شہریت قانون کے خلاف احتجاج پر جرمن طالبعلم کو بھارت چھوڑنے کا حکم
نئی دہلی: بھارت کے متنازع شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کرنے پر بیورو آف امیگریشن حکام نے جرمن طالبعلم کو ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ میں بھارتی اخبار دی ہندو کی رپورٹ کے حوالے سے بتایا گیا کہ جرمن تعلیمی ادارے ٹیکنیکل یونیورسٹی ڈریسڈن سے ایکسچینج پروگرام کے تحت مدراس کے انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں زیر تعلیم جیکوب لِنڈینتھل کو بتایا گیا کہ انہوں نے ویزا کے ضوابط کی خلاف ورزی کی۔
مزید پڑھیں: اکشے کمار کو متنازع شہریت ترمیمی قانون کی حمایت مہنگی پڑ گئی
مدراس کیمپس میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مظاہروں میں جیکوب لِنڈینتھل نے ایک پلے کارڈ اٹھا رہا تھا جس پر '1933 سے 1945 تک ہم یہاں موجود ہیں' درج تھا۔
جرمنی میں نازی حکومت کے حوالے سے ایک اور پلے کارڈ پر درج تھا کہ 'اختلاف رائے کے بغیر جمہوریت نہیں'۔
نیوز منٹ سے بات کرتے ہوئے جرمن طالبعلم جیکوب لِنڈینتھل نے کہا کہ بھارتی آئین سیکولر ہے اور حکمران حکومت جو کچھ کررہی ہے وہ امتیازی سلوک کی ایک واضح شکل ہے۔
انہوں نے کہا کہ 'میں جرمنی سے ہوں اور بخوبی واقف ہوں کہ جب اس قسم کے امتیازی سلوک کا رویہ روا رکھا جائے گا تو کیا ہوتا ہے'۔
جرمن طالبعلم کو چنئی میں بی او آئی کے دفتر طلب کیا گیا جہاں ان سے بھارتی سیاست اور شہریت ترمیمی قانون مخالف مظاہروں کے بارے میں متعدد سوالات کیے گئے۔
یہ بھی پڑھیں: متنازع شہریت ترمیمی بل کی منظوری، بنگلہ دیشی وزرا کا دورہ بھارت منسوخ
تفتیش کے بعد انہیں بتایا گیا کہ انہیں فوری طور پر ملک چھوڑنا پڑے گا اور اور بھارت میں واپسی کے لیے دوبارہ درخواست دے سکتے ہیں۔
دوسری جانب جرمن قونصل خانے نے جیکوب لِنڈینتھل کے لیے ماحول غیر محفوظ سمجھتے ہوئے انہیں مدد کے لیے وکلا سے رابطے کی ہدایت کی لیکن جرمن طالبعلم نے بھارت چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔
واضح رہے کہ جیکوب لِنڈینتھل کا تعلیمی پروگرام مئی 2020 میں ختم ہونا تھا اس اعتبار سے ابھی ان کا ایک سمسٹر باقی تھا۔
انہوں نے بتایا کہ 'چنئی پہنچنے کے بعد میرے کورس کوآرڈینیٹر نے فوری طور پر امیگریشن حکام سے ملنے کا مشورہ دیا' اور 'جب میں وہاں پہنچا تو انہوں نے بھارت میں رہائشی اجازت نامے سے متعلق کچھ انتظامی امور پر بات کی'۔
جرمن طالبعلم نے مزید بتایا کہ 'میرے رہائشی اجازت نامے سے متعلق تسلی بخش جوابات کے بعد انہوں نے مجھ سے سیاست اور مشاغل کے بارے میں پوچھنا شروع کیا، یہ ایک وسیع آرام دہ اور پرسکون گفتگو تھی'۔
مزید پڑھیں: گجرات مسلم کش فسادات: بھارتی کمیشن نے مودی کو کلین چٹ دےدی
جیکوب لِنڈینتھل نے بتایا کہ 'حکام نے شہریت ترمیمی قانون اور مذکورہ قانون مخالف مظاہروں میں میری شمولیت کے بارے میں پوچھا'۔
جرمن طالبعلم کا کہنا تھا بھارتی حکام نے طلبہ کی ایک تنظیم چنتابار سے تعلق کے بارے میں بھی پوچھا تھا جس نے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کا اہتمام کیا تھا۔
جرمن طالبعلم کے مطابق 'انہوں نے ایک سوال پر وضاحت دی کہ یہ سب لوگوں کے بنیادی انسانی حقوق کے بارے میں ہے، بات چیت جارحانہ نہیں تھی، میں اپنے جوابات میں اعتدال پسند تھا اور اپنے خیالات کی وضاحت کررہا تھا'۔
جیکولِنڈینتھل نے کہا کہ 'میں کیمپس سے محبت کرتا ہوں، میں بھارت سے پیار کرتا ہوں لیکن مجھے ملک میں غیر اخلاقی زیادتیوں کی فکر ہے'۔
ایک بیان میں چنتابار نے بھارت میں لوگوں کے حقوق کے تحفظ اور انسانیت کے لیے آواز اٹھانے کی جدوجہد کا حصہ بننے پر جیکوب لِنڈینتھل سے اظہار یکجہتی اور شکریہ ادا کیا تھا۔
واضح رہے کہ بھارت میں متنازع شہریت قانون کے خلاف پرتشدد احتجاج کا سلسلہ جاری ہے، جس میں اب تک درجنوں افراد ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ مختلف ریاستوں میں احتجاج پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔
یاد رہے کہ اس شہریت بل کو قانون بنانے کے لیے بھارت کے ایوان زیریں یعنی لوک سبھا نے 9 دسمبر 2019 جب کہ ایوان بالا یعنی لوک راجیا سبھا نے 11 دسمبر کو منظور کیا تھا اور اگلے دن بھارتی صدر نے اس بل پر دستخط کردیے تھے جس کے بعد مذکورہ بل قانون بن گیا تھا۔
اس قانون کے تحت پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے 6 مذاہب کے غیر مسلم تارکین وطن ہندو، عیسائی، پارسی، سکھ، جینز اور بدھ مت کے ماننے والوں کو بھارتی شہریت کی فراہمی ہے، اس قانون کے تحت 1955 کے شہریت ایکٹ میں ترمیم کر کے منتخب کیٹیگریز کے غیرقانونی تارکین وطن کو بھارتی شہریت کا اہل قرار دیا جائے گا۔