بھارت:ریلی میں چہرے کی شناخت کرنے والے سوفٹ ویئر سے نگرانی پر خوف
بھارت کے دارالحکومت میں پولیس کی جانب سے سیاسی ریلی کی نگرانی کے لیے چہرے کی شناخت کرنے والے سوفٹ ویئر کے استعمال کے بعد متنازع شہریت قانون کے خلاف ہونے والے احتجاج کے پیش نظر عوام میں خوف بڑھنے لگا۔
غیر ملکی خبر ایجنسی 'رائٹرز' کی رپورٹ کے مطابق دہلی پولیس کے ترجمان کا کہنا تھا کہ پولیس نے 22 دسمبر کو وزیراعظم نریندر مودی کی ریلی میں کھو جانے والے بچوں کی شناخت کے لیے آٹومیٹڈ فیشل ریکوگنیشن سسٹم (اے ایف آر ایس) سوفٹ ویئر نصب کردیا تھا۔
بھارت کے ایک ٹیکنالوجی ماہر کا کہنا تھا کہ بھارت میں پہلی دفعہ ایسا ہوا کہ ایئرپورٹس، دفاتر اور کیفے میں بڑے پیمانے پر سیاسی ریلی کے شرکا کی شناخت کے لیے اس ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا۔
انٹرنیٹ فریڈم فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر ڈیجیٹل ایڈووکیسی کے ایگزیکٹو آپار گپتا کا کہنا تھا کہ ‘عوامی اجتماع میں شرکا کی شناخت اور نگرانی غیر قانونی اور غیر آئینی ہے، یہ ایک عوام کی نگرانی کرنے کا قدم ہے’۔
مزید پڑھیں:بھارت میں متنازع شہریت بل کے خلاف احتجاج، ہلاکتوں کی تعداد 6 ہوگئی
ان کا کہنا تھا کہ ‘عوامی احتجاج سے ڈیٹابیس بنانا عام بھارتی شہریوں کے اجتماع، آزادی اور سیاسی معاملے میں شمولیت کے حقوق کی براہ راست خلاف ورزی ہے’۔
بھارتی اخبار 'انڈین ایکسپریس' نے دہلی پولیس کے ترجمان کے حوالے سے رپورٹ میں کہا کہ ‘پولیس نے ٹیکنالوجی کا استعمال ریلی کو ممکنہ طور پر نشانہ بنانے کی مصدقہ خفیہ اطلاع پر کیا گیا’۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ ‘دہلی پولیس یقین دلاتی ہے کہ ڈیٹا کے غلط استعمال کے خلاف بہتر جانچ کی جاتی ہے، ڈیٹا بیس بنانا نسلی یا مذہبی حوالے سے پروفائلنگ سے متعلق نہیں ہے’۔
بھارت میں سیاسی ریلی کے دوران چہرے کی شناخت کے لیے ٹیکنالوجی کے استعمال کی خبر ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب ملک بھر میں متنازع قانون کے خلاف شہری سراپا احتجاج ہیں اور پولیس کی فائرنگ سے 25 سے زائد افراد اپنی جان بھی گنوا بیٹھے ہیں۔
احتجاج کے دوران کئی مقامات پر کیمرے ہاتھ میں اٹھائے پولیس کی تصاویر سے مظاہرین میں مزید تشویش پھیل گئی ہے اور اس کو چہرے کی شناخت کے لیے استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی سے جوڑا جارہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:بھارت میں متنازع بل پر ہنگامے: امریکا، برطانیہ کا اپنے شہریوں کیلئے سفری انتباہ
دوسری جانب بھارتی حکام کا کہنا تھا کہ ٹیکنالوجی کئی ممالک میں پولیس کے لیے ایک ذریعہ ہے۔
انٹرنیٹ فریڈم فاؤنڈیشن آپار گپتا کا کہنا تھا کہ ‘اس کا استعمال گم شدہ بچوں کی تلاش کے لیے پرامن عوامی ریلی میں کیا گیا جس کا مکمل طور پر کوئی احتساب یا نگرانی نہیں تھی’۔
بھارت کی سپریم کورٹ نے 2017 میں نیشنل بائیومیٹرک شناختی کارٹ پروگرام کے مشہور فیصلے میں کہا تھا کہ انفرادی پرائیویسی ہر کسی بنیادی حق ہے۔
بھارت کی پارلیمنٹ میں رواں ماہ ہی پرسنل ڈیٹا پروٹیکشن بل پیش کیا گیا تھا جس میں حکومت کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ فلاحی کاموں اور اپنی پالیسیوں کے لیے متعلقہ کمپنی سے کسی کی بھی ذاتی اور دیگر معلومات حاصل کرنے کی مجاز ہوگی۔