پاکستان

حکومت نے آرڈیننس کے ذریعے نیب کے اختیارات میں کمی کردی

ترمیم کے بعد قومی احتساب بیورو 50 کروڑ روپے سے کم کرپشن کے کیسز کی انکوائری نہیں کرسکے گا، رپورٹ

اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ملک کے احتساب قانون، قومی احتساب آرڈیننس 1999 میں غیرمعمولی تبدیلیاں کردیں جس سے نہ صرف سیاستدان بلکہ بیوروکریٹس اور کاروباری برادری کو 'فائدہ' پہنچے گا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق قومی احتساب (ترمیمی ) آرڈیننس 2019 کے نئے آرڈینس نے قومی احتساب بیورو (نیب) کو غیر موثر بنادیا کیونکہ اب نیب صرف 50 کروڑ روپے سے زائد کی کرپشن سے متعلق کیسز کی انکوائری کرسکے گا۔

حال ہی میں کی گئیں ترمیم نے احتساب قانون کی بنیاد کو ہلادیا ہے جسے 1999 میں سابق وزیراعظم نواز شریف کا تختہ الٹنے کے فوری بعد اس وقت کے آمر حکمران جنرل (ر) پرویز مشرف نے پہلی مرتبہ نافذ کیا تھا۔

مزید پڑھیں: نئے آرڈیننس کے ذریعے نیب کو تاجر برادری سے الگ کردیا، وزیر اعظم

بیوروکریسی اور کاروباری برادری کی متعدد شکایت کو مدنظر رکھتے ہوئے نیب کے اختیارات میں کمی کی گئی۔

خیال رہے کہ بیوروکریسی اور کاروباری برادری نے شکایات کی تھی کہ نیب کی کارروائیوں کی وجہ سے بیوروکریٹس، کاروباری افراد اور صنعت کار بہت زیادہ متاثر ہورہے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلا یہ افسران فائلوں پر دستخط سے گریز کرنے لگے اور کاروباری افراد کوئی سرمایہ کاری کرنے اور نیا انیشیٹو لانے کے خواہش مند نہیں رہے تھے۔

گزشتہ روز کراچی میں ایک تقریب سے خطاب میں وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ صدر عارف علوی کی جانب سے نافذ کیےگئے نئے آرڈیننس سے تاجر برادری کو نیب سے الگ کردیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: مجوزہ نیب قوانین: نجی شہری احتساب کے دائرہ کار میں شامل نہیں ہوں گے

وزیراعظم نے کہا تھا کہ ’نیب اور تاجر برادری کے لیے بہت بڑی رکاوٹ بن گیا تھا‘۔

انہوں نے کہا تھا کہ ’ نیب کو صرف سرکاری افسران کی اسکروٹنی میں مصروف عمل ہونا چاہیے، تاجر برادری کے لیے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اور دیگر اداروں کے ساتھ ساتھ عدالتیں بھی ہیں ‘۔

کچھ ترامیم کے مطابق پراسیکیوٹر جنرل کی تعیناتی میں چیئرمین نیب کا کردار ختم کردیا گیا، نیب انکوائری اور تحقیقات کے مراحل میں عوامی سطح پر کوئی بیان نہیں دے سکتا۔

ترامیم کے مطابق نیب اب 90 روز تک کسی مشتبہ شخص کو تحویل میں نہیں لے سکتا کیونکہ اس مدت کو کم کرکے 14 روز کردیا گیا ہے جبکہ ماضی میں مشتبہ شخص پر پڑنے والا ثبوتوں کا بوجھ اب پروسیکیوشن پر ڈال دیا گیا ہے۔

اس کے ساتھ ایک ترمیم کے ذریعے احتساب قانون میں انکوائری کی تکمیل کے لیے 60 ماہ کے عرصے کی مہلت شامل کی گئی ہے جبکہ ایک اور شق کے ذریعے نیب کو پابند کیا گیا ہے کہ ایک مرتبہ کارروائی مکمل ہونے کے بعد قومی احتساب بیورو کسی شکایت پر انکوائری / تحقیقات کا دوبارہ آغاز نہیں کرسکتا۔

بیوروکریٹس کی پروسیکیوشن کے لیے چیئرمین نیب، کابینہ اور اسٹیبلشمنٹ سیکریٹریز، فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے چیئرمین اور سیکیورٹز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان اور ڈویژن برائے قانون و انصاف کے نمائندے پر مشتمل 6 رکنی اسکروٹنی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے اور ان کی منظوری کے بغیر نیب کسی سرکاری ملازم کے خلاف انکوائری تحقیقات کا آغاز نہیں کرسکتا نہ ہی انہیں گرفتار کرسکتا ہے۔

علاوہ ازیں ایک اور ترمیم کے ذریعے نیب کو اسکروٹنی کمیٹی کی پیشگی منظوری کے بغیر کسی پبلک آفس ہولڈر کی جائیداد ضبط کرنے سے روک دیا گیا ہے۔

ایک ترمیم کے مطابق ’ متعلقہ حکام یا محکموں کو انکوائریاں اور تحقیقات منتقل کی جائیں گے‘۔

اس کے ساتھ ہی ‘ ٹرائلز کو متعلقہ احتساب عدالتوں سے ٹیکس، لیویز اور محصولات کے متعلقہ قوانین کے تحت نمٹنے والی کرمنل کورٹس میں منتقل کیا جائے گا‘۔