دنیا

ہسپانوی فنکاروں پر حملہ، سعودی عرب میں یمن کے شہری کو سزائے موت

سعودی عدالت نے 11 نومبر کو ہونے والے حملے کے مجرم کے ایک ساتھی کو 12 سال اور دوسرے کو 6 ماہ قید کی سزا بھی سنائی، رپورٹ

سعودی عرب کی عدالت نے ہسپانوی فنکاروں پر چاقو کے حملے کے الزام میں ایک یمن کے شہری کو موت کی سزا سنا دی۔

خبر ایجنسی اے ایف پی کے مطابق ریاض کے سرکاری ٹیلی وژن نے بتایا کہ فوجداری عدالت نے گزشتہ ماہ ریاض میں ہسپانوی تھیٹر گروپ کے فنکاروں پر چاقو کا حملہ کیا تھا۔

مزیدپڑھیں: سعودی عرب: یمن جنگ میں شامل سعودی فوجیوں کیلئے عام معافی کا اعلان

عدالت نے 11 نومبر کو ہونے والے حملے میں مجرم کے ایک ساتھی کو 12 سال اور دوسرے کو 6 ماہ قید کی سزا بھی سنائی اور ریاض کے مطابق اس کا تعلق القاعدہ سے ہے۔

دوسری جانب اسپین کے شہر میڈرڈ سے جاری بیان کے مطابق چاقو کے حملے میں چار اداکار زخمی ہوئے تھے۔

ریاض کے سرکاری ٹی وی کے مطابق 'فوجداری عدالت نے دہشت گردی پر مشتمل حملے کے مجرم کو سزائے موت سے متعلق ابتدائی فیصلہ جاری کردیا'۔

رپورٹ کے مطابق سعودی پولیس نے حملہ آور کی شناخت 33 سالہ یمنی کی طور پر کی۔

دارالحکومت کے شاہ عبداللہ پارک میں لائیو میوزک کے دوران ہی یمنی شخص نے تھیٹر کے فنکاروں پر چھریوں سے حملہ کردیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: یمن: اتحادی افواج کی کارروائی، 51 حوثی باغی ہلاک

واضح رہے کہ شاہ عبداللہ پارک میں 'ریاض سیزن' کے نام سے دو ماہ کے لیے تفریحی میلہ جاری تھا۔

گزشتہ ہفتے الاخباریہ نے کہا تھا کہ حملہ آور نے یمن میں القاعدہ کے ایک رہنما سے حملے سے متعلق احکامات موصول کیے تھے لیکن ابھی تک القاعدہ کی جانب سے ذمہ داری قبول کرنے کا کوئی دعویٰ سامنے نہیں آیا۔

الاخباریہ نے اپنے دعویٰ کے حق میں مزید تفصیلات پیش نہیں کیں۔

واضح رہے کہ سعودی عرب، یمن میں ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے خلاف جاری جنگ میں یمنی حکومت کی حمایت اور فوجی اتحاد کی قیادت کررہا ہے۔

جزیرۃ العرب میں فعال القاعدہ (اے کی اے پی) یمن میں سرگرم ہے۔

خیال رہے کہ گزشتہ برس اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ نے خبردار کیا تھا کہ دنیا کے بدترین انسانی حقوق کے بحران کا سامنا کرنے والے ملک یمن میں قحط کے خلاف جنگ میں شکست کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

مزیدپڑھیں: یمن: اتحادی فوج کی فضائی کارروائی، حوثی رہنما سمیت 26 ہلاک

انسانی حقوق کے سبراہ مارک لوکوک نے کہا تھا کہ ’ملک بھر میں پھیلتے قحط کے نتیجے میں بڑی تعداد میں زندگیوں کے نقصان کو روکنا ناممکن ہے لہٰذا اب ہمیں ایک نقطہ آغاز پر پہنچنا چاہیے‘۔

اگر یمن تنازع کی بات کی جائے تو عرب دنیا کے اس غریب ترین ملک میں 2014 میں اس وقت تنازع شروع ہوا جب حوثی باغیوں نے دارالحکومت صنعا کا کنٹرول سنبھالا اور بین الاقوامی سطح پر تسلیم کردہ حکومت کا تختہ الٹ دیا۔

متحدہ عرب امارات اور دیگر اتحادیوں نے یمنی حکومت اور حوثی باغیوں کے درمیان جاری تنازع میں مارچ 2015 میں مداخلت شروع کی تھی تاکہ حوثی باغیوں کو شکست دے کر بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حکومت کو بحال کیا جاسکے۔

اس کے بعد سعودی عرب کی قیادت میں عرب ممالک کے اتحاد نے حوثیوں کے خلاف لڑائی کا آغاز کیا۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ سعودی عرب اپنے حریف ملک ایران پر حوثی باغیوں کو مدد فراہم کرنے کا الزام عائد کرتا ہے جبکہ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق یمن تنازع میں شامل تمام متحارب گروہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں۔

تاہم اس تنازع کی زد میں بڑی تعداد میں عام شہری آئے اور ہیضے کی وبا نے شدت اختیار کی، جبکہ تنازع کی زد میں اب تک 10 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔