پاکستانی انجینئر کا بنایا ہوا الگورتھم سال 2019 میں سب سے زیادہ سرچ کیوں کیا گیا؟
دنیا بھر میں مصنوعات کی بر آمدات سے لے کر ان کی منتقلی کے ذرائع کو کنٹرول کرنے کے لیے مصنوعی ذہانت کا استعمال اب عام ہو چکا ہے۔ جس سے نہ صرف کام کی رفتار اور مقدار بڑھ گئی ہے بلکہ جدید ذرائع رسل و رسائل اور تیز ترمواصلات کی بدولت دنیا ایک عالمگیر مارکیٹ میں تبدیل ہو چکی ہے۔
مصنوعی ذہانت زندگی کے ہر شعبے میں انسان کی معاونت کر رہی ہے جس کی بدولت صنعتوں میں انقلاب برپا ہوا۔ اس مقصد کے لیے سب سے اہم کردار الگورتھم ادا کر تے ہیں جنہیں مصنوعی ذہانت میں کسی بھی درپیش مسئلے کے حل کی کنجی سمجھا جاتا ہے۔
ایسا ہی ایک الگورتھم 'این ای ایچ' یا نواز، انسکور، ہیم الگورتھم بھی ہے جو اگرچہ 1980 کی دہائی میں بنایا گیا مگر گزرتے ماہ و سال کے ساتھ اس کی اہمیت میں اضافہ ہوتا گیا ہے۔ بنیادی طور پر اس الگورتھم کو پاکستانی انجینئر محمد نواز نے کمپیوٹر پروگرامنگ میں درپیش روز مرہ کے مسائل کو حل کرنے اور وقت کا دورانیہ کم کرنے کے لیے تشکیل دیا تھا۔
محمد نواز نے یہ الگورتھم 80 کی دہائی میں پینسلوانیا اسٹیٹ یونیورسٹی میں اپنے ماسٹرز آف انجینئرنگ کے تھیسز کے لیے بنایا تھا جو وقت کے بہتے دھارے کے ساتھ اہمیت اختیار کرتا گیا اور آج یہ الگورتھم کمپیوٹر اور شیڈولنگ سے متعلق کورس کی کتابوں کا لازمی حصہ ہے اور اس کے بغیر نصاب ادھورا سمجھا جاتا ہے۔
اس الگورتھم کی اصل اہمیت کا اندازہ 2019 میں ہوا جب سائنسی تحقیق کے ایک اہم جریدے 'اومیگا' میں اسے رواں برس سب سے زیادہ سرچ کیے جانے والی تحقیق کے طور پر نامزد کیا گیا ہے۔ جس میں پاکستانی انجینئر مرکزی محقق تھے اور اس وقت انجینئرنگ کالج ٹیکسلا سے وابستہ تھے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ بہت کم تحقیق یا مقالہ جات اومیگا پر 1000 سے زیادہ بار دیکھے گئے ہیں۔
اکتوبر 2019 میں انجینئر محمد نواز کو نہ صرف سرٹیفکیٹ سے نوازا گیا بلکہ پینسلوانیا اسٹیٹ یونیورسٹی نے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے اس ریسرچ پیپر پر اکتوبر میں شائع ہونے والی اپنی انجینئرنگ نیوز میں ایک اسٹوری بھی شامل کی جو لگ بھگ 20 برس کے دورانیے میں این ای ایچ الگورتھم کی مقبولیت، ارتقا اور اس پر کی جانے والی نئی تحقیقات سے سامنے آنے والی جدید ایپلی کیشن کو کور کرتی ہے۔
انجینئر محمد نواز لاہور میں پیدا ہوئے اور یو ای ٹی لاہور سے گریجویشن کے بعد پینسلوانیا اسٹیٹ یونیورسٹی، امریکا سے انجینئرنگ میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ وطن واپسی کے بعد وہ کچھ عرصے تک یو ای ٹی ٹیکسیلا میں درس و تدریس سے وابستہ رہے۔ آج کل انجینئر نواز بیرون ملک مقیم ہیں۔
ملنے والے اعزاز سے متعلق چند سوالات پر محمد نواز کے جواب درج ذیل ہیں:
سوال: اپنی ابتدائی تعلیم کے بارے میں کچھ بتائیے، 80 کی دہائی میں وہ کون سی شخصیت تھی جس کے متاثر کرنے پر آپ نے اس غیر معمولی فیلڈ کا انتخاب کیا؟
جواب: اسکول کے زمانے میں میرے ریاضی کے اساتذہ نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا۔ جن میں نویں یا دسویں جماعت میں میرے ریاضی کے استاد جناب شیخ عبدالقدیر قابل ذکر ہیں جنہیں ہم عموماً 'بابا' کہا کرتے تھے۔
اُن کے پاس ہمیشہ اپنے نوٹس ہوتے تھے یہاں تک کہ انہوں نے ہمیں درسی کتب خود خریدنے سے بھی منع کیا ہوا تھا۔ 60 کی دہائی میں ایسے ذمہ دار اور اپنے پیشے سے مخلص اساتذہ بہت کم تھے اور سر عبدالقدیر ان میں سے ایک تھے جو مجھ سمیت سیکڑوں طلبا کے لیے مشعلِ راہ بنے۔ اسی طرح پینسلوانیا اسٹیٹ یونیورسٹی میں میرے ایک اور استاد پروفیسر ایموری اینسکور بھی متاثر کن شخصیت کے حامل تھے جنہوں نے ماسٹرز تھیسز میں مجھے سپر وائز بھی کیا۔ پروفیسر اینسکور ہی وہ واحد استاد ہیں جنہوں نے مجھے اپنے پیشے سے اخلاص، ایمانداری اور پروفیشنلزم سکھائی۔ میں پوری ایمانداری کے ساتھ اپنی تحقیق کی اشاعت اور کامیابی کا تمام کریڈٹ پروفیسر انسکور کو دیتا ہوں۔
سوال: ہمیں کسی ایسے واقعے کے بارے میں بتائیے جو آپ کی زندگی کو تبدیل کر دینے کا باعث بنا ہو؟
یہ 1978 سے 1980 کے دوران کی بات ہے جب میں پنسلوانیا اسٹیٹ یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھا اور مجھے اپنے دیگر کورسز کے ساتھ علیحدہ سے 6 چھوٹے تحقیقی پراجیکٹ مکمل کرنے تھے جو میرے تھیسز کا حصہ تھے۔ اس میں پروفیسر اینسکور اور پروفیسر ان یانگ میرے سپر وائزر تھے اور میں نے اپنے لیئے شیڈولنگ کے موضوع کا انتخاب کیا تھا۔ مجھے صرف 6 ماہ میں ساری تحقیق کر کے رپورٹ لکھ کر ٹائپ بھی کرنا تھی اور پھر اس کے بعد وہ منظوری کے لیے بھیجی جاتی۔ دو ماہ کا عرصہ اسی طرح گزر گیا مگر میں عملی طور پر کچھ بھی نہیں کر سکا۔
ایک دن انہی سوچوں میں غلطاں تھا کہ اس مسئلے کا بالکل ایک اچھوتا حل میرے ذہن میں آیا جو میرے ساتھ پڑھنے والے دیگر طلباء کی تحقیق سے بالکل مختلف تھا۔ میں نے فوری طور پر حرکت میں آتے ہوئے اس کو کچھ مثالوں پر آزمایا جو بلکل درست ثابت ہوا۔ جس کے بعد میں نے اسے اپنے سپر وائزر پروفیسر اینسکور کے ساتھ شیئر کیا جنہوں نے میری پوری حوصلہ افزائی کی اور مجھے اس کے اعداد شمار وغیرہ کے لیے وقت دیا۔
چونکہ اس 70 اور 80 کی دہائی میں آج کل کی طرح ذاتی کمپیوٹر نہیں ہوتے تھے اور پینسلوانیا اسٹیٹ یونیورسٹی میں ہمارے پاس ایک بڑا آئی بی ایم مین فریم تھا لہذا مجھے اپنا سارا کام اسی کمپیوٹر پر سرانجام دینا تھا۔ میں نے دن رات کام کر کے ثابت کیا کہ میرا 'ہیورسٹک' یا ذاتی تیارکردہ کمپیوٹر پروگرام مستقبل میں درپیش چیلنجز کے لیے بہت کار آمد ثابت ہوسکتا ہے۔
میں نے اپنا سارا تحقیقی کام صرف تین ماہ میں مکمل کیا اور اس کی ایک کاپی پروفیسر اینسکور کو دی، جنہوں نے ایک، دو ہفتے میں اس کا جائزہ لیکر اسے منظور کر دیا۔ 6 ماہ سے بھی کم وقت میں اپنا تھیسز مکمل کر کے اگست 1980 میں میں نے پاکستان جانے کا فیصلہ کیا۔ مگر میری روانگی سے صرف دو ہفتے قبل پروفیسر اینسکور نے مجھے کہا کہ میں اپنے تھیسز کو مختصر کر کے ایک مقالے کی صورت میں لکھ دوں کیونکہ ان کے خیال میں یہ تحقیق کسی مؤقر سائنسی جریدے میں شائع ہو سکتی تھی۔ لہذا میں نے تیزی سے کام کرتے ہوئے اپنی روانگی سے قبل ہاتھ سے لکھا ایک مقالہ ان کے حوالے کیا اور پاکستان کے لیئے رخت سفر باندھا۔
میری غیر موجودگی میں پروفیسر اینسکور نے ذاتی دلچسپی لیتے ہوئے اس پر مزید کام کرکے نوک پلک سنواری اور اسے ایک سائنسی جریدے کو بھیجا۔ جریدے نے اس میں دلچسپی لیتے ہوئے اس پر تجزیہ کرتے ہوئے کچھ نکات اٹھائے اور مزید وضاحت کے لیے کہا۔ میں اس وقت ٹیکسلا میں درس و تدریس سے وابستہ تھا اور میرے پاس کوئی کمپیوٹر بھی نہیں تھا۔ لہذا یہ کام پروفیسر اینسکور نے اپنے ایک اور شاگرد وائی بی پارک کو دیا جس نے اس پر مزید تحقیق کر کے اپنا ایم ایس انجینئرنگ مکمل کیا۔
1981 میں پروفیسر انسکور نے اس مقالے کو اومیگا انٹرنیشنل جرنل آف منیجمنٹ سائنس فار پبلی کیشن کو بھیجا۔ جسے اومیگا نے 1982 میں منظور کیا اور جنوری 1983 تک اس کی اشاعت ممکن ہو سکی۔ اس تمام عرصے میں میرے اور پروفیسر اینسکور کے درمیان رابطہ نہ ہونے کے برابر رہا۔ یہ اس دور کی بات ہے جب آج کل کی طرح ای میل رابطہ عام نہیں تھا اور ہمارا محض خطوط کے ذریعے رابطہ ممکن تھا کیونکہ اس وقت ٹیکسلا کیمپس میں چند ہی انٹرنیشنل ٹیلی فون لائنز دستیاب تھی مگر پاکستان اور پینسلوانیا کے وقت میں فرق کے باعث ان سے بھی رابطہ نہیں ہو پاتا تھا۔
میں سمجھتا ہوں کہ پروفیسر اینسکور اپنے پیشے سے لگاؤ، ایمانداری اور فرض شناسی کی ایک ایسی مثال ہیں جو کم از کم پاکستانی تعلیمی نظام میں عنقہ ہے۔ اگر وہ چاہتے تو با آسانی اس تحقیق اور مقالے کا سارا کریڈٹ خود لے سکتے تھے مگر انہوں نے ذاتی طور پر اتنی بھاگ دوڑ کے باوجود میرا اور یونیورسٹی کالج آف انجینئرنگ ٹیکسلا کا نام ساتھ دیا جس سے میں اس وقت بحیثیت استاد وابستہ تھا۔
سوال : این ای ایچ الگورتھم کیا ہے اور یہ مشین میں درپیش مسائل کے حل میں کس طرح معاونت کرتا ہے؟
اس سوال کا جواب دینے کے لیے میں عام قاری کو سمجھانے کے لیے کچھ اصطلاحات کی وضاحت کرنا چاہوں گا۔