دنیا

طالبان رہنما نے جنگ بندی پر رضامند ہونے کو ’افواہ‘ قرار دے دیا

رہنماؤں سے مشاورت کے بعد جنگ بندی کرنے یا نہ کرنے کے حوالے سے فیصلے کا اعلان کیا جائے گا، سہیل شاہین

قطر میں موجود طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے افغانستان میں عارضی جنگ بندی پر رضامند ہونے کی تردید کرتے ہوئے اس قسم کی اطلاعات کو ’افواہیں‘ قرار دے دیا۔

انہوں نے افغان خبررساں ادارے پژوک نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ جنگ بندی کے حوالے سے اب تک کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔

جنگ بندی پر رضامند ہونے کے حوالے سے شائع ہونے والی خبروں کو مسترد کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’میڈیا کو اس قسم کی افواہیں شائع نہیں کرنی چاہئیں‘۔

سہیل شاہین نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ رہنماؤں سے مشاورت کے بعد جنگ بندی کرنے یا نہیں کرنے کے حوالے سے فیصلے کا اعلان کیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: طالبان کونسل افغانستان میں جنگ بندی پر 'رضامند'

واضح رہے کہ امریکی خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) نے اپنی شائع کردہ رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ ‘طالبان افغانستان میں جنگ بندی پر رضامند ہوگئے ہیں‘۔

رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ طالبان کی جانب سے جنگ بندی کی مدت کے بارے میں نہیں بتایا گیا تاہم اطلاعات ہیں کہ یہ 10 روز تک جاری رہ سکتی ہے۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ جنگ بندی پر رضامند ہونے سے قبل طالبان کی مذاکراتی ٹیم کے 4 اراکین نے حکمران کونسل سے ایک ہفتے تک ملاقاتیں کیں جس کے بعد مذاکراتی ٹیم اتوار کے روز اپنے سیاسی دفتر قطر واپس آگئی تھی۔

خیال رہے کہ جنگ بندی پر رضامندی کی صورت میں طالبان اور امریکا کے درمیان افغانستان میں 18 سال سے جاری جنگ کو ختم کرنے کے لیے امن معاہدہ طے پانے کی امید ظاہر کی گئی تھی۔

مزید پڑھیں: امریکا کے طالبان سے مذاکرات بحال، قطر میں مذاکرات کا پہلا دور

اس معاہدے میں امریکا طالبان کی جانب سے اس بات کی ضمانت چاہتا ہے کہ افغانستان کی سرزمین کو دہشت گرد گروہ کے لیے بیس کے طور پر استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا۔

اس کے علاوہ اس تنازع میں دونوں طرف کے افغانوں کے درمیان براہِ راست مذاکرات انتہائی اہم ستون ہے جس کے لیے ایک سال سے امریکا اور طالبان کے درمیان ادھیڑ بن جاری ہے۔

امریکا اور طالبان کے مابین معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد 2 ہفتوں میں بین الافغان مذاکرات ہونے کی توقع ہے جو اس بات کا تعین کریں گے کہ جنگ کے بعد افغانستان کا مننظر نامہ کیسا ہوگا اور طالبان اس میں کیا کردار ادا کریں گے۔

ان مذاکرات میں متعدد پہلوؤں پر بات کی جائے گی جن میں خواتین کے حقوق، آزادی اظہار رائے اور ہزاروں طالبان قیدی کے ساتھ ساتھ افغانستان میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد سے دولت اور طاقت کا غلط استعمال کرنے والی مسلح ملیشیا کا مستقبل شامل ہے۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا کا افغان امن عمل میں مدد سے متعلق پاکستان کی یقین دہانی کا خیرمقدم

امریکی خبررساں ادارے کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ عارضی جنگ بندی کی تجویز امریکی سفیر برائے افغان مفاہمتی عمل زلمے خلیل زاد نے مذاکرات کے گزشتہ دور کے دوران پیش کی تھی۔

واضح رہے کہ طالبان اور امریکا کے مابین افغان مفاہمتی عمل کا آغاز گزشتہ برس ہوا تھا جس کے بعد دونوں فریقین کے درمیان مذاکرات کے کئی دور ہوئے۔

رواں برس ستمبر میں یہ امکان تھا کہ امن معاہدے پر دستخط کیے جائیں گے تو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے طالبان کے ایک حملے میں امریکی فوجیوں کی ہلاکت کو جواز بناتے ہوئے مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کردیا تھا۔

تاہم اس صورتحال کے بعد امریکی نمائندوں اور طالبان کی جانب سے مذاکراتی عمل کی بحالی کی کوششیں بھی جاری رہیں اور 7 دسمبر کو طالبان کی زلمے خلیل زاد سے ملاقات کے بعد بات چیت کا عمل بحال ہوگیا۔

جس کے بعد اب ایک مرتبہ پھر امریکا اور طالبان کے درمیان امن معاہدہ جلد طے پانے کا امکان پیدا ہوگیا ہے۔