شہریت قانون پر بھارتی آرمی چیف کا بیان، فوجی افسران کی کڑی تنقید
نئی دہلی: بھارتی آرمی چیف جنرل بپن راوت نے ملک میں متنازع شہریت کے قانون کے خلاف احتجاج کرنے والوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ طلبہ سمیت مشتعل ہجوم کی رہنمائی کرنا لیڈرشپ نہیں ہے۔
یاد رہے کہ بھارتی حکومت نے 12 دسمر کو ’متنازع شہریت بل‘ کو قانون بنایا تھا جس کے تحت پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے 6 مذاہب کے غیرمسلم تارکین وطن ہندو، عیسائی، پارسی، سکھ، جینز اور بدھ مت کے ماننے والوں کو بھارتی شہریت کی فراہمی ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق بھارتی آرمی چیف کے بیان کے بعد انہیں ریٹائرڈ اور حاضر سروس فوجی افسران کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آرمی چیف متنازع قانون سے متعلق سیاسی بحث میں لاحاصل دخل دے رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: متنازع شہریت ترمیمی بل کی منظوری، بنگلہ دیشی وزرا کا دورہ بھارت منسوخ
ہیلتھ کیئر لیڈرشپ سمٹ میں خطاب کے دوران بھارتی آرمی چیف جنرل بپن راوت نے کہا کہ 'قائدین وہ لوگ نہیں ہیں جو لوگوں کو نامناسب سمتوں کی جانب لے جاتے ہیں، ہم بڑی تعداد میں یونیورسٹیز اور کالجوں کے طلبا میں گواہی دے رہے ہیں یہ قیادت نہیں ہے'۔
انہوں نے کہا کہ 'قائد وہ شخص ہوتا ہے جو آپ کو صحیح سمت کی جانب لے جاتا ہے، آپ کو صحیح مشورے دیتا ہے اور پھر اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ وہ ان لوگوں کی دیکھ بھال کرے جن کی وہ رہنمائی کرتا ہے، اس لیے ہماری ذاتی مثال ہے جو ہمیں مسلح افواج کو قابل فخر بناتی ہے'۔
واضح رہے کہ آرمی چیف جنرل 31 دسمبر کو ریٹائرر ہورہے ہیں اور اس کے بعد وہ پہلے چیف آف ڈیفنس کا عہدہ سنبھالیں گے۔
فوج کے ریٹائرڈ افسران نے آرمی چیف پر زور دیا کہ مسلح افواج کو اپنے غیر سیاسی اور سیکولر اخلاق کے ساتھ فخر کرنا چاہیے، آرمی چیف نے شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف جاری مظاہروں کے خلاف عوامی موقف اختیار کرتے ہوئے 'پھر سے لائن عبور کرلی' ہے۔
مزید پڑھیں: اکشے کمار کو متنازع شہریت ترمیمی قانون کی حمایت مہنگی پڑ گئی
سابق نیوی چیف ریٹائرڈ ایڈمرل ایل رامداس نے کہا کہ جنرل راوت کے بیانات واضح طور پر 'غلط' تھے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ مسلح افواج کے اہلکاروں کو 'ملک کی خدمت کرنے کے دہائیوں پرانے اصول پر عمل کرنا چاہیے نہ کہ کسی سیاسی طاقت' کے۔
ریٹائرڈ ایڈمرل ایل رامداس نے کہا کہ مسلح افواج کے پاس 'ایک داخلی ضابطہ ہے جس میں کہا گیا ہے کہ وہ غیرجانبدار اور متعصبانہ نہیں ہونا چاہیے'۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ قواعد کئی دہائیوں سے رہنمائی کا محور ہے۔
ایک سینئر حاضر سروس افسر نے کہا کہ 'بھارتی آرمی انتہائی سیاسی ہوتی جارہی ہے'۔
ان کا کہنا تھا کہ سرحد پار سرجیکل اسٹرائیکس (2016) اور رواں برس فروری میں بالاکوٹ کے فضائی حملوں سے لے کر یوپی کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ تک سب نے انتخابی جلسوں میں بھارتی فوج کو 'مودی جی کی سینا' قرار دیا۔
یہ بھی پڑھیں: دہلی: شہریت قانون کے خلاف جامع مسجد کے باہر مظاہرے، 'دلت رہنما' گرفتار
ایک اور افسر نے کہا کہ 'افسوس کی بات یہ ہے کہ سینئر افسران اپنی افواج میں اعلی عہدوں کے لیے جستجو کررہے ہیں اور بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ وہ صحیح سیاسی روابط یا حکومت حامی بیانات دینے سے ترقی حاصل کرسکتے ہیں'۔
شہریت قانون کیا ہے؟
خیال رہے کہ بھارتی حکومت نے 12دسمر کو ’متنازع شہریت بل‘ کو قانون بنایا تھا جس کے تحت پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے 6 مذاہب کے غیرمسلم تارکین وطن ہندو، عیسائی، پارسی، سکھ، جینز اور بدھ مت کے ماننے والوں کو بھارتی شہریت کی فراہمی ہے۔
اس بل کے تحت 1955 کے شہریت ایکٹ میں ترمیم کر کے منتخب کیٹیگریز کے غیرقانونی تارکین وطن کو بھارتی شہریت کا اہل قرار دیا جائے گا۔ اس قانون کے تحت 31 دسمبر 2014 سے قبل 3 پڑوسی ممالک سے بھارت آنے والے ہندوؤں، سکھوں، بدھ متوں، جینز، پارسیوں اور عیسائیوں کو بھارتی شہریت دی جائے گی۔
بل کے قانون بن جانے کے بعد اس کے خلاف نئی دہلی سمیت بھارت کے دیگر کئی شہروں میں بڑے پیمانے پر مظاہرے شروع ہوگئے تھے اور 16 دسمبر تک بھارت میں ہونے والے مظاہروں میں 6 افراد ہلاک اور 100 سے زائد افراد زخمی ہوگئے تھے۔
اس بل کے خلاف 16 دسمبر کے بعد مظاہروں میں مزید شدت آگئی اور 23 دسمبر تک ان مظاہروں میں 25 افراد ہلاک جب کہ 250 سے زائد زخمی ہوچکے تھے اور پولیس نے درجنوں مطاہرین کو گرفتار کرلیا تھا۔
دی وائر کی رپورٹ کے مطابق ہلاک ہونے والے 25 افراد میں سے 18 افراد ریاست اترپردیش میں ہلاک ہوئے جب کہ ہلاک ہونے والوں میں ایک 8 سالہ بچہ بھی شامل ہے۔
ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تر کی عمریں 30 سے کم ہیں اور ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تر مسلمان ہے، تاہم مسیحی اور ہندو نوجوان بھی پولیس تشدد اور مظاہرین کی فائرنگ سمیت تشدد سے ہلاک ہوئے۔