وفاقی محتسب کا ایف بی آر حکام کے خلاف کارروائی کا حکم
اسلام آباد: وفاقی ٹیکس محتسب (ایف ٹی او) نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو ہدایت کی ہے کہ وہ 2011 سے 2014 کے درمیان لاکھوں جعلی سیلز ٹیکس ریفنڈز کی منظوری دینے والے افسران کے خلاف تادیبی کارروائی شروع کرے۔
ڈائریکٹوریٹ جنرل (ڈی جی) انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن آف ان لینڈ ریونیو (آئی اینڈ آئی-آئی آر) ایف بی آر کی جانب انکشاف کیا گیا تھا کہ 4 معاملات (کیسز) میں ٹیکس حکام نے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 6 کروڑ 40 لاکھ روپے سے زائد ریفنڈز کی رقم جاری کی۔
مزیدپڑھیں: صنعت کار ٹیکس چوری کے لیے جعلی اکاؤنٹس استعمال کرنے لگے
نوٹس میں یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کریسنٹ اور یاسدان ٹریڈرز انٹرنیشنل کو 4کروڑ 69 لاکھ روپے سے زائد، اے زیڈ کو 75 لاکھ روپے سے زائد، سیلیکون انٹرنیشنل کو 54 لاکھ 58 ہزار روپے اور امہارک ٹریڈرز کو 41 لاکھ 20 ہزار روپے کے ریفنڈز جاری کیے گئے۔
ایف ٹی او کی تحقیقات میں انکشاف ہوا کہ ڈی جی آئی اینڈ آئی-آئی آر نے معاملہ سامنے آنے پر متعلقہ حکام کو 'ریڈ الرٹس' جاری کیا تھا لیکن ایف بی آر میں ان جعلی دعویداروں اور ان کا ساتھ دینے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔
علاوہ ازیں پاکستان ریونیو اتھارٹی لمیٹڈ منیجمنٹ نے متعلقہ بینک افسران کے خلاف بھی کوئی کارروائی تجویز نہیں کی جنہوں نے وہ بینک اکاؤنٹس کھولے جن کے ذریعے ریفنڈ چیک تیار کیے گئے۔
اس کے سات ساتھ ڈی جی آئی اینڈ آئی-آئی آر نے ٹیکس چوری جیسے اہم معاملے پر ایف بی آر کی کارکردگی پر سوال بھی اٹھائے۔
یہ بھی پڑھیں: شبر زیدی کی بطور ایف بی آر چیئرمین تعیناتی چیلنج
ادھر ایف ٹی او کے انکشافات سے پتہ چلتا ہے کہ ایف بی آر کے عملے کی ملی بھگت سے جعلی افراد رجسٹرڈ تھے جبکہ جعلی اور فلائنگ واؤچر کی بنیاد پر ریفنڈ کا دعوی کیا گیا جس کی وجہ سے پہلے ہی خسارے کے حامل ادارے کو مزید نقصان پہنچا۔
اگرچہ ڈی جی آئی اینڈ آئی-آئی آر کراچی نے الرٹ جاری کیا لیکن ایف بی آر حکام نے صورتحال کی سنجیدگی کا احساس نہیں کیا۔
تحقیقات میں بتایا گیا کہ رجسٹرڈ افراد کو بلیک لسٹ کرنے کے علاوہ کروڑوں روپے کی رقم کی واپسی کے لیے کوئی کوششیں نہیں کی گئیں۔
اس کے علاوہ ایف بی آر اپنے ادارے کے اندر اور باہر جعلی رجسٹرڈ افراد کی سیلز ٹیکس رجسٹریشن میں ملوث ملزمان کا پتہ لگانے میں بھی ناکام رہا۔
واضح رہے کہ رقم کی واپسی کی رجسٹریشن اور اجرا ایک آسان کام نہیں ہوتا جس کے لیے ٹیم ورک کی ضرورت ہوتی ہے اس پورے عمل میں ایف بی آر اور بینک حکام شامل ہوتے ہیں۔
مزید پڑھیں: اے آر وائی پر ٹیکس چوری کا الزام، 99 کروڑ روپے ادا کرنے کا حکم
ایف ٹی او کے مطابق سی سی آئی آر آر ٹی او تھری کراچی نے محض یہ کہہ کر خود کو بری الذمہ کرنے کی کوشش کی تھی کہ آر ٹی او کی جانب سے ریڈ الرٹ موصول نہیں ہوا۔
ایف ٹی او نے کہا کہ ریفنڈز کی وصولی میں ناکامی اور ملزمان کے خلاف کارروائی شروع نہ کرنے کے سلسلے میں سی سی آئی آر آر ٹی او تھری کراچی کی خاموشی حیران کن ہے۔
علاوہ ازیں ایف ٹی او کی رپورٹ میں کہا گیا کہ یہ سراسر بد عنوانی کا معاملہ ہے، جہاں رجسٹرڈ افراد کو بلیک لسٹ کرنے کے علاوہ ایف بی آر رقوم کی واپسی کی برآمدگی کے لیے کارروائی شروع کرنے میں ناکام رہا۔
یہاں یہ بات بھی حیران کن ہے کہ ڈی جی آئی اینڈ آئی-آئی آر نے جعلی سرگرمیوں کا پتہ لگانے کے بعد ریڈ الرٹس جاری کیے لیکن اس معاملے کی پیروی نہیں کی گئی۔
یہ خبر 24 دسمبر 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی