پاکستان

ضمانت کے بعد رانا ثنا رہا: استغاثہ کے کیس میں 'خامیاں' واضح ہیں، تفصیلی فیصلہ

ہمارے ملک میں سیاسی انتقام کا نشانہ بنانا حقیقت ہے، اس پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، لاہور ہائیکورٹ
|

لاہور ہائی کورٹ نے منشیات برآمدگی کیس میں مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر رانا ثنا اللہ درخواست ضمانت پر تفصیلی فیصلہ جاری کردیا جبکہ ان کی رہائی کی روبکار جاری ہونے کے بعد جیل سے رہائی عمل میں آگئی۔

لاہور ہائیکورٹ نے منشیات برآمدگی کیس میں مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر رانا ثنا اللہ کی درخواست ضمانت پر اپنے تفصیلی فیصلے میں کہا کہ پروسیکیوشن کی کیس میں خامیاں واضح ہیں اور اس بات کی نشاندہی کی کہ درخواست گزار (رانا ثنااللہ) پر الزام کی مزید تحقیقات کرنے کی ضرورت جبکہ یہ مقدمہ بھی مزید تفتیش کا متقاضی ہے۔

واضح رہے کہ دو روز قبل لاہور ہائی کورٹ نے 6 ماہ سے قید رانا ثنا اللہ کی درخواست ضمانت منظور کرتے ہوئے 10، 10 لاکھ روپے کے 2 مچلکوں کے عوض ان کی رہائی کا حکم دیا تھا اور اس کے بعد آج لاہور ہائی کورٹ میں ان کے ضمانتی مچلکوں کی تصدیق کے بعد رہائی عمل میں آئی۔

مزید پڑھیں: رانا ثنا اللہ کے خلاف کیس ختم نہیں ہوا، ابھی بھی ملزم ہیں، شہریار آفریدی

صوبائی دارالحکومت لاہور کی عدالت عالیہ میں جسٹس چوہدری مشتاق احمد نے رانا ثنااللہ کی منشیات برآمدگی کیس میں ضمانت کی درخواست پر محفوظ شدہ فیصلہ سنایا تھا تاہم آج مذکورہ معاملے پر تفصیلی فیصلہ جاری کیا گیا۔

ڈان کو موصول شدہ تفصیلی فیصلے کے مطابق لاہور ہائیکورٹ کے جج جسٹس چوہدری مشتاق نے ریمارکس دیے کہ یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ راوی ٹول پلازہ پر رانا ثنااللہ کو روکا گیا۔

تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ ان کی گاڑی راوی ٹول پلازہ پر روکی گئی اور رانا ثنااللہ کی گرفتاری کے دوران موقع پر ریکوری میمو نہیں بنایا گیا۔

فیصلے کے تحریر کنندہ جسٹس چوہدری مشتاق احمد نے لکھا کہ 'ریکارڈ سے یہ بات واضح ہے کہ پروسیکیوشن کے کیس میں خامیاں موجود ہیں مثلاً برآمدگی کے موقع پر ریکووری میمو تیار نہ کرنا، مدعی کے منشیات اسمگلنگ نیٹ ورک سے منسلک ہونے کے بارے میں تفتیش نہ ہونا اور درخواست گزار سے مبینہ درآمد شدہ 15 کلو ہیروئن میں سے صرف 20 گرام بھیجنا بادی النظر میں اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ درخواست گزار پر لگے الزام کی مزید تحقیقات کی ضرورت ہے اور یہ کیس مزید تفتیش کا متقاضی ہے'۔

اس کے ساتھ جج نے یہ بات بھی کہی کہ اس کیس کے دیگر ملزمان کو ٹرائل کورٹ سے ضمانت مل گئی تھی جس کے خلاف پروسیکوشن نے اپیل بھی نہیں کی۔

اپنے تفصیلی فیصلے میں لاہور ہائی کورٹ نے انسداد منشیات فورس (اے این ایف) کے اسپیشل پراسیکیوٹر کی جانب سے درخواست پر کیے گئے اعتراض کو بھی مسترد کردیا۔

فیصلے میں ایف آئی آر اور دستیاب دیگر ریکارڈ کے مواد کی بنیاد پر مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر کی گرفتاری کا احوال بھی درج کیا گیا۔

تحریری حکم کے مطابق 'راوی ٹول پلازہ لاہور میں رانا ثنا اللہ کی آمد کے بارے میں اطلاع ملنے کے بعد 21 رکنی چھاپہ مار ٹیم تشکیل دی گئی، اس وقت رانا ثنا اللہ اپنے گن مین (جن کی تعداد 5 تھی) کے ہمراہ ٹول پلازہ پر روکے گئے اور چھاپہ مار ٹیم نے ان سب کو غیر مسلح کردیا'۔

یہ بھی پڑھیں: مسلم لیگ (ن) کے رہنما رانا ثنااللہ کے جوڈیشل ریمانڈ میں 4 جنوری تک توسیع

تفصیلی فیصلے میں عدالت نے ریمارکس دیے کہ عموماً منشیات کے مقدمات میں شفافیت کے لیے وقوع پر تمام قانونی کارروائی کی جاتی ہے۔

تاہم لاہور ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ حیرت انگیز طور پر مبینہ طور پر منشیات برآمد ہونے پر جائے وقوع پر کوئی ریکوری میمو تیار نہیں کیا گیا بلکہ ملزمان اور کیس پراپرٹی کو پولیس اسٹیشن لے جایا گیا جہاں ضروری دستاویزی کارروائی کی گئی۔

عدالت نے کہا کہ ایف آئی آر میں یہ بھی بتایا گیا کہ درخواست گزار (رانا ثنا اللہ) کے گن مین نے زور زبردستی سے درخواست گزار کو بچانے کے لیے چھاپہ مار ٹیم کے ساتھ ہاتھا پائی کی لیکن ان پر قابو پا کر غیر مسلح کردیا گیا۔

فیصلے مطابق 'اس کے بعد گاڑی میں ایک سوٹ کیس ملا جس کا وزن ساڑھے 21 کلو گرام تھا لیکن اس سوٹ کیس کو درخواست گزار اور اس کے گن مین اور گاڑی کے ہمراہ پولیس اسٹیشن، ریجنل ڈائریکٹوریٹ اے این ایف لاہور لایا گیا جہاں دیگر کارروائی کی گئی جس میں برآمدگی کا میمو تیار کرنا اور پارسل کو سربہ مہر کرنا شامل تھا'۔

فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ کیمیائی تجزیے کے لیے بھیجنے کی خاطر 15 کلو گرام ہیروئن میں سے 20 گرام کا سیمپل پارسل تیار کیا گیا۔

مذکورہ فیصلے کے مطابق 'جائے وقوع پر دستاویز تیار نہ کرنے کی وضاحت میں کہا گیا کہ راوی ٹول پلازہ پر اپنی گاڑیوں میں آس پاس سے گزرنے والے افراد جمع ہونا شروع ہوگئے تھے جس کی وجہ سے ملزم کو کیس پراپرٹی اور گاڑی کے ہمراہ پولیس اسٹیشن لایا گیا'۔

جسٹس چوہدری مشتاق احمد نے مزید کہا کہ 'لہذا موقع پر کارروائی نہ کرنے کی پیش کردہ وضاحت نہ تو قابل احترام ہے اور نہ ہی قابل اعتماد ہے'۔

عدالت عالیہ کے جج نے فیصلے میں لکھا کہ جب اگلے روز ملزم کو عدالت میں پیش کیا گیا تو تفتیشی افسر نے موجودہ درخواست گزار (رانا ثنااللہ) کی نگرانی میں مبینہ طور پر چلنے والے نیٹ ورک کی تفتیش کے لیے جسمانی ریمانڈ کی استدعا نہیں کی۔

فیصلے کے مطابق 'اس سے اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ تفتیشی ایجنسی منشیات اسمگلنگ کے حوالے سے درخواست گزار کی سرگرمیوں سے پردہ اٹھانے میں دلچسپی نہیں رکھتی تھی'۔

مزیدپڑھیں: رانا ثنااللہ نے ضمانت پر رہائی کیلئے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کر لیا

عدالت نے فیصلے میں ریمارکس دیے کہ رانا ثنااللہ کے وکلا کہتے ہیں کہ یہ منشیات کی برآمدگی کا مقدمہ حکومت پر تنقید کی وجہ سے بنایا گیا۔

تاہم عدالت نے کہا کہ ضمانت کے کیس میں ایسے دلائل کو اہمیت نہیں دی جاتی لیکن ہمارے ملک میں سیاسی انتقام کا نشانہ بنانا حقیقت ہے اور اس پہلو کو نظر انداز بھی نہیں کیا جا سکتا۔

تحریری فیصلے میں عدالت نے ریمارکس دیے کہ قانون کےتحت الزام کی سنگینی کی بنیاد پر ضمانت خارج نہیں کی جا سکتی اور میرٹ میں یہ بات سامنے آئی کہ پروسیکیوشن کا کیس مشکوک ہے اور ضمانت کے موقع پر شک کا فائدہ ہمیشہ ملزم کو ملتا ہے۔

فیصلے میں مزید کہا گیا کہ مشکوک نوعیت کے معاملات میں سزا سے پہلے ملزمان کی قید کو عدالتیں کبھی منظور نہیں کرتیں اس لیے رانا ثنا اللہ کی ضمانت منظور کی جاتی ہے۔

روبکار جاری ہونے کے بعد رانا ثنااللہ کی رہائی

دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور پنجاب کے صوبائی صدر رانا ثنا اللہ نے ٹرائل کورٹ کے ججز کی چھٹیوں کی وجہ سے ضمانتی مچلکے ہائیکورٹ میں جمع کرانے کی درخواست دائر کی۔

واضح رہے کہ ضمانتی مچلکے اس عدالت میں جمع کرانا پڑتے ہیں جہاں مرکزی مقدمہ چل رہا ہو، تاہم رانا ثنا اللہ نے ججز کی چھٹیوں پر ہونے کی وجہ سے اعلیٰ عدالت سے رجوع کیا۔

درخواست میں موقف اختیار کیا کہ ٹرائل کورٹ کے ججز چھٹیوں پر ہیں۔

بعدازاں جسٹس مشتاق نے مچلکے لاہور ہائیکورٹ میں ہی جمع کرانے کی اجازت دی اور ان مچلکوں کی تصدیق کے بعدلاہور ہائیکورٹ آفس نے رانا ثنا اللہ کی رہائی کی روبکار جاری کردی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: منشیات برآمدگی کیس: رانا ثنا کی لاہور ہائیکورٹ میں درخواست ضمانت دائر

روبکار ڈپٹی رجسٹرار جوڈیشل کی جانب سے کیمپ جیل سپرنڈنٹ کے نام پر جاری کی گئی تھی جسے خصوصی عدالتی نمائندہ جیل لے کر گئے۔

بعدازاں رانا ثنا اللہ کی رہائی عمل میں آئی، اس موقع پر لیگی کارکنوں کی بڑی تعداد ان کو خوش آمدید کہنے کے لیے جیل پہنچی اور ان پر پھول کی پتیاں نچھاور کیں۔

منشیات کیس ختم نہیں ہوا، شہریار آفریدی

واضح رہے کہ گزشتہ روز وزیر مملکت شہریار آفریدی نے منشیات اسمگلنگ کیس میں مسلم لیگ (ن) کے رہنما رانا ثنا اللہ کی ضمانت کے بعد پہلی پریس کانفرنس میں واضح کیا تھا کہ بیرون ملک ہونے کی وجہ سے گزشتہ روز کابینہ کے اجلاس میں شریک نہیں ہوسکا جبکہ رانا ثنا اللہ کی ضمانت کے بعد تاثر دیا گیا کہ میں نے راہ فرار اختیار کرلی اور منشیات کیس ختم ہوگیا۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا تھا کہ عدالت نے رانا ثنا اللہ کو ضمانت پر رہا کیا، منشیات کیس ختم نہیں ہوا، اس لیے مسلم لیگ (ن) کے رہنما ابھی تک ملزم ہیں۔

شہریار آفریدی نے بتایا تھا کہ رانا ثنا اللہ کی گرفتاری کے 17 دن کے اندر فوٹیجز سمیت تمام ثبوت عدالت کو فراہم کردیے تھے۔

انہوں نے تردید کی تھی کہ ‘میں کانفرنس میں لفظ ویڈیو نہیں بلکہ فوٹیج استعمال کیا تھا’۔

رانا ثنااللہ کے معاملے میں کب کیا ہوا؟

پاکستان مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر اور رکن قومی اسمبلی رانا ثنا اللہ کو انسداد منشیات فورس نے یکم جولائی 2019 کو گرفتار کیا تھا۔

اے این ایف نے مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر رانا ثنا اللہ کو پنجاب کے علاقے سیکھکی کے نزدیک اسلام آباد-لاہور موٹروے سے گرفتار کیا تھا۔

ترجمان اے این ایف ریاض سومرو نے گرفتاری کے حوالے سے بتایا تھا کہ رانا ثنااللہ کی گاڑی سے منشیات برآمد ہوئیں، جس پر انہیں گرفتار کیا گیا۔

گرفتاری کے بعد رانا ثنا اللہ کو عدالت میں پیش کیا گیا تھا جہاں انہیں 14 روز کے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجا گیا تھا، جس میں کئی بار توسیع ہو چکی ہے۔

مزید پڑھیں: مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر رانا ثنا اللہ کو اے این ایف نے گرفتار کرلیا

بعد ازاں عدالت نے اے این ایف کی درخواست پر رانا ثنا اللہ کو ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا جبکہ گھر کے کھانے کی استدعا بھی مسترد کردی تھی۔

علاوہ ازیں رانا ثنااللہ نے ضمانت پر رہائی کے لیے لاہور کی انسداد منشیات عدالت میں درخواست دائر کی تھی، جس پر 20 ستمبر کو عدالت نے دیگر 5 ملزمان کی ضمانت منظور کرلی لیکن رانا ثنااللہ کی رہائی کو مسترد کردیا۔

بعد ازاں 6 نومبر کو انہوں نے نئے موقف کے ساتھ انسداد منشیات کی عدالت سے ضمانت کے لیے ایک مرتبہ پھر رجوع کیا تاہم 9 نومبر کو اس درخواست کو بھی مسترد کردیا گیا تھا، جس کے بعد انہوں نے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

گزشتہ روز لاہور ہائی کورٹ نے منشیات برآمدگی کیس میں گرفتار مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر رانا ثنا اللہ کی درخواست ضمانت منظور کرتے ہوئے 10، 10 لاکھ روپے کے 2 مچلکے کے عوض ان کی رہائی کا حکم دے دیا تھا۔