14 دسمبر کو صبح ہی صبح ایک قاری جناب ابوالقاسم کا فون آگیا۔ جیسا ان کا نام ہے ویسی ہی آواز بھی زوردار ہے۔ انہیں کبھی دیکھا نہیں، بس سنا ہی سنا ہے اور وہ بھی اس وقت جب کہیں کوئی غلطی ہوجاتی ہے۔ اس لحاظ سے تو دن میں کئی بار فون آنا چاہیے، لیکن وہ طرح دے جاتے ہوں گے۔
ان کی آواز پہچانتے ہی بے ساختہ پوچھا ’اب کیا غلطی ہوگئی؟‘ کہنے لگے ’آج کے ادارتی صفحے پر ملک الطاف حسین نے اپنے مضمون میں لکھا ہے ’افغانستان کی آزادی اور خود مختیاری‘۔ یہ مختیاری کیا ہوتی ہے؟‘ یہ ’مختیاری‘ یا ’مختیارکار‘ وغیرہ اتنا عام ہوگیا ہے کہ پیچھا نہیں چھوڑ رہا۔ مختیار بالکل بے معنیٰ لفظ ہے، باقی بولنے اور لکھنے والوں کا اختیار ہے۔ لوگ میر تقی میرؔ کی بات بھی نہیں مانتے جنہوں نے کہا تھا
ناحق ہم مجبوروں پر تہمت ہے مختاری کی
اب یہ تہمت ’مختیاری‘ کی ہے۔
مختار عربی زبان کا لفظ ہے اور مطلب ہے بااختیار، آزاد، مجاز۔ رشکؔ کا شعر ہے
عقل و حواسِ خمسہ کو بے کار کردیا
ہم نے جنابِ عشق کو مختار کردیا
قانون میں ایک ’مختارِ عام‘ بھی ہوتا ہے یعنی وہ شخص جس کے نام مختارنامہ عام ہو۔ ایک ’مختارِ مطلق‘ اور ’مختارِ کُل‘ بھی ہوتا ہے، لیکن یہ مختیاری کیا ہے؟