے بچے کو 2 ماہ تک اپنے پاس رکھا تھا۔
بیرون ملک سزائیں
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی اردو کی رپورٹ کے مطابق سہیل ایاز کو 2009 میں ایک برطانوی عدالت نے ایک 14 سالہ بچے کے ریپ کے اعتراف کے بعد چار سال قید کی سزا سنائی تھی، اس کے علاوہ ملزم نے عدالت میں اس بچے کی تصاویر تقسیم کرنے اور 397 دیگر غیر اخلاقی تصاویر اپنے پاس موجود ہونے کا بھی اعتراف کیا تھا۔
یاد رہے کہ وہ بچوں کی فلاح کے لیے کام کرنے والی برطانوی تنظیم ’سیو دی چلڈرن‘ کے سابق ملازم بھی ہیں جبکہ سہیل ایاز کے تعلقات رومانیہ کے ایک ایسے گروہ سے بھی ہیں جو بچوں سے زیادتی میں ملوث پائے گئے تھے۔
سنہ 2008 میں برطانیہ میں ورک ویزا کے ذریعے داخل ہونے والے سہیل ایاز کو فروری 2009 میں اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب اٹلی کے شہر روم کی پولیس نے ایک بچوں سے زیادتی کرنے والے ایک اطالوی شخص کے خلاف تحقیقات شروع کی تھیں۔
پولیس کو معلوم ہوا تھا کہ سہیل ایاز نے اطالوی ملزم کو 15 رومانیئن بچوں کی تفصیلات فراہم کی تھیں، سہیل مبینہ طور پر بچوں سے زیادتی کرنے والے ایک سوئیڈش شخص کے مڈل مین تھے جن کا کہنا تھا کہ وہ زیادتی کرنے کے لیے رومانیئن بچے فراہم کر سکتے ہیں۔
اطالوی پولیس نے برطانوی پولیس کو خبردار کیا تھا جس کے بعد ان کے خلاف برطانیہ میں تحقیقات شروع ہوئیں، جس کے بعد برطانوی پولیس نے کارروائی کی اور سہیل ایاز کے فلیٹ سے 2000 سے زائد غیر اخلاقی تصاویر اور ویڈیوز برآمد کی گئیں، جن میں نہایت کم عمر بچوں اور زیادتی کا نشانہ بنائے گئے بچوں کی تصاویر بھی شامل تھیں۔
جس کے بعد پولیس حکام کے مطابق برطانوی حکومت نے سہیل ایاز کو جولائی 2009 میں اٹلی کی حکومت کے حوالے کیا تھا۔
تھانہ روات کے ایس ایچ او کاشف محمود نے بتایا تھا کہ ملزم سہیل ایاز نے دوران تفتیش پولیس کو بتایا کہ وہ اب تک پاکستان میں 30 بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنا چکا ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ اس امکان کو مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ ملزم کے ساتھ دیگر افراد بھی کام کر رہے تھے اور اس گینگ میں شامل دیگر افراد کی گرفتاری سے متعلق فیصلہ تفتیش کے دوران ہونے والی پیش رفت کے بعد کیا جائے گا۔
سہیل ایاز کی گرفتاری سے قبل 2017 میں ایک ایسا ملزم گرفتار ہوا تھا کہ جس کے انکشافات نے تعلمی اداروں میں اپنے بچوں کو حصول تعلیم کے لیے بھیجنے والے والدین کو اس اقدام سے قبل کئی مرتبہ سوچنے پر مجبور کردیا تھا۔
ڈان اخبار میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق 12 اپریل 2017 کو وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم ونگ نے سرگودھا سے بچوں کی نازیبا ویڈیوز بنا کر فروخت کرنے والے شخص کو گرفتار کرکے اس کا لیپ ٹاپ اور کمپیوٹر قبضے میں لے لیا تھا۔
گرفتار ہونے والے 45 سالہ ملزم سعادت امین نے تفتیش کاروں کے سامنے اعتراف کیا تھا کہ کمپیوٹر کی تعلیم کے نام پر اس نے 25 بچوں کو جھانسہ دے کر اس گھناؤنے کام میں استعمال کیا تھا۔
سائبر کرائم ونگ کے ہیڈ ڈپٹی ڈائریکٹر شاہد حسن کا کہنا تھا کہ ایجنسی کی جانب سے ملک میں پکڑا جانے والا یہ اسکینڈل اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا۔
تفتیش کے دوران سعادت امین نے انکشاف کیا تھا کہ وہ گزشتہ چند سالوں سے بچوں کی غیر اخلاقی ویڈیوز انٹرنیٹ پر فروخت کررہا ہے، امین بچوں کو کمپیوٹر کی تعلیم دینے کا جھانسہ دے کر اس کام میں استعمال کرتا تھا۔
تفتیش کار اسسٹنٹ ڈائریکٹر آصف اقبال نے ڈان سے گفتگو میں بتایا تھا کہ ملزم نے متاثرہ بچوں کے والدین کو یہ کہہ کر 3 ہزار سے 5 ہزار روپے بھی ادا کیے کہ وہ اپنے ایک کمرے کے گھر میں انہیں کمپیوٹر سافٹ ویئر اور ہارڈ ویئر سکھائے گا۔
واضح رہے کہ ملزم کی گرفتاری ناروے کے سفارت خانے کی جانب سے ایک خط کے ذریعے موصول ہونے والی اطلاع کے بعد عمل میں آئی تھی جس کے بعد ایف آئی اے نے معاملے کی تحقیقات کا سلسلہ شروع کیا تھا۔
واضح رہے کہ اس خط میں سائبر کرائم ونگ کو آگاہ کیا گیا تھا ناروے کی پولیس نے بچوں کی غیر اخلاقی ویڈیوز بنانے کے معاملے پر ایک شخص کو حراست میں لیا ہے جبکہ سعادت امین بھی اس شخص کے ساتھیوں میں سے ایک ہے۔
یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی (یو ای ٹی) کے ٹیکسلا کیمپس سے گریجویشن کرنے والا سعادت امین منڈی بہاؤالدین کے علاقے ملکوال کا رہائشی ہے، بعد ازاں سعادت ملکوال سے سرگودھا روانہ ہوا، جہاں اس نے اس گھناؤنے کام کا آغاز کیا۔
تفتیش کے دوران ملزم کا مزید کہنا تھا کہ ناروے سے تعلق رکھنے والے جیمز نامی شخص سے اس کا پہلا رابطہ انٹرنیٹ کے ذریعے ہوا اور اسی شخص نے اسے ’چائلڈ پورن انڈسٹری‘ سے متعلق آگاہ کیا تھا۔
سعادت امین نے کہا کہ ’جیمز نوجوان لڑکوں کی ویڈیوز کے عوض 100 سے 400 ڈالر ادا کیا کرتا تھا جبکہ وہ نہ صرف اپنی بنائی ہوئی ویڈیوز بلکہ روسی اور بنگلادیشی پورن ویب سائٹس کے سرورز سے چرائی گئی ویڈیوز بھی ناروے اور سویڈن کے خریداروں کو فروخت کیا کرتا تھا‘۔
تفتیش کار آصف اقبال کا کہنا تھا کہ اب تک ایف آئی اے ملزم کی تحویل سے 65 ہزار نازیبا ویڈیوز برآمد کرچکا ہے جو اس نے غیر ملکی ویب سائٹس سے ہیک کی تھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ملزم ہیکنگ کے عمل سے اچھی طرح واقف ہے جبکہ اپنے مجرمانہ ریکارڈ کو خفیہ رکھنے کے لیے اس نے سرگودھا کے پولیس اہلکاروں سے بھی تعلقات قائم کر رکھے تھے‘۔
علاوہ ازیں دوران تفتیش بنائی گئی ملزم کی ایک ویڈیو میں ملزم کو یہ کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے کہ وہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی ویڈیوز بنا کر یورپی ممالک میں اپنے کلائنٹ کو فروخت کرتا تھا جس کے عوض اسے 100 سے 200 یورو (10 ہزار سے 20 ہزار پاکستانی روپے) ادا کیے جاتے تھے۔
30 نومبر 2019 کو فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی آے) کے سائبر کرائم سرکل نے خیبرپختونخوا کے علاقے ایبٹ آباد میں کارروائی کرتے ہوئے بچوں کی غیراخلاقی ویڈیوز بنانے والے بین الاقوامی گروپ کے رکن کو گرفتار کیا تھا۔
ایف آئی اے حکام کے مطابق ملزم وقار احمد کے واٹس ایپ نمبر کی معلومات انٹرپول اسپین نے فراہم کی تھیں، مزید بتایا گیا تھا کہ تربیلا میں ملزم وقار احمد کے گھر پر چھاپہ مار کر اسے گرفتار کیا گیا تھا۔
ایف آئی اے حکام نے دعویٰ کیا کہ ملزم غیر اخلاقی ویڈیوز بنانے والے بین الاقوامی گروپ سے رابطے میں تھا اور وہ ملزم بچوں کی غیر اخلاقی ویڈیوز کو سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرتا تھا۔
حکام کے مطابق گرفتاری کے وقت ملزم سے موبائل فون اور دیگر ڈیجیٹل آلات برآمد کیے گئے اور موبائل فون اور دیگر آلات سے غیر اخلاقی ویڈیوز بھی برآمد کی گئی تھیں۔
کراچی سے ملزم گرفتار
اسی روز ایف آئی اے نے دعویٰ کیا تھا کہ کراچی کے علاقے میٹروول سے ایک نوجوان کو مبینہ طور پر بچوں کی غیر اخلاقی ویڈیوز بنانے کے گھناونے عمل میں ملوث ہونے پر گرفتار کیا گیا، ایف آئی اے سائبر کرائم کے ڈپٹی ڈائریکٹر عبدالغفار کے مطابق ایجنسی کو ایک شہری کی جانب سے 27 نومبر کو شکایت موصول ہوئی تھی جس کے بعد کارروائی عمل میں لائی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ گرفتاری کے بعد ان کے قبضے سے مختلف تصاویر اور بچوں کی غیر اخلاقی چند ویڈیوز بھی برآمد کی گئی تھیں جبکہ ملزم سے ابتدائی تفتیش کے دوران یہ بات سامنے آئی تھی کہ مشتبہ نوجوان نے 10 اور 13 سال کے عمر کے بچوں کی غیر اخلاقی تصاویر اور ویڈیوز بناتا تھا۔
ڈپٹی ڈائریکٹر عبدالغفار نے کہا کہ انہوں نے فیس بک اور انسٹا گرام کے کئی جعلی اکاؤنٹس بنا رکھے تھے اور وٹس ایپ پر بھی گروپ بنائے تھے جہاں وہ کم سن لڑکوں کو شامل کرتا تھا، ملزم کم سن لڑکوں کی فحش ویڈیوز بنانے کے بعد انہیں بلیک میل کرنے اور ان کے خاندان کو پیسے جمع کرنے کے لیے استعمال کرتا تھا۔
13 نومبر 2019 کو گوجرانوالہ میں احمد نگر تھانے کے علاقے دلاور چیمہ میں سی آئی اے پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے بچوں کے ریپ اور اس کی ویڈیوز بنانے والے ملزم کو گرفتار کیا تھا۔
پولیس کے مطابق ملزم ندیم درجنوں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور دیگر جرائم میں پولیس کو مطلوب تھا، انہوں نے بتایا کہ چھاپے کے دوران پولیس نے ملزم کے قبضے سے لیپ ٹاپ اور بد فعلی کی ویڈیوز برآمد کرکے قبضے میں لے لیں تھی۔
17 ستمبر 2019 کو صوبہ پنجاب کے شہر قصور سے لاپتہ ہونے والے 3 بچوں کی لاشیں تحصیل چونیاں کے انڈسٹریل اسٹیٹ کے علاقے سے برآمد ہوئی تھیں، جس پر وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے نوٹس لیتے ہوئے آئی جی پنجاب سے رپورٹ طلب کی تھی۔
ابتدائی طور پر مقتول بچوں کے حوالے سے بتایا گیا تھا کہ دو بچوں کی باقیات اور ایک بچے کی لاش چونیاں انڈسٹریل اسٹیٹ کے علاقے سے ملی اور ساتھ ہی خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ بچوں کو مبینہ طور پر زیادتی کے بعد قتل کر کے ان کی لاشیں پھینکی گئیں۔
پولیس نے لاشیں تحویل میں لے کر شواہد اکٹھے کیے تھے اور واقعے کی تحقیقات شروع کردی تھی۔
پولیس نے واقعے کے حوالے سے بتایا تھا کہ دو بچے بالترتیب 2 اگست اور 8 اگست کو غائب ہوئے تھے اور ان کی ایف آئی آر درج کر کے معاملے کی تفتیش شروع کی گئی تھی جبکہ ایک بچہ 16 ستمبر کو لاپتہ ہوا تھا جس کی لاش بعد ازاں 17 ستمبر کو ملی۔
واقعے کے دوسرے ہی روز قصور میں 3 بچوں کے قتل پر شہریوں نے متعلقہ پولیس اسٹیشن کے سامنے احتجاج کیا تھا اور ملزمان کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کیا گیا تھا، 20 ستمبر 2019 کو یہ رپورٹ سامنے آئی تھی کہ واقعے کی تحقیقات کے لیے پولیس نے قصور شہر کے تمام افراد کا ڈی این اے ٹیسٹ کرانے کا فیصلہ کیا۔
21 ستمبر کو متاثرہ بچوں کے اہلخانہ سے تعزیت کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے قصور کی تحصیل چونیاں میں 3 بچوں کے قاتل کے سر کی قیمت 50 لاکھ مقرر کی تھی۔
یکم اکتوبر 2019 کو وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ سانحہ چونیاں میں بچوں کے ساتھ درندگی کرنے والے ملزم کی شناخت سہیل شہزاد کے نام سے ہوئی جسے گرفتار کر لیا۔
ان کا کہنا تھا کہ سانحہ چونیاں میں بچوں کے ساتھ زیادتی اور قتل کرنے والے ملزم سہیل شہزاد کا ڈی این اے بچوں کے کپڑوں سے ملنے والے ڈی این اے سے میچ کر گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ 'واقعے کی تحقیقات میں ایک ہزار 649 ریکارڈ یافتہ ملزمان کی جیوفینسنگ کی گئی اور ایک ہزار 543 افراد کے ڈی این اے ٹیسٹ کیے گئے جس سے معلوم ہوا کہ بچوں کے ساتھ زیادتی اور انہیں قتل کرنے والا سیریل کلر یہی ہے'۔
وزیراعلیٰ نے مزید بتایا تھا کہ '27 سالہ ملزم رانا ٹاؤن کا رہائشی اور لاہور میں تندور پر روٹیاں لگاتا تھا، جون، اگست اور ستمبر میں بچوں کے ساتھ زیادتی ہوئی اور انہیں قتل کیا گیا جبکہ ملزم کو رحیم یار خان سے گرفتار کیا گیا'۔
دوسرے ہی روز لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے پنجاب کے علاقے چونیاں میں 4 بچوں کے قتل کے ملزم کو تفتیش کے لیے 15 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا تھا۔
بعد ازاں 2 دسمبر 2019 کو بچوں کو زیادتی کے بعد قتل کے واقعات پر مقدمات کی سماعت لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں شروع ہوئی تھی جبکہ ملزم سہیل شہزاد پر فرد جرم عائد کیے جانے سے متعلق بتایا گیا تھا کہ 9 دسمبر کو عائد کردی جائے گی۔
17 دسمبر 2019 کو لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے چونیاں میں بچوں سے زیادتی کے بعد انہیں قتل کرنے کے الزام میں گرفتار ملزم سہیل شہزاد کے خلاف فیصلہ سناتے ہوئے تین دفعہ سزائے موت دینے کا حکم دیا تھا۔
یہ وہ بڑے واقعات ہیں جو منظر عام پر آئے اور انہوں نے شہریوں اور سوسائٹی کی نا صرف تشویش میں اضافہ کیا بلکہ معاشرے میں ہونے والے گھناؤنے جرم سے بھی پردہ ہٹایا، ان کیسز کے سامنے آنے کے بعد جہاں حکومت سے ملوث ملزمان کے خلاف سخت سے سخت کارروائی عمل میں لانے کا مطالبہ کیا جاتا رہا وہیں حکومت کے نمائندوں کی جانب سے شہریوں کو یہ باور کرایا جاتا رہا کہ اسے واقعات کی روک تھام کے لیے سخت سے سخت قانون سازی کی جائے گی لیکن ان سب کے باوجود سال 2019 میں ایک نیا واقعہ سامنے آیا۔
یہ واقعہ تھا خیبرپختونخوا کے مشیر سہیل ایاز کی گرفتاری کا، رپورٹ کے ابتدا میں ملزم کا مختصر ذکر کیا گیا ہے تاہم آپ کو اس حوالے سے مزید تفصیلات سے آگاہ کررہے ہیں کہ نا صرف ملزم خود بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں ملوث رہا بلکہ وہ ان سے زیادتی کے دوران بنائی گئی تصاویر اور ویڈیوز انٹرنیٹ کے ایک ایسے مقام پر جہاں ہر کسی کو رسائی حاصل کرنا آسان نہیں یعنی 'ڈارک ویب' تک پہنچاتا تھا۔
سہیل ایاز کی گرفتاری کیسے ہوئی؟
12 نومبر 2019 کو راولپنڈی پولیس نے بچوں سے بدفعلی کر کے ان کی ویڈیو بنانے کے الزام میں سہیل ایاز نامی شخص کو گرفتار کیا تھا، اس حوالے سے پولیس افسر فیصل رانا نے ڈان کو بتایا تھا کہ روات پولیس اسٹیشن میں ایک 13 سالہ لڑکے کی ماں کی شکایت پر مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
سی پی او کے مطابق شکایت کنندہ کا کہنا تھا کہ ان کا بیٹا قہوہ فروخت کرتا ہے جسے ملزم زبردستی اپنی گاڑی میں بحریہ ٹاؤن راولپنڈی میں موجود ایک مکان میں لے گیا اور اسے منشیات دے کر 4 روز تک ریپ کرتا رہا۔
درج کیے گئے مقدمے کے مطابق ملزم نے لڑکے کے ریپ کی ویڈیو بھی بنائی اور اس واقعے کے بارے میں کسی کو بتانے کی صورت میں ویڈیو جاری کرنے کی دھمکی بھی دی۔
ملزم کے خلاف درج مقدمے میں اغوا، زہر دینے، کسی کو نقصان پہنچانے، غلام بنانے اور غیر فطری عمل کی دفعات لگائی گئیں۔
اس حوالے سے رانا فیصل کا مزید کہنا تھا کہ مذکورہ ملزم انٹرنیشنل ڈارک ویب کا سرغنہ ہے اور اس نے پاکستان میں 30 بچوں کو ریپ کرنے کا اعتراف کیا ہے، پولیس افسر کا مزید کہنا تھا کہ ملزم سہیل ایاز بچوں کو بدفعلی کا نشانہ بنانے کے جرم میں برطانیہ میں جیل کی سزا بھگت چکا ہے جہاں سے اسے ڈی پورٹ کردیا گیا تھا جبکہ ملزم کے خلاف اٹلی میں بھی بچوں سے بدفعلی کا مقدمہ چلایا گیا تھا جس کے بعد اسے وہاں سے بھی ڈی پورٹ کردیا گیا تھا۔
بعد ازاں سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) صدر رائے مظہر نے بتایا کہ ملزم سہیل ایاز اسلام آباد کے علاقے نیلور کا رہائشی ہے جس کی 9 سال قبل شادی ختم ہوگئی تھی اور اس کے اہلخانہ بھی اس سے اظہار لاتعلقی کر چکے ہیں، انہوں نے مزید بتایا تھا کہ ملزم چارٹرڈ اکاؤٹننٹ ہے اور انتہائی ذہین اور ڈارک ویب کو استعمال کرنے کا ماہر ہے۔
مزید پڑھیں: اگر ’سہیل ایاز‘ کل اسکول کھول لے تو؟
ان کا کہنا تھا کہ ملزم خیبرپختونخوا کے سول سیکرٹریٹ پلاننگ ڈیپارٹمنٹ کو کنسلٹینسی دے رہا تھا اور سرکار سے ماہانہ 3 لاکھ روپے تنخواہ بھی لے رہا ہے اس کے علاوہ ملزم برطانیہ میں بین الاقوامی شہرت کے حامل فلاحی ادارے میں بھی ملازمت کرچکا ہے۔
دوسرے ہی روز راولپنڈی پولیس نے بچوں سے بدفعلی کر کے ان کی ویڈیو بنانے والے ملزم سہیل ایاز کو عدالت میں پیش کرکے ملزم کا جسمانی ریمانڈ حاصل کرلیا تھا۔
اعترافی بیان دباؤ کے تحت دلوایا گیا، والد ملزم
ملزم سہیل ایاز کے والد ایاز نے بتایا تھا کہ پولیس نے ان کے بیٹے پر بے بنیاد الزامات لگائے ہیں جبکہ ملزم کے اہلخانہ کا اس سے اظہار لاتعلقی کے پولیس کے دعوے کی نفی کرتے ہوئے ملزم کے والد کا کہنا تھا کہ 'میں نے اپنے بیٹے کو عاق نہیں کیا ہے، جو ایف آئی آر دی گئی وہ جھوٹی ہے'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'سہیل ایاز نے اعترافی بیان دباؤ کے تحت دیا ہے، اس کے علاوہ بیرون ملک جو کیسز سہیل ایاز پر بنے وہ معمولی نوعیت کے تھے'۔
ملازمت سے فارغ
اسی روز خیبرپختونخوا حکومت نے ملزم سہیل ایاز کو سیکریٹریٹ پلاننگ ڈپارٹمنٹ میں بطور کنسلٹنسی کے عہدے سے برطرف کردیا تھا۔
یہاں یہ بات واضح رہے کہ سہیل ایاز 2017 سے کے پی حکومت کے ساتھ عالمی بینک کے ترقیاتی منصوبے میں بطور کنسلٹنٹ خدمات انجام دے رہا تھے۔
ملزم کی نشاندہی پر ایک اور بچہ برآمد
15 نومبر 2019 کو راولپنڈی پولیس نے انٹرنیشنل ڈارک ویب کے ملزم سہیل ایاز کی نشاندہی پر 12 سالہ بچے کو برآمد کیا تھا، پولیس افسر فیصل رانا نے تصدیق کی تھی کہ سہیل ایاز کے ہاتھوں اغوا ہونے والے 12 سالہ عدیل خان کو برآمد جبکہ ایک ملزم خرم کالا کو گرفتار کرلیا گیا۔
پولیس افسر کے مطابق انٹرنیشنل ڈارک ویب کے ملزم سہیل ایاز نے بچے کو ’آئس‘ پلا کر بدفعلی کی، ان کا کہنا تھا کہ ابتدائی تفتیش کے مطابق سہیل ایاز نے بچے کو 2 ماہ تک اپنے پاس رکھا تھا۔
بیرون ملک سزائیں
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی اردو کی رپورٹ کے مطابق سہیل ایاز کو 2009 میں ایک برطانوی عدالت نے ایک 14 سالہ بچے کے ریپ کے اعتراف کے بعد چار سال قید کی سزا سنائی تھی، اس کے علاوہ ملزم نے عدالت میں اس بچے کی تصاویر تقسیم کرنے اور 397 دیگر غیر اخلاقی تصاویر اپنے پاس موجود ہونے کا بھی اعتراف کیا تھا۔
یاد رہے کہ وہ بچوں کی فلاح کے لیے کام کرنے والی برطانوی تنظیم ’سیو دی چلڈرن‘ کے سابق ملازم بھی ہیں جبکہ سہیل ایاز کے تعلقات رومانیہ کے ایک ایسے گروہ سے بھی ہیں جو بچوں سے زیادتی میں ملوث پائے گئے تھے۔
سنہ 2008 میں برطانیہ میں ورک ویزا کے ذریعے داخل ہونے والے سہیل ایاز کو فروری 2009 میں اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب اٹلی کے شہر روم کی پولیس نے ایک بچوں سے زیادتی کرنے والے ایک اطالوی شخص کے خلاف تحقیقات شروع کی تھیں۔
پولیس کو معلوم ہوا تھا کہ سہیل ایاز نے اطالوی ملزم کو 15 رومانیئن بچوں کی تفصیلات فراہم کی تھیں، سہیل مبینہ طور پر بچوں سے زیادتی کرنے والے ایک سوئیڈش شخص کے مڈل مین تھے جن کا کہنا تھا کہ وہ زیادتی کرنے کے لیے رومانیئن بچے فراہم کر سکتے ہیں۔
اطالوی پولیس نے برطانوی پولیس کو خبردار کیا تھا جس کے بعد ان کے خلاف برطانیہ میں تحقیقات شروع ہوئیں، جس کے بعد برطانوی پولیس نے کارروائی کی اور سہیل ایاز کے فلیٹ سے 2000 سے زائد غیر اخلاقی تصاویر اور ویڈیوز برآمد کی گئیں، جن میں نہایت کم عمر بچوں اور زیادتی کا نشانہ بنائے گئے بچوں کی تصاویر بھی شامل تھیں۔
جس کے بعد پولیس حکام کے مطابق برطانوی حکومت نے سہیل ایاز کو جولائی 2009 میں اٹلی کی حکومت کے حوالے کیا تھا۔
تھانہ روات کے ایس ایچ او کاشف محمود نے بتایا تھا کہ ملزم سہیل ایاز نے دوران تفتیش پولیس کو بتایا کہ وہ اب تک پاکستان میں 30 بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنا چکا ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ اس امکان کو مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ ملزم کے ساتھ دیگر افراد بھی کام کر رہے تھے اور اس گینگ میں شامل دیگر افراد کی گرفتاری سے متعلق فیصلہ تفتیش کے دوران ہونے والی پیش رفت کے بعد کیا جائے گا۔
سہیل ایاز کی گرفتاری سے قبل 2017 میں ایک ایسا ملزم گرفتار ہوا تھا کہ جس کے انکشافات نے تعلمی اداروں میں اپنے بچوں کو حصول تعلیم کے لیے بھیجنے والے والدین کو اس اقدام سے قبل کئی مرتبہ سوچنے پر مجبور کردیا تھا۔
ڈان اخبار میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق 12 اپریل 2017 کو وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم ونگ نے سرگودھا سے بچوں کی نازیبا ویڈیوز بنا کر فروخت کرنے والے شخص کو گرفتار کرکے اس کا لیپ ٹاپ اور کمپیوٹر قبضے میں لے لیا تھا۔
گرفتار ہونے والے 45 سالہ ملزم سعادت امین نے تفتیش کاروں کے سامنے اعتراف کیا تھا کہ کمپیوٹر کی تعلیم کے نام پر اس نے 25 بچوں کو جھانسہ دے کر اس گھناؤنے کام میں استعمال کیا تھا۔
سائبر کرائم ونگ کے ہیڈ ڈپٹی ڈائریکٹر شاہد حسن کا کہنا تھا کہ ایجنسی کی جانب سے ملک میں پکڑا جانے والا یہ اسکینڈل اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا۔
تفتیش کے دوران سعادت امین نے انکشاف کیا تھا کہ وہ گزشتہ چند سالوں سے بچوں کی غیر اخلاقی ویڈیوز انٹرنیٹ پر فروخت کررہا ہے، امین بچوں کو کمپیوٹر کی تعلیم دینے کا جھانسہ دے کر اس کام میں استعمال کرتا تھا۔
تفتیش کار اسسٹنٹ ڈائریکٹر آصف اقبال نے ڈان سے گفتگو میں بتایا تھا کہ ملزم نے متاثرہ بچوں کے والدین کو یہ کہہ کر 3 ہزار سے 5 ہزار روپے بھی ادا کیے کہ وہ اپنے ایک کمرے کے گھر میں انہیں کمپیوٹر سافٹ ویئر اور ہارڈ ویئر سکھائے گا۔
واضح رہے کہ ملزم کی گرفتاری ناروے کے سفارت خانے کی جانب سے ایک خط کے ذریعے موصول ہونے والی اطلاع کے بعد عمل میں آئی تھی جس کے بعد ایف آئی اے نے معاملے کی تحقیقات کا سلسلہ شروع کیا تھا۔
واضح رہے کہ اس خط میں سائبر کرائم ونگ کو آگاہ کیا گیا تھا ناروے کی پولیس نے بچوں کی غیر اخلاقی ویڈیوز بنانے کے معاملے پر ایک شخص کو حراست میں لیا ہے جبکہ سعادت امین بھی اس شخص کے ساتھیوں میں سے ایک ہے۔
یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی (یو ای ٹی) کے ٹیکسلا کیمپس سے گریجویشن کرنے والا سعادت امین منڈی بہاؤالدین کے علاقے ملکوال کا رہائشی ہے، بعد ازاں سعادت ملکوال سے سرگودھا روانہ ہوا، جہاں اس نے اس گھناؤنے کام کا آغاز کیا۔
تفتیش کے دوران ملزم کا مزید کہنا تھا کہ ناروے سے تعلق رکھنے والے جیمز نامی شخص سے اس کا پہلا رابطہ انٹرنیٹ کے ذریعے ہوا اور اسی شخص نے اسے ’چائلڈ پورن انڈسٹری‘ سے متعلق آگاہ کیا تھا۔
سعادت امین نے کہا کہ ’جیمز نوجوان لڑکوں کی ویڈیوز کے عوض 100 سے 400 ڈالر ادا کیا کرتا تھا جبکہ وہ نہ صرف اپنی بنائی ہوئی ویڈیوز بلکہ روسی اور بنگلادیشی پورن ویب سائٹس کے سرورز سے چرائی گئی ویڈیوز بھی ناروے اور سویڈن کے خریداروں کو فروخت کیا کرتا تھا‘۔
تفتیش کار آصف اقبال کا کہنا تھا کہ اب تک ایف آئی اے ملزم کی تحویل سے 65 ہزار نازیبا ویڈیوز برآمد کرچکا ہے جو اس نے غیر ملکی ویب سائٹس سے ہیک کی تھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ملزم ہیکنگ کے عمل سے اچھی طرح واقف ہے جبکہ اپنے مجرمانہ ریکارڈ کو خفیہ رکھنے کے لیے اس نے سرگودھا کے پولیس اہلکاروں سے بھی تعلقات قائم کر رکھے تھے‘۔
علاوہ ازیں دوران تفتیش بنائی گئی ملزم کی ایک ویڈیو میں ملزم کو یہ کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے کہ وہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی ویڈیوز بنا کر یورپی ممالک میں اپنے کلائنٹ کو فروخت کرتا تھا جس کے عوض اسے 100 سے 200 یورو (10 ہزار سے 20 ہزار پاکستانی روپے) ادا کیے جاتے تھے۔
30 نومبر 2019 کو فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی آے) کے سائبر کرائم سرکل نے خیبرپختونخوا کے علاقے ایبٹ آباد میں کارروائی کرتے ہوئے بچوں کی غیراخلاقی ویڈیوز بنانے والے بین الاقوامی گروپ کے رکن کو گرفتار کیا تھا۔
ایف آئی اے حکام کے مطابق ملزم وقار احمد کے واٹس ایپ نمبر کی معلومات انٹرپول اسپین نے فراہم کی تھیں، مزید بتایا گیا تھا کہ تربیلا میں ملزم وقار احمد کے گھر پر چھاپہ مار کر اسے گرفتار کیا گیا تھا۔
ایف آئی اے حکام نے دعویٰ کیا کہ ملزم غیر اخلاقی ویڈیوز بنانے والے بین الاقوامی گروپ سے رابطے میں تھا اور وہ ملزم بچوں کی غیر اخلاقی ویڈیوز کو سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرتا تھا۔
حکام کے مطابق گرفتاری کے وقت ملزم سے موبائل فون اور دیگر ڈیجیٹل آلات برآمد کیے گئے اور موبائل فون اور دیگر آلات سے غیر اخلاقی ویڈیوز بھی برآمد کی گئی تھیں۔
کراچی سے ملزم گرفتار
اسی روز ایف آئی اے نے دعویٰ کیا تھا کہ کراچی کے علاقے میٹروول سے ایک نوجوان کو مبینہ طور پر بچوں کی غیر اخلاقی ویڈیوز بنانے کے گھناونے عمل میں ملوث ہونے پر گرفتار کیا گیا، ایف آئی اے سائبر کرائم کے ڈپٹی ڈائریکٹر عبدالغفار کے مطابق ایجنسی کو ایک شہری کی جانب سے 27 نومبر کو شکایت موصول ہوئی تھی جس کے بعد کارروائی عمل میں لائی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ گرفتاری کے بعد ان کے قبضے سے مختلف تصاویر اور بچوں کی غیر اخلاقی چند ویڈیوز بھی برآمد کی گئی تھیں جبکہ ملزم سے ابتدائی تفتیش کے دوران یہ بات سامنے آئی تھی کہ مشتبہ نوجوان نے 10 اور 13 سال کے عمر کے بچوں کی غیر اخلاقی تصاویر اور ویڈیوز بناتا تھا۔
ڈپٹی ڈائریکٹر عبدالغفار نے کہا کہ انہوں نے فیس بک اور انسٹا گرام کے کئی جعلی اکاؤنٹس بنا رکھے تھے اور وٹس ایپ پر بھی گروپ بنائے تھے جہاں وہ کم سن لڑکوں کو شامل کرتا تھا، ملزم کم سن لڑکوں کی فحش ویڈیوز بنانے کے بعد انہیں بلیک میل کرنے اور ان کے خاندان کو پیسے جمع کرنے کے لیے استعمال کرتا تھا۔
13 نومبر 2019 کو گوجرانوالہ میں احمد نگر تھانے کے علاقے دلاور چیمہ میں سی آئی اے پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے بچوں کے ریپ اور اس کی ویڈیوز بنانے والے ملزم کو گرفتار کیا تھا۔
پولیس کے مطابق ملزم ندیم درجنوں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور دیگر جرائم میں پولیس کو مطلوب تھا، انہوں نے بتایا کہ چھاپے کے دوران پولیس نے ملزم کے قبضے سے لیپ ٹاپ اور بد فعلی کی ویڈیوز برآمد کرکے قبضے میں لے لیں تھی۔
یہ وہ بڑے واقعات ہیں جو منظر عام پر آئے اور انہوں نے شہریوں اور سوسائٹی کی نا صرف تشویش میں اضافہ کیا بلکہ معاشرے میں ہونے والے گھناؤنے جرم سے بھی پردہ ہٹایا، ان کیسز کے سامنے آنے کے بعد جہاں حکومت سے ملوث ملزمان کے خلاف سخت سے سخت کارروائی عمل میں لانے کا مطالبہ کیا جاتا رہا وہیں حکومت کے نمائندوں کی جانب سے شہریوں کو یہ باور کرایا جاتا رہا کہ اسے واقعات کی روک تھام کے لیے سخت سے سخت قانون سازی کی جائے گی لیکن ان سب کے باوجود سال 2019 میں ایک نیا واقعہ سامنے آیا۔
یہ واقعہ تھا خیبرپختونخوا کے مشیر سہیل ایاز کی گرفتاری کا، رپورٹ کے ابتدا میں ملزم کا مختصر ذکر کیا گیا ہے تاہم آپ کو اس حوالے سے مزید تفصیلات سے آگاہ کررہے ہیں کہ نا صرف ملزم خود بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں ملوث رہا بلکہ وہ ان سے زیادتی کے دوران بنائی گئی تصاویر اور ویڈیوز انٹرنیٹ کے ایک ایسے مقام پر جہاں ہر کسی کو رسائی حاصل کرنا آسان نہیں یعنی 'ڈارک ویب' تک پہنچاتا تھا۔
سہیل ایاز کی گرفتاری کیسے ہوئی؟
12 نومبر 2019 کو راولپنڈی پولیس نے بچوں سے بدفعلی کر کے ان کی ویڈیو بنانے کے الزام میں سہیل ایاز نامی شخص کو گرفتار کیا تھا، اس حوالے سے پولیس افسر فیصل رانا نے ڈان کو بتایا تھا کہ روات پولیس اسٹیشن میں ایک 13 سالہ لڑکے کی ماں کی شکایت پر مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
سی پی او کے مطابق شکایت کنندہ کا کہنا تھا کہ ان کا بیٹا قہوہ فروخت کرتا ہے جسے ملزم زبردستی اپنی گاڑی میں بحریہ ٹاؤن راولپنڈی میں موجود ایک مکان میں لے گیا اور اسے منشیات دے کر 4 روز تک ریپ کرتا رہا۔
درج کیے گئے مقدمے کے مطابق ملزم نے لڑکے کے ریپ کی ویڈیو بھی بنائی اور اس واقعے کے بارے میں کسی کو بتانے کی صورت میں ویڈیو جاری کرنے کی دھمکی بھی دی۔
ملزم کے خلاف درج مقدمے میں اغوا، زہر دینے، کسی کو نقصان پہنچانے، غلام بنانے اور غیر فطری عمل کی دفعات لگائی گئیں۔
اس حوالے سے رانا فیصل کا مزید کہنا تھا کہ مذکورہ ملزم انٹرنیشنل ڈارک ویب کا سرغنہ ہے اور اس نے پاکستان میں 30 بچوں کو ریپ کرنے کا اعتراف کیا ہے، پولیس افسر کا مزید کہنا تھا کہ ملزم سہیل ایاز بچوں کو بدفعلی کا نشانہ بنانے کے جرم میں برطانیہ میں جیل کی سزا بھگت چکا ہے جہاں سے اسے ڈی پورٹ کردیا گیا تھا جبکہ ملزم کے خلاف اٹلی میں بھی بچوں سے بدفعلی کا مقدمہ چلایا گیا تھا جس کے بعد اسے وہاں سے بھی ڈی پورٹ کردیا گیا تھا۔
بعد ازاں سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) صدر رائے مظہر نے بتایا کہ ملزم سہیل ایاز اسلام آباد کے علاقے نیلور کا رہائشی ہے جس کی 9 سال قبل شادی ختم ہوگئی تھی اور اس کے اہلخانہ بھی اس سے اظہار لاتعلقی کر چکے ہیں، انہوں نے مزید بتایا تھا کہ ملزم چارٹرڈ اکاؤٹننٹ ہے اور انتہائی ذہین اور ڈارک ویب کو استعمال کرنے کا ماہر ہے۔
مزید پڑھیں: اگر ’سہیل ایاز‘ کل اسکول کھول لے تو؟
ان کا کہنا تھا کہ ملزم خیبرپختونخوا کے سول سیکرٹریٹ پلاننگ ڈیپارٹمنٹ کو کنسلٹینسی دے رہا تھا اور سرکار سے ماہانہ 3 لاکھ روپے تنخواہ بھی لے رہا ہے اس کے علاوہ ملزم برطانیہ میں بین الاقوامی شہرت کے حامل فلاحی ادارے میں بھی ملازمت کرچکا ہے۔
دوسرے ہی روز راولپنڈی پولیس نے بچوں سے بدفعلی کر کے ان کی ویڈیو بنانے والے ملزم سہیل ایاز کو عدالت میں پیش کرکے ملزم کا جسمانی ریمانڈ حاصل کرلیا تھا۔
اعترافی بیان دباؤ کے تحت دلوایا گیا، والد ملزم
ملزم سہیل ایاز کے والد ایاز نے بتایا تھا کہ پولیس نے ان کے بیٹے پر بے بنیاد الزامات لگائے ہیں جبکہ ملزم کے اہلخانہ کا اس سے اظہار لاتعلقی کے پولیس کے دعوے کی نفی کرتے ہوئے ملزم کے والد کا کہنا تھا کہ 'میں نے اپنے بیٹے کو عاق نہیں کیا ہے، جو ایف آئی آر دی گئی وہ جھوٹی ہے'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'سہیل ایاز نے اعترافی بیان دباؤ کے تحت دیا ہے، اس کے علاوہ بیرون ملک جو کیسز سہیل ایاز پر بنے وہ معمولی نوعیت کے تھے'۔
ملازمت سے فارغ
اسی روز خیبرپختونخوا حکومت نے ملزم سہیل ایاز کو سیکریٹریٹ پلاننگ ڈپارٹمنٹ میں بطور کنسلٹنسی کے عہدے سے برطرف کردیا تھا۔
یہاں یہ بات واضح رہے کہ سہیل ایاز 2017 سے کے پی حکومت کے ساتھ عالمی بینک کے ترقیاتی منصوبے میں بطور کنسلٹنٹ خدمات انجام دے رہا تھے۔
ملزم کی نشاندہی پر ایک اور بچہ برآمد
15 نومبر 2019 کو راولپنڈی پولیس نے انٹرنیشنل ڈارک ویب کے ملزم سہیل ایاز کی نشاندہی پر 12 سالہ بچے کو برآمد کیا تھا، پولیس افسر فیصل رانا نے تصدیق کی تھی کہ سہیل ایاز کے ہاتھوں اغوا ہونے والے 12 سالہ عدیل خان کو برآمد جبکہ ایک ملزم خرم کالا کو گرفتار کرلیا گیا۔
پولیس افسر کے مطابق انٹرنیشنل ڈارک ویب کے ملزم سہیل ایاز نے بچے کو ’آئس‘ پلا کر بدفعلی کی، ان کا کہنا تھا کہ ابتدائی تفتیش کے مطابق سہیل ایاز نے بچے کو 2 ماہ تک اپنے پاس رکھا تھا۔
بیرون ملک سزائیں
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی اردو کی رپورٹ کے مطابق سہیل ایاز کو 2009 میں ایک برطانوی عدالت نے ایک 14 سالہ بچے کے ریپ کے اعتراف کے بعد چار سال قید کی سزا سنائی تھی، اس کے علاوہ ملزم نے عدالت میں اس بچے کی تصاویر تقسیم کرنے اور 397 دیگر غیر اخلاقی تصاویر اپنے پاس موجود ہونے کا بھی اعتراف کیا تھا۔
یاد رہے کہ وہ بچوں کی فلاح کے لیے کام کرنے والی برطانوی تنظیم ’سیو دی چلڈرن‘ کے سابق ملازم بھی ہیں جبکہ سہیل ایاز کے تعلقات رومانیہ کے ایک ایسے گروہ سے بھی ہیں جو بچوں سے زیادتی میں ملوث پائے گئے تھے۔
سنہ 2008 میں برطانیہ میں ورک ویزا کے ذریعے داخل ہونے والے سہیل ایاز کو فروری 2009 میں اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب اٹلی کے شہر روم کی پولیس نے ایک بچوں سے زیادتی کرنے والے ایک اطالوی شخص کے خلاف تحقیقات شروع کی تھیں۔
پولیس کو معلوم ہوا تھا کہ سہیل ایاز نے اطالوی ملزم کو 15 رومانیئن بچوں کی تفصیلات فراہم کی تھیں، سہیل مبینہ طور پر بچوں سے زیادتی کرنے والے ایک سوئیڈش شخص کے مڈل مین تھے جن کا کہنا تھا کہ وہ زیادتی کرنے کے لیے رومانیئن بچے فراہم کر سکتے ہیں۔
اطالوی پولیس نے برطانوی پولیس کو خبردار کیا تھا جس کے بعد ان کے خلاف برطانیہ میں تحقیقات شروع ہوئیں، جس کے بعد برطانوی پولیس نے کارروائی کی اور سہیل ایاز کے فلیٹ سے 2000 سے زائد غیر اخلاقی تصاویر اور ویڈیوز برآمد کی گئیں، جن میں نہایت کم عمر بچوں اور زیادتی کا نشانہ بنائے گئے بچوں کی تصاویر بھی شامل تھیں۔
جس کے بعد پولیس حکام کے مطابق برطانوی حکومت نے سہیل ایاز کو جولائی 2009 میں اٹلی کی حکومت کے حوالے کیا تھا۔
تھانہ روات کے ایس ایچ او کاشف محمود نے بتایا تھا کہ ملزم سہیل ایاز نے دوران تفتیش پولیس کو بتایا کہ وہ اب تک پاکستان میں 30 بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنا چکا ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ اس امکان کو مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ ملزم کے ساتھ دیگر افراد بھی کام کر رہے تھے اور اس گینگ میں شامل دیگر افراد کی گرفتاری سے متعلق فیصلہ تفتیش کے دوران ہونے والی پیش رفت کے بعد کیا جائے گا۔
سہیل ایاز کی گرفتاری سے قبل 2017 میں ایک ایسا ملزم گرفتار ہوا تھا کہ جس کے انکشافات نے تعلمی اداروں میں اپنے بچوں کو حصول تعلیم کے لیے بھیجنے والے والدین کو اس اقدام سے قبل کئی مرتبہ سوچنے پر مجبور کردیا تھا۔
ڈان اخبار میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق 12 اپریل 2017 کو وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم ونگ نے سرگودھا سے بچوں کی نازیبا ویڈیوز بنا کر فروخت کرنے والے شخص کو گرفتار کرکے اس کا لیپ ٹاپ اور کمپیوٹر قبضے میں لے لیا تھا۔
گرفتار ہونے والے 45 سالہ ملزم سعادت امین نے تفتیش کاروں کے سامنے اعتراف کیا تھا کہ کمپیوٹر کی تعلیم کے نام پر اس نے 25 بچوں کو جھانسہ دے کر اس گھناؤنے کام میں استعمال کیا تھا۔
سائبر کرائم ونگ کے ہیڈ ڈپٹی ڈائریکٹر شاہد حسن کا کہنا تھا کہ ایجنسی کی جانب سے ملک میں پکڑا جانے والا یہ اسکینڈل اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا۔
تفتیش کے دوران سعادت امین نے انکشاف کیا تھا کہ وہ گزشتہ چند سالوں سے بچوں کی غیر اخلاقی ویڈیوز انٹرنیٹ پر فروخت کررہا ہے، امین بچوں کو کمپیوٹر کی تعلیم دینے کا جھانسہ دے کر اس کام میں استعمال کرتا تھا۔
تفتیش کار اسسٹنٹ ڈائریکٹر آصف اقبال نے ڈان سے گفتگو میں بتایا تھا کہ ملزم نے متاثرہ بچوں کے والدین کو یہ کہہ کر 3 ہزار سے 5 ہزار روپے بھی ادا کیے کہ وہ اپنے ایک کمرے کے گھر میں انہیں کمپیوٹر سافٹ ویئر اور ہارڈ ویئر سکھائے گا۔
واضح رہے کہ ملزم کی گرفتاری ناروے کے سفارت خانے کی جانب سے ایک خط کے ذریعے موصول ہونے والی اطلاع کے بعد عمل میں آئی تھی جس کے بعد ایف آئی اے نے معاملے کی تحقیقات کا سلسلہ شروع کیا تھا۔
واضح رہے کہ اس خط میں سائبر کرائم ونگ کو آگاہ کیا گیا تھا ناروے کی پولیس نے بچوں کی غیر اخلاقی ویڈیوز بنانے کے معاملے پر ایک شخص کو حراست میں لیا ہے جبکہ سعادت امین بھی اس شخص کے ساتھیوں میں سے ایک ہے۔
یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی (یو ای ٹی) کے ٹیکسلا کیمپس سے گریجویشن کرنے والا سعادت امین منڈی بہاؤالدین کے علاقے ملکوال کا رہائشی ہے، بعد ازاں سعادت ملکوال سے سرگودھا روانہ ہوا، جہاں اس نے اس گھناؤنے کام کا آغاز کیا۔
تفتیش کے دوران ملزم کا مزید کہنا تھا کہ ناروے سے تعلق رکھنے والے جیمز نامی شخص سے اس کا پہلا رابطہ انٹرنیٹ کے ذریعے ہوا اور اسی شخص نے اسے ’چائلڈ پورن انڈسٹری‘ سے متعلق آگاہ کیا تھا۔
سعادت امین نے کہا کہ ’جیمز نوجوان لڑکوں کی ویڈیوز کے عوض 100 سے 400 ڈالر ادا کیا کرتا تھا جبکہ وہ نہ صرف اپنی بنائی ہوئی ویڈیوز بلکہ روسی اور بنگلادیشی پورن ویب سائٹس کے سرورز سے چرائی گئی ویڈیوز بھی ناروے اور سویڈن کے خریداروں کو فروخت کیا کرتا تھا‘۔
تفتیش کار آصف اقبال کا کہنا تھا کہ اب تک ایف آئی اے ملزم کی تحویل سے 65 ہزار نازیبا ویڈیوز برآمد کرچکا ہے جو اس نے غیر ملکی ویب سائٹس سے ہیک کی تھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ملزم ہیکنگ کے عمل سے اچھی طرح واقف ہے جبکہ اپنے مجرمانہ ریکارڈ کو خفیہ رکھنے کے لیے اس نے سرگودھا کے پولیس اہلکاروں سے بھی تعلقات قائم کر رکھے تھے‘۔
علاوہ ازیں دوران تفتیش بنائی گئی ملزم کی ایک ویڈیو میں ملزم کو یہ کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے کہ وہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی ویڈیوز بنا کر یورپی ممالک میں اپنے کلائنٹ کو فروخت کرتا تھا جس کے عوض اسے 100 سے 200 یورو (10 ہزار سے 20 ہزار پاکستانی روپے) ادا کیے جاتے تھے۔
30 نومبر 2019 کو فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی آے) کے سائبر کرائم سرکل نے خیبرپختونخوا کے علاقے ایبٹ آباد میں کارروائی کرتے ہوئے بچوں کی غیراخلاقی ویڈیوز بنانے والے بین الاقوامی گروپ کے رکن کو گرفتار کیا تھا۔
ایف آئی اے حکام کے مطابق ملزم وقار احمد کے واٹس ایپ نمبر کی معلومات انٹرپول اسپین نے فراہم کی تھیں، مزید بتایا گیا تھا کہ تربیلا میں ملزم وقار احمد کے گھر پر چھاپہ مار کر اسے گرفتار کیا گیا تھا۔
ایف آئی اے حکام نے دعویٰ کیا کہ ملزم غیر اخلاقی ویڈیوز بنانے والے بین الاقوامی گروپ سے رابطے میں تھا اور وہ ملزم بچوں کی غیر اخلاقی ویڈیوز کو سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرتا تھا۔
حکام کے مطابق گرفتاری کے وقت ملزم سے موبائل فون اور دیگر ڈیجیٹل آلات برآمد کیے گئے اور موبائل فون اور دیگر آلات سے غیر اخلاقی ویڈیوز بھی برآمد کی گئی تھیں۔
کراچی سے ملزم گرفتار
اسی روز ایف آئی اے نے دعویٰ کیا تھا کہ کراچی کے علاقے میٹروول سے ایک نوجوان کو مبینہ طور پر بچوں کی غیر اخلاقی ویڈیوز بنانے کے گھناونے عمل میں ملوث ہونے پر گرفتار کیا گیا، ایف آئی اے سائبر کرائم کے ڈپٹی ڈائریکٹر عبدالغفار کے مطابق ایجنسی کو ایک شہری کی جانب سے 27 نومبر کو شکایت موصول ہوئی تھی جس کے بعد کارروائی عمل میں لائی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ گرفتاری کے بعد ان کے قبضے سے مختلف تصاویر اور بچوں کی غیر اخلاقی چند ویڈیوز بھی برآمد کی گئی تھیں جبکہ ملزم سے ابتدائی تفتیش کے دوران یہ بات سامنے آئی تھی کہ مشتبہ نوجوان نے 10 اور 13 سال کے عمر کے بچوں کی غیر اخلاقی تصاویر اور ویڈیوز بناتا تھا۔
ڈپٹی ڈائریکٹر عبدالغفار نے کہا کہ انہوں نے فیس بک اور انسٹا گرام کے کئی جعلی اکاؤنٹس بنا رکھے تھے اور وٹس ایپ پر بھی گروپ بنائے تھے جہاں وہ کم سن لڑکوں کو شامل کرتا تھا، ملزم کم سن لڑکوں کی فحش ویڈیوز بنانے کے بعد انہیں بلیک میل کرنے اور ان کے خاندان کو پیسے جمع کرنے کے لیے استعمال کرتا تھا۔
13 نومبر 2019 کو گوجرانوالہ میں احمد نگر تھانے کے علاقے دلاور چیمہ میں سی آئی اے پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے بچوں کے ریپ اور اس کی ویڈیوز بنانے والے ملزم کو گرفتار کیا تھا۔
پولیس کے مطابق ملزم ندیم درجنوں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور دیگر جرائم میں پولیس کو مطلوب تھا، انہوں نے بتایا کہ چھاپے کے دوران پولیس نے ملزم کے قبضے سے لیپ ٹاپ اور بد فعلی کی ویڈیوز برآمد کرکے قبضے میں لے لیں تھی۔
سہیل ایاز کی گرفتاری سے قبل 2017 میں ایک ایسا ملزم گرفتار ہوا تھا کہ جس کے انکشافات نے تعلمی اداروں میں اپنے بچوں کو حصول تعلیم کے لیے بھیجنے والے والدین کو اس اقدام سے قبل کئی مرتبہ سوچنے پر مجبور کردیا تھا۔
ڈان اخبار میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق 12 اپریل 2017 کو وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم ونگ نے سرگودھا سے بچوں کی نازیبا ویڈیوز بنا کر فروخت کرنے والے شخص کو گرفتار کرکے اس کا لیپ ٹاپ اور کمپیوٹر قبضے میں لے لیا تھا۔
گرفتار ہونے والے 45 سالہ ملزم سعادت امین نے تفتیش کاروں کے سامنے اعتراف کیا تھا کہ کمپیوٹر کی تعلیم کے نام پر اس نے 25 بچوں کو جھانسہ دے کر اس گھناؤنے کام میں استعمال کیا تھا۔
سائبر کرائم ونگ کے ہیڈ ڈپٹی ڈائریکٹر شاہد حسن کا کہنا تھا کہ ایجنسی کی جانب سے ملک میں پکڑا جانے والا یہ اسکینڈل اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا۔
تفتیش کے دوران سعادت امین نے انکشاف کیا تھا کہ وہ گزشتہ چند سالوں سے بچوں کی غیر اخلاقی ویڈیوز انٹرنیٹ پر فروخت کررہا ہے، امین بچوں کو کمپیوٹر کی تعلیم دینے کا جھانسہ دے کر اس کام میں استعمال کرتا تھا۔
تفتیش کار اسسٹنٹ ڈائریکٹر آصف اقبال نے ڈان سے گفتگو میں بتایا تھا کہ ملزم نے متاثرہ بچوں کے والدین کو یہ کہہ کر 3 ہزار سے 5 ہزار روپے بھی ادا کیے کہ وہ اپنے ایک کمرے کے گھر میں انہیں کمپیوٹر سافٹ ویئر اور ہارڈ ویئر سکھائے گا۔
واضح رہے کہ ملزم کی گرفتاری ناروے کے سفارت خانے کی جانب سے ایک خط کے ذریعے موصول ہونے والی اطلاع کے بعد عمل میں آئی تھی جس کے بعد ایف آئی اے نے معاملے کی تحقیقات کا سلسلہ شروع کیا تھا۔
واضح رہے کہ اس خط میں سائبر کرائم ونگ کو آگاہ کیا گیا تھا ناروے کی پولیس نے بچوں کی غیر اخلاقی ویڈیوز بنانے کے معاملے پر ایک شخص کو حراست میں لیا ہے جبکہ سعادت امین بھی اس شخص کے ساتھیوں میں سے ایک ہے۔
یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی (یو ای ٹی) کے ٹیکسلا کیمپس سے گریجویشن کرنے والا سعادت امین منڈی بہاؤالدین کے علاقے ملکوال کا رہائشی ہے، بعد ازاں سعادت ملکوال سے سرگودھا روانہ ہوا، جہاں اس نے اس گھناؤنے کام کا آغاز کیا۔
تفتیش کے دوران ملزم کا مزید کہنا تھا کہ ناروے سے تعلق رکھنے والے جیمز نامی شخص سے اس کا پہلا رابطہ انٹرنیٹ کے ذریعے ہوا اور اسی شخص نے اسے ’چائلڈ پورن انڈسٹری‘ سے متعلق آگاہ کیا تھا۔
سعادت امین نے کہا کہ ’جیمز نوجوان لڑکوں کی ویڈیوز کے عوض 100 سے 400 ڈالر ادا کیا کرتا تھا جبکہ وہ نہ صرف اپنی بنائی ہوئی ویڈیوز بلکہ روسی اور بنگلادیشی پورن ویب سائٹس کے سرورز سے چرائی گئی ویڈیوز بھی ناروے اور سویڈن کے خریداروں کو فروخت کیا کرتا تھا‘۔
تفتیش کار آصف اقبال کا کہنا تھا کہ اب تک ایف آئی اے ملزم کی تحویل سے 65 ہزار نازیبا ویڈیوز برآمد کرچکا ہے جو اس نے غیر ملکی ویب سائٹس سے ہیک کی تھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ملزم ہیکنگ کے عمل سے اچھی طرح واقف ہے جبکہ اپنے مجرمانہ ریکارڈ کو خفیہ رکھنے کے لیے اس نے سرگودھا کے پولیس اہلکاروں سے بھی تعلقات قائم کر رکھے تھے‘۔
علاوہ ازیں دوران تفتیش بنائی گئی ملزم کی ایک ویڈیو میں ملزم کو یہ کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے کہ وہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی ویڈیوز بنا کر یورپی ممالک میں اپنے کلائنٹ کو فروخت کرتا تھا جس کے عوض اسے 100 سے 200 یورو (10 ہزار سے 20 ہزار پاکستانی روپے) ادا کیے جاتے تھے۔
30 نومبر 2019 کو فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی آے) کے سائبر کرائم سرکل نے خیبرپختونخوا کے علاقے ایبٹ آباد میں کارروائی کرتے ہوئے بچوں کی غیراخلاقی ویڈیوز بنانے والے بین الاقوامی گروپ کے رکن کو گرفتار کیا تھا۔
ایف آئی اے حکام کے مطابق ملزم وقار احمد کے واٹس ایپ نمبر کی معلومات انٹرپول اسپین نے فراہم کی تھیں، مزید بتایا گیا تھا کہ تربیلا میں ملزم وقار احمد کے گھر پر چھاپہ مار کر اسے گرفتار کیا گیا تھا۔
ایف آئی اے حکام نے دعویٰ کیا کہ ملزم غیر اخلاقی ویڈیوز بنانے والے بین الاقوامی گروپ سے رابطے میں تھا اور وہ ملزم بچوں کی غیر اخلاقی ویڈیوز کو سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرتا تھا۔
حکام کے مطابق گرفتاری کے وقت ملزم سے موبائل فون اور دیگر ڈیجیٹل آلات برآمد کیے گئے اور موبائل فون اور دیگر آلات سے غیر اخلاقی ویڈیوز بھی برآمد کی گئی تھیں۔
کراچی سے ملزم گرفتار
اسی روز ایف آئی اے نے دعویٰ کیا تھا کہ کراچی کے علاقے میٹروول سے ایک نوجوان کو مبینہ طور پر بچوں کی غیر اخلاقی ویڈیوز بنانے کے گھناونے عمل میں ملوث ہونے پر گرفتار کیا گیا، ایف آئی اے سائبر کرائم کے ڈپٹی ڈائریکٹر عبدالغفار کے مطابق ایجنسی کو ایک شہری کی جانب سے 27 نومبر کو شکایت موصول ہوئی تھی جس کے بعد کارروائی عمل میں لائی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ گرفتاری کے بعد ان کے قبضے سے مختلف تصاویر اور بچوں کی غیر اخلاقی چند ویڈیوز بھی برآمد کی گئی تھیں جبکہ ملزم سے ابتدائی تفتیش کے دوران یہ بات سامنے آئی تھی کہ مشتبہ نوجوان نے 10 اور 13 سال کے عمر کے بچوں کی غیر اخلاقی تصاویر اور ویڈیوز بناتا تھا۔
ڈپٹی ڈائریکٹر عبدالغفار نے کہا کہ انہوں نے فیس بک اور انسٹا گرام کے کئی جعلی اکاؤنٹس بنا رکھے تھے اور وٹس ایپ پر بھی گروپ بنائے تھے جہاں وہ کم سن لڑکوں کو شامل کرتا تھا، ملزم کم سن لڑکوں کی فحش ویڈیوز بنانے کے بعد انہیں بلیک میل کرنے اور ان کے خاندان کو پیسے جمع کرنے کے لیے استعمال کرتا تھا۔
13 نومبر 2019 کو گوجرانوالہ میں احمد نگر تھانے کے علاقے دلاور چیمہ میں سی آئی اے پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے بچوں کے ریپ اور اس کی ویڈیوز بنانے والے ملزم کو گرفتار کیا تھا۔
پولیس کے مطابق ملزم ندیم درجنوں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور دیگر جرائم میں پولیس کو مطلوب تھا، انہوں نے بتایا کہ چھاپے کے دوران پولیس نے ملزم کے قبضے سے لیپ ٹاپ اور بد فعلی کی ویڈیوز برآمد کرکے قبضے میں لے لیں تھی۔
30 نومبر 2019 کو فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی آے) کے سائبر کرائم سرکل نے خیبرپختونخوا کے علاقے ایبٹ آباد میں کارروائی کرتے ہوئے بچوں کی غیراخلاقی ویڈیوز بنانے والے بین الاقوامی گروپ کے رکن کو گرفتار کیا تھا۔
ایف آئی اے حکام کے مطابق ملزم وقار احمد کے واٹس ایپ نمبر کی معلومات انٹرپول اسپین نے فراہم کی تھیں، مزید بتایا گیا تھا کہ تربیلا میں ملزم وقار احمد کے گھر پر چھاپہ مار کر اسے گرفتار کیا گیا تھا۔
ایف آئی اے حکام نے دعویٰ کیا کہ ملزم غیر اخلاقی ویڈیوز بنانے والے بین الاقوامی گروپ سے رابطے میں تھا اور وہ ملزم بچوں کی غیر اخلاقی ویڈیوز کو سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرتا تھا۔
حکام کے مطابق گرفتاری کے وقت ملزم سے موبائل فون اور دیگر ڈیجیٹل آلات برآمد کیے گئے اور موبائل فون اور دیگر آلات سے غیر اخلاقی ویڈیوز بھی برآمد کی گئی تھیں۔
کراچی سے ملزم گرفتار
اسی روز ایف آئی اے نے دعویٰ کیا تھا کہ کراچی کے علاقے میٹروول سے ایک نوجوان کو مبینہ طور پر بچوں کی غیر اخلاقی ویڈیوز بنانے کے گھناونے عمل میں ملوث ہونے پر گرفتار کیا گیا، ایف آئی اے سائبر کرائم کے ڈپٹی ڈائریکٹر عبدالغفار کے مطابق ایجنسی کو ایک شہری کی جانب سے 27 نومبر کو شکایت موصول ہوئی تھی جس کے بعد کارروائی عمل میں لائی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ گرفتاری کے بعد ان کے قبضے سے مختلف تصاویر اور بچوں کی غیر اخلاقی چند ویڈیوز بھی برآمد کی گئی تھیں جبکہ ملزم سے ابتدائی تفتیش کے دوران یہ بات سامنے آئی تھی کہ مشتبہ نوجوان نے 10 اور 13 سال کے عمر کے بچوں کی غیر اخلاقی تصاویر اور ویڈیوز بناتا تھا۔
ڈپٹی ڈائریکٹر عبدالغفار نے کہا کہ انہوں نے فیس بک اور انسٹا گرام کے کئی جعلی اکاؤنٹس بنا رکھے تھے اور وٹس ایپ پر بھی گروپ بنائے تھے جہاں وہ کم سن لڑکوں کو شامل کرتا تھا، ملزم کم سن لڑکوں کی فحش ویڈیوز بنانے کے بعد انہیں بلیک میل کرنے اور ان کے خاندان کو پیسے جمع کرنے کے لیے استعمال کرتا تھا۔
13 نومبر 2019 کو گوجرانوالہ میں احمد نگر تھانے کے علاقے دلاور چیمہ میں سی آئی اے پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے بچوں کے ریپ اور اس کی ویڈیوز بنانے والے ملزم کو گرفتار کیا تھا۔
پولیس کے مطابق ملزم ندیم درجنوں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور دیگر جرائم میں پولیس کو مطلوب تھا، انہوں نے بتایا کہ چھاپے کے دوران پولیس نے ملزم کے قبضے سے لیپ ٹاپ اور بد فعلی کی ویڈیوز برآمد کرکے قبضے میں لے لیں تھی۔
13 نومبر 2019 کو گوجرانوالہ میں احمد نگر تھانے کے علاقے دلاور چیمہ میں سی آئی اے پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے بچوں کے ریپ اور اس کی ویڈیوز بنانے والے ملزم کو گرفتار کیا تھا۔
پولیس کے مطابق ملزم ندیم درجنوں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور دیگر جرائم میں پولیس کو مطلوب تھا، انہوں نے بتایا کہ چھاپے کے دوران پولیس نے ملزم کے قبضے سے لیپ ٹاپ اور بد فعلی کی ویڈیوز برآمد کرکے قبضے میں لے لیں تھی۔