— فائل فوٹو
پولیو کیسز
سال 2019 ملک میں پولیو وائرس کے حوالے سے بدترین ثابت ہوا اور جہاں 2018 میں 12 اور 2017 میں صرف 8 کیسز رپورٹ ہوئے، وہیں رواں سال ملک میں بدقسمتی سے پولیو کے 119 کیسز رپورٹ ہوئے۔
اس وائرس کا سب سے بڑا شکار صوبہ خیبر پختونخوا کے علاقے رہے جہاں پولیو کے 83 کیسز رپورٹ ہوئے۔
پولیو سے صوبے میں سب سے زیادہ لکی مروت اور بنوں کے اضلاع متاثر ہوئے جہاں بالترتیب 27 اور 26 کیسز سامنے آئے۔
اس کے علاوہ شمالی وزیرستان میں 8، تورغر میں 7، ٹانک میں 5، ڈیرہ اسمٰعیل خان اور ہنگو میں 2، 2 جبکہ باجوڑ، چارسدہ، خیبر، شانگلہ، صوابی اور جنوبی وزیرستان سے پولیو کے ایک، ایک کیسز رپورٹ ہوئے۔
پولیو سے سب سے زیادہ متاثر صوبے کے لیے ماہ جون اور نومبر سب سے زیادہ افسوسناک تھے جہاں بالترتیب 13 اور 12 کیسز رپورٹ ہوئے، مئی اور اکتوبر کے مہینوں میں دہرے ہندسے میں پولیو کیسز سامنے آئے۔
رواں سال پولیو سے دوسرا سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ سندھ رہا جہاں 21 کیسز سامنے آئے۔
صوبے کے 14 اضلاع میں بچوں میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی جن میں کراچی کے اضلاع بھی شامل ہیں۔
سال 2019 میں سندھ کے ضلع حیدر آباد، جامشورو، کراچی اورنگی ٹاؤن، لاڑکانہ، سکھر، ٹنڈو الہٰیار اور میرپور خاص میں 2، 2 جبکہ بدین، گلشن اقبال کراچی، جمشید ٹاؤن کراچی، کیماڑی کراچی، لیاری ٹاؤن کراچی، شہد بینظیر آباد اور سجاول میں ایک، ایک پولیو کیس رپورٹ ہوا۔
سندھ میں رواں سال پولیو کے سب سے زیادہ کیسز اکتوبر اور نومبر میں رپورٹ ہوئے جن کی تعداد 5، 5 تھی۔
رواں سال پولیو سے متاثر صوبوں میں بلوچستان کا تیسرا نمبر رہا جہاں کے چھ اضلاع میں 9 کیسز سامنے آئے، صوبے کا پولیو سے سب سے متاثرہ ضلع قلعہ عبداللہ رہا جہاں 2019 میں 3 کیسز سامنے آئے۔
اس کے علاوہ جعفر آباد میں 2 جبکہ ہرنائی، مستونگ، نصیر آباد اور کوئٹہ میں ایک، ایک کیس رپورٹ ہوا۔
ملک کی سب سے زیادی آبادی والے صوبے پنجاب میں رواں سال سب سے کم 6 پولیو کے کیسز سامنے آئے۔
ان 6 میں سے 4 کیسز صرف لاہور کے تھے جہاں جنوری میں ایک، اپریل میں 2 اور جون میں ایک پولیو کیس سامنے آیا۔
اس کے علاوہ جہلم اور مظفر گڑھ میں ایک، ایک بچہ اس وائرس کا شکار ہوا۔
رواں سال پولیو کے حوالے سے جو امر انتہائی تشویشناک تھا وہ ملک کے شمالی علاقوں میں چند ماہ میں پولیو وائرس کی معدوم قسم ٹائپ 'ٹو' کے 7 کیسز کی تشخیص تھی۔
خیال رہے کہ 2014 میں پاکستان کو ویکسین ڈیرائیوڈ-پولیو وائرس ٹائپ سے پاک قرار دے کر اس کی ویکسین بند کردی گئی تھی۔
وائلڈ پولیو وائرس کی 3 اقسام ہیں ٹائپ ون، ٹائپ ٹو اور ٹائپ تھری، جن میں تینوں کے کیپسڈ پروٹین میں معمولی فرق ہے۔
پاکستان میں ٹائپ ون اور ٹائپ ٹو وائرس کی اورل پولیو ویکسینز (او پی ویز) دی جاتی ہیں لیکن 2014 میں ٹائپ ٹو ویکسین کا استعمال روک دیا گیا تھا یہاں تک کہ 2016 سے ماحولیاتی نمونوں میں بھی یہ وائرس نہیں مل سکا تھا۔
پولیو وائرس روکنے کے لیے حکومتی اقدامات
پولیو وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے لیے گزشتہ حکومتوں کی طرح اس حکومت نے بھی پولیو کے قطرے پلانے کے لیے کئی بار مہم چلائی جبکہ قطروں سے متعلق عوام کے ایک حصے میں پائی جانے والی غلط فہمی اور منفی سوچ کو دور کرنے کے بھی آگاہی مہم چلائی گئی۔
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے 24 نومبر کو وزیراعظم عمران خان کی ہدایت کے مطابق نیشنل اسٹریٹجک ایڈوائزری گروپ بھی تشکیل دیا جس میں بڑی سیاسی جماعتوں کے نمائندے بھی شامل تھے، تاکہ یقینی بنایا جاسکے کہ پولیو کے خاتمہ کو دیگر جماعتوں کی صوبائی حکومت کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔
تاہم ایک مرتبہ پھر پولیو کے بڑھتے کیسز نے نہ صرف ملکی بلکہ عالمی سطح پر بھی تشویش میں اضافہ کیا ہے۔
حکومت باقاعدگی سے پولیو کے قطرے پلانے کی مہم چلانے میں تو سنجیدہ نظر آتی ہے لیکن یہ وائرس پھیلنے کی وجوہات کو ختم کرنے پر خاص توجہ نہیں دی جارہی، جن میں حفاظتی ٹیکوں کا فقدان، خراب سیوریج سسٹم، آلودہ پانی (جس کے ذریعے وائرس پھیل رہا ہے)، صفائی ستھرائی کی ناقص صورتحال اور کوڑا کرکٹ ٹھکانے لگانے کے نامناسب انتظامات ہیں۔
موسمی تبدیلیاں، پہاڑی علاقوں میں سفر کی دشواری، پولیو مہم ناکام بنانے کے لیے مختلف ہتھکنڈوں کا استعمال، قبائلی اضلاع اور بلوچستان میں سیکیورٹی کی صورتحال، پولیو ورکرز پر حملے اور ان کے اغوا جیسے عوامل بھی انسدادِ پولیو مہم میں رکاوٹ کا سبب بن رہے ہیں۔
تاہم ان تمام وجوہات کی موجودگی کے باوجود حکومت، عالمی شراکت داروں کے تعاون سے 2022 تک مُلک سے پولیو کے مکمل خاتمے کے لیے پُرعزم ہے۔
ملک میں رواں سال پولیو اور ڈینگی کے علاوہ کتوں کے کاٹنے اور اس سے ریبیز کے مرض میں مبتلا ہو کر جان گنوانے والوں کی بھی بڑی تعداد سامنے آئی۔
سال 2019 میں صرف سندھ میں ہی کتوں کے کاٹنے کے کم و بیش 2 لاکھ واقعات سامنے آئے اور اس کے باعث ریبیز میں مبتلا ہو کر محض کراچی میں ہی لگ بھگ 25 افراد موت کے منہ میں چلے گئے۔
سندھ کے علاوہ خیبر پختونخوا میں بھی کتوں کے کاٹنے کے ہزاروں واقعات رپورٹ ہوئے جس کے باعث کئی افراد جان کی بازی ہار گئے۔
ریبیز کے باعث بڑی تعداد میں اموات کی ایک وجہ ہسپتالوں میں ریبیز سے بچاؤ کی ویکسین کی قلت کی بھی تھی۔
اس کے علاوہ ملک کے کئی علاقے بالخصوص کراچی مویشیوں سے پھیلنے والے کریمین ہیمریجک کانگو فیور (کانگو وائرس) کا شکار رہے اور صرف کراچی میں خطرناک وائرس سے کم و بیش 20 افراد ہلاک ہوئے۔
سال 2019 میں سندھ اور بالخصوص کراچی دماغ کھانے والا جرثومہ 'نگلیریا' کا بھی شکار بنا اور صوبے میں اس سے 15 سے زائد اموات سامنے آئیں۔
یہ وائرس عموماً سوئمنگ پولز، تالاب سمیت ٹینکوں میں موجود ایسے پانی میں پیدا ہوتا ہے جس میں کلورین کی مقدار کم ہوتی ہے، شدید گرمی بھی نگلیریا کی افزائش کا سبب بنتی ہے۔