پاکستان

ڈاکٹرعبدالقدیر کی نقل و حرکت پر پابندی کے خلاف درخواست پر سپریم کورٹ کا اعتراض

لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کی نقل منسلک نہیں کی گئی اور تاریخوں کا اندراج بھی درست نہیں کیا گیا، رجسٹرار سپریم کورٹ

ایٹمی سائنس دان ڈاکڑ عبدالقدیرخان کی جانب سے ان کی نقل و حرکت پر پابندی کے خلاف دائر کی گئی درخواست پر سپریم کورٹ کے رجسٹرار نے اعتراضات لگا کر واپس کر دی۔

سپریم کورٹ کی جانب سے اٹھائے گئے اعتراضات میں کہا گیا ہے کہ درخواست کے ساتھ لاہور ہائی کورٹ کا حبس بے جا میں رکھنے سے متعلق فیصلے کی نقل منسلک نہیں کی گئی اور متعلقہ سرٹیفکیٹ بھی درست نہیں بنایا گیا۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی درخواست پر ایک اعتراض یہ کہ درخواست کے ساتھ لگائے گئے انڈیکس میں تاریخوں کا اندراج بھی درست نہیں کیا گیا۔

خیال رہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ملک بھر میں آزادانہ نقل و حرکت سمیت ان کے بنیادی حقوق پر عمل درآمد کے لیے 23 دسمبر کو سپریم کورٹ آف پاکستان سے رجوع کرلیا تھا۔

مزید پڑھیں:ڈاکٹر عبدالقدیر نے نقل و حرکت پر پابندی سپریم کورٹ میں چیلنج کردی

ایڈووکیٹ زبیر افضل رانا کے توسط سے عدالت عظمیٰ میں دائردرخواست میں کہا گیا تھا کہ آزادانہ نقل و حرکت سمیت بنیادی حقوق، معقول پابندیوں کی آڑ میں کسی کی پسند یا ناپسند پر کم یا سلب نہیں کیے جاسکتے۔

ڈٓاکٹرعبدالقدیر خان نے لاہور ہائی کورٹ کے 25 ستمبر 2019 کے اس فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ میں اپیل دائر کی تھی جس میں ان کی اسی طرح کی ایک درخواست کو اس بنیاد پر مسترد کردیا گیا تھا کہ ان کے تحفظ کے لیے ریاست کی جانب سے خصوصی سیکیورٹی اقدامات کا معاملہ ان کے دائرہ کار میں نہیں۔

درخواست میں سوال کیا گیا تھا کہ کیا سرکاری عہدیداروں کو درخواست گزار، ان کے قریبی اور عزیز لوگوں، ملازمین، اہل خانہ، دوستوں، صحافیوں، مختلف کالجوں، یونیورسٹی کے اساتذہ، اعلیٰ حکام اور بیورو کریٹس سے ملنے سے روکنے کے آئینی تحفظ کی خلاف ورزی کی اجازت دی جاسکتی ہے۔

مذکورہ درخواست میں یہ بھی سوال کیا گیا تھا کہ کیا لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے اس شکایت کے ازالے کے لیے درخواست گزار کو اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کا بنیادی مشورہ دینے کا جواز درست تھا۔

یہ بھی پڑھیں:ڈاکٹر عبدالقدیر کی نقل و حرکت پر پابندی کے خلاف درخواست کی ان کیمرا سماعت منظور

ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی درخواست کے مطابق انہیں سیکیورٹی حکام کی پیشگی منظوری کے بغیر ملک میں گھومنے پھرنے، کسی سماجی یا تعلیمی تقریب میں شرکت کرنے کی اجازت نہیں، یہ صورت حال درخواست گزار کو ورچوئل قید میں رکھنے کے مترادف ہے۔

انہوں نے کہا کہ سیکیورٹی حکام کا یہ فعل غیر قانونی ہے کیونکہ ابھی تک میرے ساتھ ایسا سلوک رکھنے کا کوئی حکم نہیں دیا گیا جو اس بات کی ضمانت دیتا ہو، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ سیکیورٹی ایجنسیز کے اہلکاروں کی دوسری کوئی ذمہ داری نہیں لیکن مجھے اپنے گھر تک ہی محدود رکھ دیا گیا ہے جیسے میں قید تنہائی میں ہوں۔

ایٹمی سائنسدان کا کہنا تھا کہ یہ صورت حال جنوری 2004 میں شروع ہوئی جب انہیں سلامتی کے نام پر نظر بند کردیا گیا۔

انہوں نے درخواست میں کہا کہ انہیں کسی دوست تک رسائی نہیں تھی یہاں تک کہ وہ کچھ گھروں کے فاصلے پر رہنے والی بیٹی اور اس کے بچوں سے بھی نہیں مل سکتے تھے جبکہ بری صورتحال یہ تھی کہ وہ عدالت سے بھی رسائی نہیں کرسکتے تھے۔

ایف آئی اے کا پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مرکزی سیکریٹریٹ پر چھاپہ

حکومت کا بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے 8لاکھ افراد کو ہٹانے کا دفاع

'بولی وڈ کے تینوں خان متنازع شہریت قانون پر خاموشی توڑیں'