ڈاکٹر عبدالقدیر نے نقل و حرکت پر پابندی سپریم کورٹ میں چیلنج کردی
اسلام آباد: جوہری سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ملک بھر میں آزادانہ نقل و حرکت سمیت ان کے بنیادی حقوق پر عملدرآمد کے لیے سپریم کورٹ آف پاکستان سے رجوع کرلیا۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے لاہور ہائی کورٹ کے 25 ستمبر 2019 کے اس فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ میں اپیل دائر کی جس میں ان کی اسی طرح کی درخواست کو اس بنیاد پر مسترد کردیا گیا تھا کہ ان کے تحفظ کے لیے ریاست کی جانب سے خصوصی سیکیورٹی اقدامات کا معاملہ ان کے دائرہ کار میں نہیں۔
عدالت عظمیٰ میں ایڈووکیٹ زبیر افضل رانا کے توسط سے جمع کروائی گئی ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی درخواست میں کہا گیا کہ آزادانہ نقل و حرکت سمیت بنیادی حقوق، معقول پابندیوں کی آڑ میں کسی کی پسند یا ناپسند پر کم یا سلب نہیں کیے جاسکتے۔
مزید پڑھیں: ڈاکٹر عبدالقدیر کی نقل و حرکت پر پابندی کے خلاف درخواست کی ان کیمرا سماعت منظور
درخواست میں یہ سوال کیا گیا کہ کیا سرکاری حکام کو درخواست گزار کو ان کے قریبی اور عزیزی لوگوں، سرونٹس، اہل خانہ کے افراد، دوستوں، صحافیوں، مختلف کالجز، یونیورسٹی کے اساتذہ، اعلیٰ حکام اور بیورو کریٹس سے ملنے سے روکنے کے آئینی تحفظ کی خلاف ورزی کی اجازت دی جاسکتی ہے؟
مذکورہ درخواست میں یہ بھی سوال کیا گیا کہ کیا لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے اس شکایت کے ازالے کے لیے درخواست گزار کو اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کا بنیادی مشورہ دینے کا جواز درست تھا؟
خیال رہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان پاکستان کے جوہری پروگرام کے علمبردار ہیں اور یہ ان امور سے وابستہ لوگوں کی انتھک محنت تھی کہ وہ ملک کو ایٹمی طاقت بنانے میں کامیاب ہوئے تھے۔
درخواست گزار کا کہنا تھا کہ انہوں نے پاکستان کو پڑوسیوں اور مخالفین کی بری نظر سے محفوظ کرنے کے لیے کیے گئے اپنے کام پر فخر محسوس کیا۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کہا کہ جب وہ پاکستان آئے تھے انہوں نے جوہری منصوبے پر کام شروع کردیا تھا جبکہ اپنی حیثیت کے مطابق ذاتی سیکیورٹی کا لطف بھی اٹھایا لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ سیکیورٹی ایجنسی کے اہلکار گھر کے دروازے پر کھڑے رہتے ہیں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ کسی کی ان تک رسائی نہ ہو۔
درخواست کے مطابق ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو سیکیورٹی حکام کی پیشگی منظوری کے بغیر ملک میں گھومنے پھرنے، کسی سماجی یا تعلیمی تقریب میں شرکت کرنے کی اجازت نہیں، یہ صورتحال درخواست گزار کو ورچوئل قید میں رکھنے کے مترادف ہے۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کہا کہ سیکیورٹی حکام کا یہ فعل غیر قانونی ہے کیونکہ ابھی تک میرے ساتھ ایسا سلوک رکھنے کا کوئی حکم نہیں دیا گیا جو اس بات کی ضمانت دیتا ہو، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ سیکیورٹی ایجنسیز کے اہلکاروں کی دوسری کوئی ذمہ داری نہیں لیکن مجھے اپنے گھر تک ہی محدود رکھ دیا گیا ہے جیسے میں قید تنہائی میں ہوں۔
ایٹمی سائنسدان کا کہنا تھا کہ یہ صورتحال جنوری 2004 میں شروع ہوئی جب انہیں سلامتی کے نام پر نظر بند کردیا گیا۔انہوں نے کہا کہ انہیں کسی دوست تک رسائی نہیں تھی یہاں تک کہ وہ کچھ گھروں کے فاصلے پر رہنے والی بیٹی اور اس کے بچوں سے بھی نہیں مل سکتے تھے جبکہ بری صورتحال یہ تھی کہ وہ عدالت سے بھی رسائی نہیں کرسکتے تھے۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کہا کہ 2008 میں حکومت کی تبدیلی کے بعد ان پابندیوں میں نرمی ہوئی۔
یہ بھی پڑھیں: میں خیریت سے ہوں، ڈاکٹر عبدالقدیر کا موت کی خبروں پر ویڈیو پیغام
درخواست میں کہا گیا کہ 25 ستمبر کو لاہور ہائی کورٹ نے ان کی درخواست کو سپریم کورٹ کے مقرر کردہ قانون کے مطابق نہ ہونے پر نمٹادیا تھا۔
ایٹمی سائنسدان نے کہا کہ ملک کے لیے ان کی خدمات کو متعدد مرتبہ تسلیم کیا گیا اور انہیں مختلف ایوارڈ سے نوازا گیا لیکن ان کے ساتھ جو سلوک کیا جارہا وہ آئین کے آرٹیکل 14 میں موجود ناقابل تسخیر آئینی وقار کی خلاف ورزی ہے۔
درخواست کے مطابق یہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا بنیادی حق ہے کہ وہ ملک بھر میں آزادانہ گھومیں اور کسی بھی فرد سے ملیں۔
ڈاکٹر عبدالقدیر نے کہا کہ انہیں مسلسل خوف میں رکھا جارہا ہے جس سے انہیں جسمانی نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے، وہ 84 سال کے بوڑھے شخص ہیں اور مختلف بیماریوں کا شکار ہیں لہٰذا ان کو مستقل طور پر اس طرح نہیں رکھنا چاہیے کیونکہ اس سے کسی جسمانی نقصان کا خدشہ ہے۔
یہ خبر 24 دسمبر 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی